کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) اور آل انڈیا کسان سبھا کے لیڈر امرا رام راجستھان کی سیکر لوک سبھا سیٹ سے جیت کر پارلیامنٹ پہنچے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں مذہب اور ذات پات کی سیاست چل رہی ہے اور اس کا خمیازہ وہ لوگ بھگت رہے ہیں جو محروم طبقات کی بات کرنا چاہتے ہیں۔
نئی دہلی: ‘لال-لال لہرائے گا، امرا دلی جائے گا۔’ 20 سال پہلے اچھالے گئے اس نعرے نے اب حقیقت کا روپ اختیار کر لیا ہے۔ راجستھان میں کسانوں کی تحریک اور بائیں بازو کی سیاست کے معروف نام – امرا رام ‘دلی آچکے ہیں’۔ سیکر سے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے امرا رام راجستھان کے بائیں بازو کےاکلوتے رکن پارلیامنٹ ہیں۔ جنوبی ہند میں تین سیٹوں کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے صرف سیکر میں کامیابی حاصل کی ہے۔
طالبعلمی کے زمانے سے ہی بائیں بازو کی تحریک کی طرف متوجہ ہونے والے امرا رام نے مرکزی دھارے کی سیاست کا آغازسرپنچ (1983 سے 1993) کے طور پر کیا تھا۔ چار بار سی پی آئی (ایم) کے ایم ایل اے اور تیز طرار کسان لیڈر امرا رام نے اس سے قبل 1993 سے 2003 کے درمیان تین بار دھود اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کی اور 2008 میں دانتارام گڑھ اسمبلی حلقہ سے کامیابی حاصل کی تھی۔
امرا رام کی شبیہ ایک ایسے لیڈر کی ہے جو انتہائی سادگی کے ساتھ زمین پر جدوجہد کرتا ہے۔ علاقے کے لوگ انہیں ‘کامریڈ’ بلاتے ہیں۔ وہ کئی تحریکوں میں سب سے آگے رہے ہیں۔ ایم ایل اے بننے کے بعد بھی وہ 13 ماہ تک کسانوں کے ساتھ سڑک پر رہ چکے ہیں۔ آل انڈیا کسان سبھا کے قومی نائب صدر، سی پی آئی (ایم) کے ریاستی سکریٹری اور نو منتخب ایم پی امرا رام نے دی وائر سے اپنی زندگی اور کام سے متعلق کئی پہلو پر تفصیل سے بات چیت کی ہے۔
بچپن، پرورش اور خاندان
میں ایک عام گھرانے سے ہوں۔ سیکر ضلع کے گاؤں منڈواڑہ میں پیدا ہوا۔ والد کھیتی باڑی کرتے تھے۔ ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ سب سے بڑے بھائی ہیڈ ماسٹر تھے، اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ان سے چھوٹے اور مجھ سے بڑے بھائی اب بھی کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ سب سے چھوٹے بھائی بھی کھیتی باڑی کرتے ہیں اور کھاد بیج کی ایک چھوٹی سی دکان بھی چلاتے ہیں۔ مجھ سے پہلے خاندان کا کوئی بھی سیاست میں نہیں تھا۔ کبھی کوئی پنچ بھی نہیں رہا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد پنچایت کے ہی دوسرے اسکول سے ثانوی سطح کی تعلیم حاصل کی۔ پھر سیکر کے شری کلیان گورنمنٹ کالج سے بی ایس سی کیا۔ میں ایمرجنسی مخالف تحریک میں شامل تھا، اس لیےمزید تعلیم کے لیے جب کالج نےداخلہ نہیں دیا تو میں گورکھپور یونیورسٹی سے بی ایڈ کرنے چلا گیا۔ ایمرجنسی کے بعد دوبارہ شری کلیان گورنمنٹ کالج لوٹا اور ایم کام کیا۔ دریں اثنا، 1979-80 میں اسٹوڈنٹ یونین (ایس ایف آئی سے) کاصدر رہا۔
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ
آزادی سے پہلے شیکھاوٹی کے علاقوں (سیکر، جھنجھنو اور چورو) سے مارواڑ تک انگریزوں اور جاگیرداری کے خلاف جو جدوجہد جاری تھا، اس میں آل انڈیا کسان سبھا نے بڑا کردار ادا کیا تھا۔ آج کا جو راجستھان ہے ، اس میں صرف اجمیر براہ راست انگریزوں کے ماتحت تھا اور اسی علاقے میں کانگریس بھی تھی۔ جہاں جہاں راج شاہی تھی وہاں کانگریس نہیں تھی۔ کانگریس کا ایک ہی نعرہ تھا کہ جاگیردار اور کسان، سب مل کر صرف انگریزوں سے لڑو، جاگیرداروں اور راجاؤں کی لوٹ پر بات نہ کرو۔ لیکن پھر صرف انگریزوں کی لوٹ نہیں تھی۔ انگریزوں سے بھی بڑی لوٹ جاگیرداروں کی تھی۔ 35-35 قسم کے ٹیکس تھے۔ جب مرضی آئے ، تب نکال دیتے تھے۔
