یوم وفات پر خاص :سدا کا عاشق مزاج راج کپور اپنی فلموں میں سماجی برائیوں کے مد مقابل محبت کو لا کھڑا کرتا تھا۔ نا انصافیوں کے سامنے راج کپور کی فوج میں سپاہی نہیں بلکہ امن کا جھنڈا تھامے ، پیار کے ترانے گاتے عاشق ڈٹے نظر آتے ہیں۔
چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
سعدی شیرازی نے لکھا کہ ایک بار دمشق میں ایسی خشک سالی ہوئی کہ عشق کا بھی کال پڑ گیا، اور لوگ محبت کرنا بھول گئے۔میرا آبائی شہر پشاور بھی کم و بیش دس سال تک ایک شدید کرب میں مبتلا رہا؛ مذہب کے نام پر دہشت گردی کا کرب جس کی وجہ سے فن و ادب و شاعری و موسیقی کے سوتے سوکھتے چلے گئے۔ اب تو کچھ عرصہ سے حالات بہتر ہو چلے ہیں مگر اس وقت بھی جبکہ روزانہ بموں کے دھماکے پشاور میں قیامت برپا کر رہے تھے عام پشاوری شہری کا رویہ ایک بہت پرانا گیت یاد دلا دیتا تھا کہ:
آباد نہیں برباد سہی، گاتا ہوں خوشی کے گیت مگر
زخموں سے بھرا سینہ ہے مرا ، ہنستی ہے مگر یہ مست نظر
یہ لافانی گیت مزاح اور رنج کا ایک عجب امتزاج اپنے اندر سموئے ہے اور یہی اوصاف، یعنی آنکھوں میں درد اور ہونٹوں پر مسکراہٹ اس گیت گانے والے کردار یعنی آوارہ کا طرۂ امتیاز تھے۔ اور یہ آوارہ کوئی اور نہیں بلکہ پشاور کے نامور سپوت راج کپور تھے جو آج سے تیس سال قبل پرلوک سدھار گئے۔
14 دسمبر 1924 کو پشاور کے محلہ ڈھکی منور شاہ کے ایک بلند و بالا مکان میں ایڈورڈز کالج کے طالبعلم پرتھوی راج کپور اور ان کی اہلیہ راما دیوی کے ہاں ایک نیلی آنکھوں والا سرخ و سپید لڑکا پیدا ہوا جس کا نام رنبیر رکھا گیا۔ کوئی اسے لشکری بلاتا تھا، کوئی چسٹو اور کوئی گورا مگر دنیا میں وہ راج کپور یا اس کے انگریزی مخفف آر کے RK کے نام سے مشہور ہوا۔ اس مکان کو جن مکینوں سے شرف تھا وہ چند سال بعد بمبئی چلے گئےگو کہ عمارت اب بھی قائم ہے مگر جانے والوں کا گھر اب بھی پشاوریوں کے دل میں ہے۔ اس زمانے میں یوں بھی پشاور سے پھل، پھول اور پرفارمر دساور کو جاتے تھے، گزشتہ دہائی جیسی بری خبریں نہیں۔
Somebody sent this. Picture showing Randhir and me outside the Kapoor Haveli, Peshawar.Warmly greeted as seen in pic pic.twitter.com/TjfugQ9daw
— Rishi Kapoor (@chintskap) January 27, 2016
راقم کو یہاں یہ مقصود نہیں کہ اس میدان میں قدم دھرا جائے جہاں کبھی پاک و ہند کے جغادری فلمی صحافیوں بابو راؤ پٹیل، کلئیر مینڈونکا، ، بنی روبن، آئی اے رحمان اور اسد جعفری وغیرہ کا ڈنکا بجتا تھا۔ خواہش بس اتنی ہے کہ اپنے اس ہمسائے کو اس کی برسی پر یاد کیا جائےکہ جس کو ہم نے فقط سکرین پر دیکھا مگر جس کا فن سرحدوں، مذاہب اور روایات کی قید بلکہ زمانے کی قید سے بھی آزاد رہا ہے۔
سویت یونین میں کامریڈ برودیاگا، ترکی میں آوارے اور ایران میں آغائےآوارہ کہلانے والے راج کپور نے روشنیوں اور پرچھائیوں کی دنیا یعنی فلم کو ایک ایسی سماجی حقیقت پسندی عطا کی جو بھرپور طور پر سیکولر افکار میں گڑی ہوئی تھی-سن 2005 میں امریکی مجلے ٹائم نے تمام ادوار کی سو بہترین فلموں کا انتخاب کرتے ہوئےلکھا کہ “اپنے ملک کے اولین و نخستین اداکار سے بڑھ کر کرۂ ارض کے لیے راج کپور ہی ہندوستان کی رعنائی، توانائی اور اداسی تھا۔ٗٗٗ
