گراؤنڈ رپورٹ : 16 فروری کو ناگور کے دو نوجوانوں کو کرنو گاؤں میں چوری کے الزام میں بےرحمی سے پیٹا گیا، جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے کے بعدکانگریس رہنما راہل گاندھی اور وزیراعلیٰ اشوک گہلوت سمیت تمام بڑے رہنماؤں نےملزمین کو سزا اور متاثرین کو انصاف دلانے کی بات کہی، لیکن متاثرین اور ان کی فیملی اس کو لےکر مطمئن نظر نہیں آتے۔
متاثرہ دلت نوجوان ویسارام نایک۔ (سبھی فوٹو : اودھیش آکودیا/دی وائر)
گزشتہ ڈیڑھ ہفتے سے سیاسی گہماگہمی کا مرکز رہے راجستھان کے ناگورضلع کے تانتواس گاؤں کا معمول آہستہ آہستہ پٹری پر لوٹ رہا ہے۔حزب اقتدار اور حزب مخالف کے رہنماؤں کے درمیان یہاں آنے کی ہوڑتھم چکی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسروں کا ہجوم بھی اب یہاں نہیں ہے۔اس ہجوم سے عاجز آ چکے گاؤں والے اب سکون محسوسکر رہے ہیں، لیکن ویسارام اور ان کی فیملی کو یہ سکون سناٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔
24 سالہ ویسارام وہی شخص ہے، جن کےساتھ گزشتہ16 فروری کو چند روپیوں کی چوری کے
الزام میں گھنٹوں تک بے رحمی سےمارپیٹ کی گئی اور ان کی شرمگاہ میں پٹرول ڈالا گیا۔اس گھناؤنے واقعہ کا ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو اس کودیکھکر ہرکوئی حیرت زدہ رہ گیا۔ اپنے ساتھ ہوئی درندگی کے بارے میں پوچھتے ہی ویسارام کے چہرے پر تناؤ کی لکیریں صاف دکھائی دیتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں، صاحب، میں اب تک سینکڑوں لوگوں کو آپ بیتی سنا چکاہوں۔ بار بار سنانے سے کیا ہوگا؟ بھگوان کے لئے مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ میں پہلےسے ہی بہت پریشان ہوں، مجھے اور پریشان مت کرو۔ویسارام کے چچا کے بیٹے پنارام ان کو ٹوکتے ہوئے کہتے ہیں،زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ پتہ پڑنا چاہیے کہ ہمارے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤہوا۔ تبھی تو ایسا کرنے والوں کو سزا ملےگی۔ پوری دنیا ویڈیو دیکھ چکی ہے۔ اب کیالحاظ کرنا۔20 سال کے پنارام اس معاملے کے وقت ویسارام کے ساتھ تھے اور ان کے ساتھ بھی مارپیٹ کی گئی تھی۔
ان کی بات سنکر ویسارام بتانا شروع کرتے ہیں،16تاریخ کو میں پنارام کے ساتھ اپنی موٹرسائیکل کی سروس کروانے کرنو گاؤں کی ایجنسی پر گیا تھا۔جب میں کاؤنٹر کے پاس سے نکل رہا تھا تو ایجنسی کے مالک بھیم سنگھ نے مجھ سےموٹرسائیکل کی دو بقایہ قسط کو لےکر تقاضہ کیا۔ میں نے اوربیٹے نے فصل بکنے کے بعدسود سمیت پوری رقم چکانے کی بات کہی، انہوں نے میرے ساتھ دھکا-مکی شروع کر دی۔کہنے لگے کہ تو نے پیسے چرائے ہیں۔ میں نے ہاتھ جوڑکر کہا کہ میں نے چوری نہیں کی ہے مگر انہوں نے میری ایک نہیں سنی۔