آل انڈیا کسان سبھا کی تحریک کی وجہ سے آزادی سے پہلے ہی ریونیو ریکارڈ میں کھیتی باڑی کرنے والے کسانوں کے نام درج ہو گئے تھے۔ جہاں تحریک تھی وہاں یقیناً راجا اور نواب بے زمین ہو گئے اور جہاں تحریک نہیں تھی، وہاں آج بھی سیلنگ سر پلس زمین ہے۔ایک ایک راجا کے پاس نو نو ہزار ایکڑ اراضی آج بھی سیلنگ سر پلس ہے۔ اسی تحریک کی پیداوار تھے کامریڈ ترلوک سنگھ۔ وہ میرے ہاسٹل کے وارڈن بھی تھے۔ تب میں 9ویں جماعت میں تھا۔ وہ 1980 سے 1985 تک ایم ایل اے بھی رہے۔ اسی ہاسٹل میں غیر شادی شدہ رہتے ہوئے پوری زندگی کسانوں اور عوا م الناس کی لڑائی لڑی ۔
انہی سے تحریک لے کر میں زمانہ طالبعلمی سے ہی تحریکوں سے وابستہ ہو گیا۔ پہلے دو بار سرپنچ رہا۔ پھر چار بار ایم ایل اے بنا۔ 1993، 2003، 2008 میں لگاتار جیت حاصل کی۔ 2003 میں کانگریس اور بی جے پی ایک ساتھ لڑے لیکن پھر بھی امرا رام کو شکست نہ دے سکے تو سیٹ کو کانٹ چھانٹ کر سیٹ (دھود) ایس سی کے لیے مخصوص کر دی۔
انتخابی فتح: شخصی جدوجہد اور پارٹی کا کردار
پارٹی نے بھی بھرپور تعاون کیا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کے لیڈر کہتے تھے کہ دھود میں امرا رام جیتتا ہے، پارٹی نہیں جیتتی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب دھود کو ریزروکر دیا گیا اور میں الیکشن لڑنے کے لیے دانتارام گڑھ گیا،تب بھی دھود میں پیمارام نے کانگریس کے ارب پتی امیدوار کو شکست دی تھی۔ اس سے آپ پارٹی کے کردار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ہاں یہ سچ ہے کہ مجھے مسلسل لوگوں کے درمیان رہنے اور لڑنے کا فائدہ ملتا ہے۔ ایک بار کوئی ایم ایل اے بن جائے تو ایک دن بھی عوام کے ساتھ سڑکوں پر سونے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ میں چار بار ایم ایل اے بننے کے بعد میں (تحریک کے دوران) 13 ماہ تک سڑکوں پر سویا۔ بی جے پی اور کانگریس کے ایم ایل اے مجھ سے شکایت کرتے تھے کہ میں ایم ایل اے کی ساکھ کو خراب کر رہا ہوں۔ …یقینی طور پر جہاں دو قطبی سیاست ہے وہاں بائیں بازو کے لیے زندہ رہنا اور مسلسل جیتنا مشکل ہوتا ہے۔
پوری دنیا میں سامراجی طاقتیں حملہ آور ہیں، دائیں بازو کی طاقتیں جارحانہ سیاست کرتی ہیں، نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں مذہب اور ذات پات کی سیاست چل رہی ہے، تقسیم کی سیاست چل رہی ہے، ایسے میں یقیناً سب سے زیادہ نقصان ان کا ہوا ہے جو طبقاتی سیاست کرتے ہیں، جو کسانوں اور نوجوانوں کے مستقبل کی بات کرتے ہیں۔
راجستھان اور بائیں بازو کی سیاست
اگر آپ راجستھان کے پہلے الیکشن (1952) کو دیکھیں تو اس وقت کرشی کر لوک پارٹی نے راجستھان کی 46 اسمبلی سیٹوں پر مقابلہ کیا تھا اور سات جیتی تھیں۔ کسان سبھا کے آل انڈیا جنرل سکریٹری این جے رنگا ( ساکن آندھرا پردیش) نے اس پارٹی کو رجسٹر کرایا تھا۔ انتخابی نشان تھا- فصل برسات کسان۔ بعد میں کانگریس نے منظم طریقے سے مارواڑ کی کسان سبھا کو توڑ دیا۔ اس کے لیڈروں کو یہ لالچ دیا گیا کہ جب تک کانگریس اقتدار میں ہے وہ وزیر رہیں گے۔ انہیں الیکشن لڑنے میں مدد دی جائے گی۔