1940 کی دہائی ساری دنیا اور بالخصوص ہندوستان میں سخت آشفتگی و آشوب کا زمانہ تھا۔ ادھر ہندوستانی سنیما نے باکس آفس پر کامیابی کا فارمولا دریافت کرلیا تھا جس کے چیدہ چیدہ اجزاء خیالی کہانیوں، گانوں اور رقص پر مبنی تھے۔ اسی اتھل پتھل کے دور میں نوجوان راج کپور بطور اداکار و ہدایت کار اپنی جگہ بنانے کی جستجو میں تھا۔ رومانویت کی جانب اپنے ذاتی رجحان کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے راج کپور کو دوسری عالمگیر جنگ اور پھر ہندوستان کی تقسیم اور آزادی سے جنم لینے والی سماجی حقیقتوں کا بھرپور احساس تھا۔ راج کپور کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ جنگ، نوآبادیاتی نظام اور سرمائے کی ابتدائی عالمگیریت globalization کے ہندوستانی سماج پر پڑنے والے اثرات سے چشم پوشی کرتا۔مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ فلم بینوں کو پرولتاری سماجی حقیقت کی شدید دھونی دے کر ان کا دم ہی گھونٹ ڈالے۔
یہ بھی پڑھیں : یادوں کے سہارے : ششی کپور پشاوریوں کو یاد آتے رہیں گے…
اپنے لافانی شاہکار کے بارے میں بات کرتے ہوئے راج کپور نے ایک مرتبہ کہا کہ “جب آوارہ آئی تب فلمیں بالکل مختلف ڈھب کی ہوتی تھیں۔ ہم پر برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے اثرات بدستور موجود تھے مگر ہم ایک نیا سماجی نظام چاہتے تھے۔ میں نے یہ کوشش کی کہ جو کچھ میں عوام سے کہنا چاہتا ہوں اس میں اور تفریح میں ایک توازن پیدا کروں۔ آوارہ میں وہ سب کچھ تھا …ہونٹوں پر گیت اور ہاتھ میں پھول تھامے (آوارہ) سماجی اور اقتصادی مصائب سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ لوگ جو تبدیلی (سماج اور زندگی) میں چاہتے تھے اس کی روح ان کو اس نوجوان میں نظر آئی جو بے گھر، آوارہ تھاٗٗ
راج کپور کا عوامی سیکولرازم سنیما سکرین پر اس تحریک سے کئی دہائیاں پہلے جنما جسےparallel یا متوازی سنیما کا نام دیا اور جو بظاہر تو ترقی پسند سوچ کی علمبردار تھی مگر بسا اوقات ایک لذت پسند انحطاط اور شکست خوردہ سی ذہنیت کا شکار بھی نظر آئی۔ سوچنے پر مجبور کرنے کے نام پر کبھی کبھی اس تحریک نے فلم بین کو سنیما گھر سے ہی بھاگنے پر مجبور کردیا اور نتیجتاً خود آرٹ ہاؤس اور ڈرائنگ روم تک محدود ہوتے ہوتے بچی۔
راج کپور نے جو مسائل پچاس، ساٹھ سال پہلے اٹھائے ان میں سے کئی کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک سماجی مبصر ارون شری واستو نے راج کپور کی فلم اناڑی(1959)، جس کے ہدایت کار ہریش کیش مکھرجی تھے، کی ذیلی کہانی کے بارے میں لکھا تھا۔ فلم میں دواساز کمپنی کا مالک سیٹھ یہ جانتے ہوئےبھی انفلوئینزا کی دوا بازار سے واپس نہیں اٹھاتا کہ وہ ناقص اور مضر ہے۔ بلکہ وہ یہ خبر پھیلنے بھی نہیں دیتا اور مرکزی کردار اناڑی کی مالکہ مکان مسز ڈیسا مہلک دوا کھا کر مر جاتی ہے۔ آج کے دور میں بھی کئی مرتبہ کارپوریٹ ذمہ داری اور مجرمانہ منافع خوری کے درمیان فرق نظر نہیں آتا۔ چند سال قبل انفلوئینزا کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دو مشہور دوائیں یہ کہہ بیچی گئیں کہ یہ سوائن فلُو کا علاج بھی کرتی ہیں مگر اس کا کوئی واضح ثبوت نہ تھا۔
1955 کی فلم شری 420 میں مرکزی کردار راج کپور ایک سیٹھ کے لیے کام کرتا ہے جو لوگوں کو گھر بنا کر دینے کے نام پر ان سے دھوکہ کر رہا ہوتا ہے۔ فلم میں راج کپور کے فٹ پاتھ پر سونے والے ساتھی اور دوست اپنی زندگی بھر کی کمائی اس پر اعتماد کرکے سیٹھ کی اس “سنہری شگوفہ” اسکیم میں لگا دیتے ہیں جسے آج pyramid یا ponzi فراڈ کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں ماضی قریب میں اسی نوعیت کی نوسر بازی میں اربوں ڈالر کی خرد برد پر سٹاک بروکر برنی میڈوف ڈیڑھ سو سال قید کی سزا دی گئی تھی۔
مگر سدا کا عاشق مزاج راج کپور اپنی فلموں میں ایسی سماجی برائیوں کے مد مقابل محبت کو لا کھڑا کرتا تھا۔ نا انصافیوں کے سامنے راج کپور کی فوج میں سپاہی نہیں بلکہ امن کا جھنڈا تھامے ، پیار کے ترانے گاتے عاشق ڈٹے نظر آتے ہیں۔ راج کپور کی ہیروئن ہمیشہ خیر کی قوت کی علامت کے طور پر نظر آتی تھی جیسے نرگس جی جن کا فلم شری 420 میں نام ودیا ہوتا ہے اس بے ایمان سیٹھ کے سامنے نظر آتی ہیں جس کا نام سونا چند دھرمانند ہے اور جس کی ساتھی مایا ہے۔ خیر اور شر کی یہ جدلیاتی کشمکش راج کپور کی فلموں کا نہ صرف تانا بانا بُنتی ہے بلکہ کلائمکس میں آوارہ، اناڑی یا چھلیا کو اس کے ذہنی کرب سے مُکتی دلا کر خیر کے محاذ پر نکل پڑنے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔
سعدی نے یہ بھی کہا کہ درخت جب بارآور ہوتا ہے تو جُھک جاتا ہے۔ راج کپور کی کیفیت بھی بعینہِ یہی تھی۔ وہ خود کہتے تھے کہ ان کا کام ایک آرکسٹرا کے کنڈکٹر کا ہے جو ایک سمفنی کنڈکٹ کر رہا ہے کہ کس ساز کو کہاں اونچا بجنا ہے اور کہاں دھیما۔ بعض لوگ راج کپور کو چمبور کا شیر بھی کہتے تھے مگر انہوں نے کامیابی میں سے شیر کا حصہ اپنے لیے نہیں رکھا۔ وہ مکیش کو اپنی آواز کہتے تھے، موسیقاروں شنکر اور جے کشن،گیت کار شیلندر اور حسرت جے پوری کی عزت کرتے تھے اور اپنی کامیابی کا سہرا ان کے سر باندھتے تھے۔ شیلندر کے تو اتنے گرویدہ تھے کہ انہیں کوی راج کا خطاب دے رکھا تھا۔
راج کپور سچ اور پیار کی پرستش کرتے تھے اور اپنی فلم ستیم، شوم، سندرم میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ لوگ خدا کی تلاش میں رہے جو عشق اور سچائی جیسی خوبصورتیاں ہی تو ہے۔ اور فلم جاگتے رہو (1956) میں یہ کلیہ بیان کیا کہ بدعنوانی تلاش کرنے کے لیے پہلے اپنے گریبان میں جھانکو۔ جاگتے رہو کا انتم گیت”جاگو موہن پیارے جاگو” یوں تو بھجن معلوم ہوتا ہے مگر دراصل وہی انسانیت کو راج کپور کا پیغام ہے کہ جہالت کی نیند سے اٹھو اور اٹھ کر نئی، مترقی دنیا میں قدم رکھو-
(محمد تقی پاکستانی امریکن کالم نگار ہیں جو پشاور سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کا یہ مضمون انگریزی روزنامہ اسٹیٹس مین، پشاور میں شائع ہوچکاہے،@mazdaki ان کا ٹوئٹر ہینڈل ہے۔)
The post راج کپور:ایک دل والا حقیقت پسند appeared first on The Wire - Urdu.