ویسارام آگے کہتے ہیں،میں کچھ سمجھ پاتا اس سے پہلے ہی آئی دان سنگھ، جسو سنگھ، سوائی سنگھ، لکشمن سنگھ، ہنومان سنگھ اور گنپت رام نے میرے اورپنارام کے ساتھ مارپیٹ شروع کر دی۔ میں نے ان لوگوں سے کئی بار معافی مانگی۔ میں لگاتار چلاتا رہا کہ مجھے مت مارو مگر کسی نے مجھ پر رحم نہیں کیا۔انہوں نے آگے بتایا،یہ لوگ مجھے سروس سینٹر کے پیچھے لے گئے اورمجھے جانوروں کی طرح مارا۔ بھیم سنگھ نے مجھے زمین پر الٹا پٹک دیا۔ آئی دان سنگھاور سوائی سنگھ نے یہ دونوں میرے ہاتھ پکڑ لئے۔ لکشمن سنگھ میری پیٹھ پر کھڑا ہوگیا اور ہنومان سنگھ نے پیچ کش کے آگے کپڑا باندھا اور اس کو پٹرول میں بھگوکرمیری شرمگاہ میں ڈال دیا۔
اتنا کہتے ہی ویسارام پھپھک پڑتے ہیں اور اشارے سے پنارام کو آگےبتانے کو کہتے ہیں۔ پنارام بتاتے ہیں،انہوں نے میرے ساتھ بھی مارپیٹ کی مگرویسارام کو بری طرح مارا۔ مارپیٹ پیٹنے والوں کے تھکنے پر ہی بند ہوئی۔ ویسارام کی حالت خراب ہونے لگی تو انہوں نے ہمارے پڑوس میں فون کیا۔ بڑا بھائی درگارام ایجنسی آیا تو 5100 روپے جرمانہ دینے پر ہم دونوں کو چھوڑنے کی بات کہی۔ ہمارے پاس پیسےنہیں تھے۔ جیٹھو سنگھ جی اور ارجن سنگھ جی نے گارنٹی لی تو ہمیں چھوڑا۔ وہاں سے ہم ہاسپٹل گئے اور گھر آئے۔
یہ پوچھنے پر کہ اتنا سب ہونے کے بعد بھی مقدمہ درج کیوں نہیں کروایا، ویسارام کہتے ہیں، تھانہ میں اس لئے نہیں گئے، کیونکہ ہمارے درمیان راضی نامہ ہو گیا تھا۔ مقدمہ بازی میں ہماری کون سنتا۔ وہ بڑے آدمی ہیں۔ پولیس بھی ان کی سنتی ہے۔
ویسارام کی جھوپڑی کے باہر ان کے اہل خانہ۔
غور طلب ہے کہ موٹر سائیکل کی جس ایجنسی میں ویسارام اور پنارام کے ساتھ وحشیانہ طریقے سے مارپیٹ ہوئی وہ موتی ناتھ پورا گاؤں کے بھیم سنگھ کی ہے،جو راجپوت کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے۔اس ایجنسی پر کام کرنے والے زیادہ تر لوگ ان کے رشتہ دار ہیں۔ جس ہنومان سنگھ نے ویسارام کی شرمگاہ میں پٹرول ڈالا وہ بھیم سنگھ کا بھائی ہے۔بھیم سنگھ کی فیملی کے علاقے میں خاصا دبدبہ ہے۔ پولیس کی کارروائی بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ متاثرہ نوجوانوں نے تھانہ میں مقدمہ درج نہیں کروایا،لیکن علاقے کے لوگوں میں اس واقعہ کا تذکرہ 16 فروری کی شام سے ہی ہونے لگا۔ اسی دن رات کو درندگی کے ویڈیو بھی وائرل ہونے لگے۔اتنا سب ہونے کے باوجود پولیس کی آنکھیں 19 فروری کو کھلی۔ ناگورواقع کنٹرول روم نے وائرل ہو رہے ویڈیو کی جانچ کی، تب معاملے کی جانکاری پولیس کوہوئی۔ معاملہ پولیس کے علم میں آنے کے بعد جو ہوا وہ اور زیادہ چونکانے والا ہے۔
متاثرہ ویسارام کے بڑے بھائی درگارام بتاتے ہیں،ہمیں پولیس نےپانچوڑی تھانہ میں بلایا۔ تھانیدار صاحب نے ویسارام اور پنارام سے شکایت لینے کےبجائے بھیم سنگھ کو وہاں بلا لیا۔ ان کے ساتھ کئی لوگ اور بھی تھے۔ ہمیں دھمکایاگیا۔ تھانیدار صاحب نے ہمیں کہا کہ رپورٹ کرانے سے کیا ہوگا، تمہارے خلاف بھی چوری کی رپورٹ درج ہوگی۔ تم کو بھی جیل جانا پڑےگا۔ آخر میں راضی نامہ کرنا ہی پڑےگا اس لئے ابھی سمجھوتہ کر لو۔ ہمیں پیسے کا لالچ بھی دیا گیا۔
یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ پانچوڑی تھانہ انچارج راجپال سنگھ بھی اسی راجپوت کمیونٹی سے ہیں، جس سے کلیدی ملزم بھیم سنگھ ہیں۔متاثرہ کی فیملی کے الزام کو نظرانداز کر دیا جائے توبھی تھانہ انچارج پر ملزمین کے حزب لینے کے کافی ثبوت ہیں۔ پہلا تو یہ کہ انہوں نے متاثرین کی طرف سے درج شکایت پر مارپیٹ کی عام دفعات (تعزیرات ہندکی دفعہ342، 323، 341اور 143)اور ایس سی-ایس ٹی ایکٹ میں مقدمہ درج کیا۔
دوسرا یہ کہ متاثرین کے خلاف بھی چوری کا مقدمہ درج کیا۔ تیسرا یہ کہ متاثر ہ ویسارام اور پنارام کا میڈیکل مقدمہ درج ہونے کے اگلے دن یعنی 20 فروری کو کروایا۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پانچوڑی تھانہ کے ایک سپاہی تھانہ انچارج راجپال سنگھ کی طرف سے کئے گئے’کھیل’کو اجاگر کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں، صاحب کے بھیم سنگھ سے خوب دوستی رہی ہے۔ میڈیا میں خبر آنے کے بعد اعلیٰ افسروں کا دباؤ نہیں ہوتا تو کسی بھی قیمت پر مقدمہ درج نہیں ہوتا۔ مقدمہ درج کرنے سے پہلے صاحب نے متاثرین کو خوب دھمکایا۔ کئی گھنٹوں تک ان کو بٹھاکر رکھا جبکہ ملزمین کو مقدمہ درج کرنے بعدگھر بھیج دیا۔ افسروں کےفون آئے تو بلاکر اریسٹ کیا اور متاثرین کو کئی گھنٹے بعد چھوڑا۔
حالانکہ ان الزامات کو راجپال سنگھ سرے سے خارج کرتے ہیں۔ وہ کہتےہیں، ملزمین کو بچانے کا الزام غلط ہے۔ جانکاری ملتے ہی میں نے مقدمہ درج کیااور ملزمین کو فوراً گرفتار کیا۔
ویسارام کے گھر کے باہر جمع بھیڑ۔
البتہ ناگور کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر وکاس پاٹھک تھانہ انچارج اورملزمین کےبیچ ملی بھگت کی تفتیش کروا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،متاثرہ فیملی اورسنگھرش سمیتی کی مانگ پر ہم نے ان کو اتنا بھروسہ دلایا ہے کہ پانچوڑی تھانہ اسٹاف ہی نہیں، بلکہ 16 سے 19 فروری تک میرا بھی کال ڈٹیل ریکارڈ نکلوایا جا رہا ہے۔ اگرکوئی گڑبڑی ملےگی تو فوراً کارروائی ہوگی۔
حالانکہ ناگور رکن پارلیامان ہنومان بین یوال کو اس جانچ پر بھروسہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں،16 فروری کے واقعہ کا19 فروری کو ایف آئی آر درج ہونا۔عام مارپیٹ کی دفعات لگانا اور متاثرین کو تھانہ میں بٹھانا اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ پولیس ملزمین سے ملی ہوئی ہے۔ صرف ایس ایچ او ہی نہیں، ایس پی کی بھی اس میں ملی بھگت ہے۔ حکومت کو ایس پی کو فوراً اے پی او کرنا چاہیے اور ایس ایچ او کوسسپنڈ کرنا چاہیے۔ جب تک یہ دونوں یہاں رہیںگے اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تفتیش نہیں ہو سکتی۔ جب تفتیش ہی صحیح نہیں ہوگی تو متاثرین کو انصاف کیسے ملےگا۔
