گزشتہ 20 جون کو راجستھان کے الور ضلع کے بہادر پور میں ہجوم نے ایک مسجد میں توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ آگ لگا دی تھی۔ الزام ہے کہ اس دوران بھیڑ نے ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگانے کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز تبصرے بھی کیے تھے۔
راجستھان کے الور میں واقع بہادر پور کی مسجد۔ (تصویر: یاقوت علی)
الور: راجستھان کے الور ضلع کے بہادر پور میں گزشتہ 20 جون کو ایک مسجد میں آگ لگا دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزمین میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایک مقامی لیڈر بھی شامل ہے۔
پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 143، 153 اے، 295 اے، 427، 436، 504 اور 506 کے تحت 50 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
ایف آئی آر میں نامزد 14 ملزمین میں رمن گلاٹی، بھاویک جوشی، رگھویر سینی، منوہر لال سینی، گردھاری لال جوشی، اوتار سردار، رتن سینی، بابولال سینی، خوشی گجر، برہما منی، سبھاش، کیلاش، پرمود اور منوہر شامل ہیں۔
ملزمین میں سے ایک رمن گلاٹی بی جے پی کے رکن ہیں۔ وہ پارٹی کے الور منڈل کے سابق نائب ضلعی صدر رہ چکے ہیں۔
بی جے پی کے پوسٹر پرملزم رمن گلاٹی۔
چند ماہ قبل تک مسجد کا استعمال بند ہوگیا تھا اور حال ہی میں مقامی لوگوں نے وہاں دوبارہ نماز ادا کرنا شروع کی ہے۔ دریں اثنا، 20 جون کی دو پہر 3 بجے مبینہ طور پر ایک ہجوم آئی اور مسجد میں آگ لگا دی، جس سے جائے نماز کے طور پر استعمال کی جانے والی چٹائیاں اور پردے جل کرتباہ ہو گئے۔ حملہ آوروں نے عمارت کی کھڑکیوں کے شیشے بھی توڑ ڈالے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ رمن اور دیگر ملزمین نے مبینہ طور پر اشتعال انگیز نعرے لگائے۔
مقامی رہائشی جاوید خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملزمین کو ‘جئے شری رام’ کا نعرے لگاتے ہوئے سنا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز تبصرے بھی کیے۔
مقامی لوگوں نے کہا کہ پولیس ایف آئی آر درج کرنے میں چاق وچوبند تھی اور لوگ علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔
ایک مقامی شخص شیر محمد نے دی وائر کو بتایا کہ اسمبلی انتخابات قریب آ رہے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ انتخابی فائدے کے لیے اس طرح سےفرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دی جا سکتی ہے۔
ماناجاتا ہے کہ پہاڑی پر بنی یہ مسجد وقف کی زمین پر ہے۔
سال 1997 سے 2002 تک ضلع الور کے وقف بورڈ کے چیئرمین اور 1990 سے وقف کے رکن مولانا حنیف نے کہا، 1965 کے سروے کے مطابق، گزٹ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ سید شاہ جمال کی درگاہ اور مسجد اس زمین پر ہیں۔ ‘
سال 1995 میں ہوئے ایک اور سروے میں ،جس میں حنیف نے شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سروے میں کہا گیا ہے کہ زمین اپنے خصوصی نمبر کی بنیاد پر رجسٹرڈ ہے۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) سریش کھنچی نے کہا کہ پولیس نے دونوں فریقوں سے واقعہ کے بعد ڈھانچے کو چھونے یا اس میں تبدیلی کی کوشش نہ کرنے کو کہا ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