ایسی کوشش کی گئی ورنہ پوراے الور سے لے کر مارواڑ تک اور آدھے باڑمیرمیں کسانوں کی تحریک کا بہت مضبوط گڑھ رہا ہے۔ پھر وہی آگے چل کر کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔
ایم پی امرا رام کی ترجیحات
بیڈ گورننس (بی جے پی دور) میں جتنے کالے قانون بنے انہیں واپس لیا جانا چاہیے۔ آپ دیکھیں گے کہ پچھلے دس سالوں کی حکمرانی میں سب سے زیادہ فائدہ اڈانی گروپ کو ہوا ہے۔ 2014 تک گوتم اڈانی کو کوئی امیر کے طور پر نہیں جانتا تھا، آج وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے امیروں میں کی صف میں کھڑا ہو گیا ہے۔ بڑی کمپنیوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ مزدور، نوجوان اور چھوٹے تاجر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ دو لاکھ سے زیادہ چھوٹے کارخانے بند ہو چکے ہیں۔
آپ دیکھیے 15 سال کے بعد ٹریکٹر کوکباڑ میں بیچنا پڑے گا، کیوں؟ ٹریکٹر بنانے والی کمپنیوں کے لیے۔ جبکہ ٹریکٹر کسان کے کھیت میں استعمال ہوتا ہے۔ 40 سال پرانے ٹریکٹر بھی چل رہے ہیں۔ جہاں تک آلودگی کا تعلق ہے تو کسان صرف اپنے اور پڑوسیوں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور کہیں نہیں جاتے۔
کسانوں کی تحریک کا مستقبل
تحریک ختم نہیں ہوئی ہے۔ 9 دسمبر 2021 کو قانون واپس لیےگئے تھے، اس کے بعد تحریک معطل کر دی گئی۔ 2021 سے آج تک یہ تحریک مختلف مراحل میں چل رہی ہے۔ ملک میں کوئی سوئی اور ماچس بناتا ہے اس کی ایم آر پی ہے۔ کسان تو 140 کروڑ لوگوں کے لیے روٹی پیدا کرتا ہے، اس کی ایم ایس پی کی مانگ کیوں نہیں تسلیم کی جا سکتی؟ مودی تو خود پہلے ایم ایس پی کے حامی رہے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے منموہن سنگھ کو خط بھی لکھا تھا۔ اب جبکہ ان کی حکومت اقتدار میں ہے، وہ سپریم کورٹ کو لکھ رہے ہیں کہ اگر کسانوں کو ایم ایس پی دیا جائے تو ملک کنگال ہو جائے گا۔ کیا کسانوں کو ان کی فصل کی قیمت مل گئی تو ملک کنگال ہو جائے گا؟
…حکومت نے کسانوں کے ٹریکٹروں کو دہلی میں داخل نہیں ہونے دیا، اس لیے میں پہلے دن ٹریکٹر سے ایوان پہنچا۔ اب روک کر دکھائیں کسان کا ٹریکٹر۔ میں اسی مودی کے سامنے بیٹھتا ہوں۔
کھیتی یا صنعتی ترقی؟
زراعت کو ترقی دے کر ہی آپ صنعتی ترقی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہندوستان کی 65 فیصد آبادی کسی نہ کسی طریقے سے زراعت سے منسلک ہے۔ انہیں مضبوط کیے بغیر آپ صنعتی ترقی حاصل نہیں کر سکتے۔ جب ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کی جیب میں پیسے نہیں ہوں گے تو صنعت میں تیار ہونے والی اشیاء خریدے گا کون؟
پوری دنیا میں کساد بازاری کا دور دورہ ہے۔ کساد بازاری تب ہی ختم ہوگی جب پیسہ عوام کے پاس جائے گا۔ آزادی کی آٹھ دہائیوں کے بعد بھی ہم صرف غذائی اجناس میں خود کفیل ہو سکے ہیں۔ آج بھی ہمیں تلہن اور دلہن دوسرے ممالک سے خریدنی پڑتی ہیں۔ آج بھی زراعت میں ترقی کی ضرورت ہے۔ کسانوں کو خوشحال بنانے کی ضرورت ہے اور پھر صنعتی ترقی کی ضرورت ہے۔ مطلب، اگر آپ زراعت کو ترقی دیتے ہوئے صنعتی ترقی کرتے ہیں، تو میرے خیال میں یہ پائیدار ترقی ہے۔ ورنہ آپ فیکٹری لگا لیں گے لیکن خریدار نہیں ملیں گے۔
یقیناً آبادی بڑھ رہی ہے لیکن زمین تو نہیں بڑھے گی بلکہ ہمیں پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا۔ اگر کھیتی باڑی پر توجہ نہ دی گئی تو لوگ یہ کام کرنا چھوڑ دیں گے جو کہ ملک کے لیے نقصاندہ ہوگا۔
(انکت راج کے ساتھ بات چیت پر مبنی)