کھینوسر ایم ایل اے نارائن بینی وال نےبھی انہی الزامات کو دوہرایا۔وہ کہتے ہیں،ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ اس معاملے میں ناگور ایس پی اور ایس ایچ او کا کردار مشکوک ہے۔ ہماری پارٹی نے دونوں کو وہاں سے ہٹانے کے لئے اسمبلی اور کھینوسر میں دھرنا دیا۔ اسمبلی میں کئی بار اس مانگ کو اٹھایا۔سیاسی دباؤ کے باوجود حکومت نے پولیس سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر وکاس پاٹھک کو تو عہدے سے نہیں ہٹایا، لیکن پانچوڑی تھانہ انچارج راجپال سنگھ کو وہاں سے ہٹادیا ہے۔ حالانکہ ان کو معطل کرنے کے بجائے لائن حاضر کیا گیا ہے۔
سیاسی بیان بازی کے درمیان پولیس اب کوئی کوتاہی نہیں برتنا چاہتی۔پولیس ڈائریکٹر جنرل بھوپیندر یادو کہتے ہیں،معاملہ سامنے آتے ہی فوری کارروائی کی گئی ہے۔ اب تک 8 ملزمین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ معاملے میں جلدی چالان پیش کرنے کے لئے اس کی تفتیش کیس آفیسر اسکیم کے تحت کی جا رہی ہے۔ جرم کی سنگینی کودیکھتے ہوئے کئی دفعات جوڑی گئی ہیں۔ قصورواروں کو بخشا نہیں جائےگا۔ ان کےخلاف سخت کارروائی کی جائےگی۔
واضح ہو کہ اس واقعہ کا ویڈیو سامنے آنے کے بعد کانگریس رہنماراہل گاندھی نے ٹوئٹر پر اس بارے میں لکھتے ہوئے ریاستی حکومت سے فوراً کارروائی کی اپیل کی تھی۔ وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے بھی متاثرین کو انصاف ملنے کا بھروسہ دیاتھا۔
باوجود اس پوری قواعد کے متاثر ین انصاف کو لےکر ناامید ہیں۔ ویسارام کہتے ہیں،صاحب میں غریب اور ان پڑھ آدمی ہوں۔ شروعات میں بہت سارے لوگ ملنے آئے،لیکن جیسےجیسے معاملہ ٹھنڈا ہوتا جائےگا ویسے-ویسے میں اکیلا ہوتا جاؤںگا۔ آخرمیں مجھے اور میری فیملی کو ہی لڑائی لڑنی ہے۔ مقدمہ بازی لمبی چلےگی۔ پندرہ-بیس سال تو لگ ہی جائیںگے۔ ویسے بھی بڑے لوگوں کو سزا ملتی ہی کہاں ہے۔ ان کی تو سب جگہ سیٹنگ ہوتی ہے۔ بچنے کے سو راستے ہیں۔
ویسارام اور ان کی فیملی کو قانونی داؤپیچ سے زیادہ فکر ملزمین کےاثر ورسوخ کی ہے۔
ویسارام کے والد جگدیش رام کہتے ہیں،کیس-مقدمہ تو چلتا رہےگا،لیکن ہمیں رہنا تو یہیں ہے۔ دشمنی مول لےکر یہاں کیسے رہیںگے۔ ان کے سبھی لوگ جیل چلے گئے ہیں۔ موٹرسائیکل کی ایجنسی بھی بند ہو گئی ہے۔ کمپنی پورا مال اٹھاکر لےگئی ہے۔ وہ لوگ ہمیشہ تو جیل میں رہیںگے نہیں۔ ایک نہ ایک دن باہر آئیںگے ہی۔یہ پوچھنے پر کہ ملزمین کی فیملی کی طرف سے کوئی دھمکی تو نہیں ملرہی، جگدیش رام ٹوکتے ہوئے کہتے ہیں،بات دھمکی کی نہیں، سماج کی ہے۔ دشمنی مول لےکر کوئی نہیں رہنا چاہتا۔
جھوپڑی میں بیٹھے فیملی کے باقی ممبروں کا بھی یہی کہنا ہے۔ پوری فیملی کو ملزمین کو سزا ملنے سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ اس خوفناک منظر کو کیسےبھولیںگے اور زندگی پٹری پر کب لوٹےگی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔ )