وزارت دفاع کے سکریٹری سنجے مترا کے ذریعے داخل یہ حلف نامہ اس لئے اہم ہو گیا ہے کیونکہ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے 6 مارچ کو الزام لگایا تھا کہ ریویو پیٹیشن ان دستاویزوں پر مبنی ہے جو وزارت دفاع سے چرائے گئے ہیں۔ حالانکہ دو دن بعد اپنی بات سے پلٹتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ دستاویز چوری نہیں ہوئے بلکہ ان کی فوٹو کاپی کرائی گئی۔
سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے بدھ کو سپریم کورٹ سے کہا کہ رافیل معاہدے پر اس کے فیصلے پر نظرثانی کی کے لئے درخواست گزاروں کے ذریعے داخل دستاویز قومی سلامتی کے لئے حساس ہیں اور جن لوگوں نے ان دستاویزوں کی فوٹوکاپی بنانے کی سازش کی، انہوں نے اس کی چوری کی اور ان کا انکشاف کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے۔وزارت دفاع نے اس حلف نامہ میں کہا ہے کہ ان حساس دستاویزوں کے عام ہونے کے معاملے میں 28 فروری کو انٹرنل جانچ شروع ہوئی جو ابھی بھی جاری ہے اور یہ پتہ لگانا بےحد ضروری ہے کہ یہ انکشاف کہاں سے ہوا ہے۔
وزارت کے اس حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کے ذریعے منسلک دستاویز ات جنگی طیاروں کی جنگی صلاحیت سے متعلق ہیں اور ان کو بڑی سطح پر تقسیم کیا گیا ہے اور یہ ملک کے دشمن اور مخالفین کے پاس بھی ہیں۔واضح ہوکہ اس معاملے میں سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا، سابق مرکزی وزیر ارون شوری اور کارکن اور وکیل پرشانت بھوشن درخواست گزار ہیں۔
سکریٹری سنجے مترا کے ذریعے داخل اس حلف نامہ میں کہا گیا ہے، اس سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔اس میں کہا گیا ہے، مرکزی حکومت کے اتفاق، اجازت یا اتفاق کے بغیر، جنہوں نے ان حساس دستاویزوں کی فوٹو کاپیاں کرنے اور ان کو نظرثانی کی عرضی کے ساتھ منسلک کرنے کی سازش کی ہے اور ایسا کرکے ایسے دستاویزوں کیی ذاتی طریقے سے فوٹو کاپی بناکر چوری کی ہے انہوں نے ملک کی سالمیت، حفاظت اور دوسرے ممالک کے ساتھ دوستانہ رشتوں کو منفی طریقے سے متاثر کیا ہے۔
یہ حلف نامہ اس لئے اہم ہو گیا ہے کیونکہ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے 6 مارچ کو چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ کے سامنے الزام لگایا تھا کہ نظرثانی کی عرضی ان دستاویزوں پر مبنی ہے جو وزارت دفاع سے چرائے گئے ہیں۔حالانکہ، وینو گوپال نے دو دن بعد دعویٰ کیا تھا کہ رافیل دستاویز وزارت دفاع سے
چوری نہیں کئے گئے تھے بلکہ عدالت میں ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ درخواست گزاروں نے درخواست میں’اصل کی فوٹو کاپیاں’استعمال کی ہیں جن کو حکومت خفیہ مانتی ہے۔
حلف نامہ میں وزارت دفاع نے کہا ہے کہ فرانس اور دوسروں کے ساتھ قومی سلامتی کے معاملوں سے متعلق ہوئے مرکز کے مختلف سمجھوتے میں رازداری برتی گئی تھی۔اس میں کہا گیا ہے، مرکز رازداری بناکر رکھتا ہے لیکن سنہا، شوری اور بھوشن منسلک کئے گئے دستاویزوں کو بنیاد بنا رہے ہیں اور اس لئے وہ حساس جانکاری کے انکشاف کرنے کے قصوروار ہیں، جو سمجھوتہ کی شرطوں کی پامالی کرتے ہیں۔
مرکز نے کہا ہے کہ جنہوں نے اس انکشاف کی سازش کی وہ ذاتی طریقے سے فوٹوکاپی کرنے اور قومی سلامتی کو متاثر کرنے والے حساس سرکاری دستاویزوں کو انکشاف کرنے کے جرم سمیت تعزیرات ہند کے تحت قابل سزا جرائم کے قصوروار ہیں۔حلف نامہ میں کہا گیا ہے، ان معاملوں کی اب اندرونی تفتیش کی جا رہی ہے جو 28 فروری کو شروع ہوئی اور اس وقت جاری ہے۔ خاص طور پر، مرکزی حکومت کے لئے یہ پتہ لگانا بہت ہی ضروری ہے کہ یہ انکشاف کہاں سے ہوا تاکہ مستقبل میں حکومت میں فیصلہ لینے کے عمل کے تقدس کو بنائے رکھا جائے۔ ‘
چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس سنجےکشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی تین رکنی بنچ کے سامنے رافیل معاملے میں نظرثانی کی عرضی پر سماعت کے دوران یہ حلف نامہ بھی سامنے آئےگا۔مرکز نے عدالت میں زور دےکر کہا ہے کہ سنہا، شوری اور بھوشن، قومی سلامتی اور حفاظت سے متعلق معاملے میں اندرونی خفیہ مذاکرہ کی ادھوری تصویر پیش کرنے کی منشاء سے ان دستاویزوں کا استعمال عدالت کو گمراہ کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔
حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کے ذریعے پیش دستاویز یہ سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں کہ کس طرح سے مدعوں پر خیال کیا گیا اور ان کو حل کیا گیا اور متعلقہ اتھارٹیوں سے ضروری منظوری حاصل کی گئی۔درخواست گزاروں کے ذریعے ادھورے حقائق اور ریکارڈ کو چنکر پیش کرنے میں ان کی منشاء عدالت کو غلط نتیجے پر پہنچنے کے لئے گمراہ کرنے کی ہے جو قومی سلامتی اور مفاد عامہ کے لئے بہت ہی نقصان دہ ہے۔
وزارت دفاع نے حلف نامہ میں یہ بھی کہا ہے کہ کمپٹرولر اورآڈیٹرجنرل(کیگ)کی2019 کی انڈین ایئر فورس کی کارکردگی آڈٹ رپورٹ نمبر-3 پارلیامنٹ میں پیش کی جا چکی ہے اور یہ عوامی طور پر دستیاب ہے۔حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ عرضی میں جن دستاویزوں کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ ایک زمرہ کے ہیں جن کے لئے حکومت ہند، Indian Evidence Act کی دفعہ 123 اور 124 کے تحت خصوصی اختیارات کادعویٰ کرنے کی حقدارا ہے۔
حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ درخواست گزاروں کے ذریعے پیش دستاویز حق اطلاع قانون کے تحت بھی عوامی نہیں کئے جا سکتے اور درخواست گزاروں کو حکومت ہند، وزارت دفاع کی واضح اجازت کے بغیر عدالت کے سامنے پیش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔نظرثانی کی عرضی منسلک دستاویزوں پر خصوصی اختیارات کا دعویٰ کرتے وقت مرکز نے کہا ہے کہ چونکہ انہوں نے ان دستاویزوں کو غیر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے پیش کیا ہے، اس لئے مرکز کے لئے ان دستاویزوں کو ریکارڈ سے ہٹانے کی گزارش کرنا ضروری ہو گیا ہے۔