پنجاب: افریقی شہریوں کے لیے نیگرو لفظ کے استعمال پر ہائی کورٹ نے پولیس کو پھٹکار لگائی

06:15 PM Jun 15, 2020 | دی وائر اسٹاف

ایک افریقی شہری کے لیے ‘نیگرو’لفظ کا استعمال کرنے پر پنجاب پولیس کو پھٹکار لگاتے ہوئے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کو ان مدعوں پرحساس بنایا جانا چاہیے اور آگاہ کیا جانا چاہیے، تاکہ کسی شخص کو اس کے رنگ کی بنیاد پر حوالات میں نہ ڈالا جائے۔

پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے پولیس دستاویزوں میں ایک افریقی شہری کے لیے نسلی امتیاز کرتے ہوئے نیگرولفظ کا استعمال کرنے پر پنجاب پولیس کو پھٹکار لگائی اور کہا ہے کہ ہندوستان کے لیے یہ شرمندگی کی بات ہے۔عدالت نے کہا کہ پولیس کی یہ سوچ ہی خطرناک  ہے کہ ہر سیام فام شخص نشیلی  اشیا کا اسمگلرہے۔ عدالت نے کہا کہ اس برصغیرکے شہریوں کو بھی احترام کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔

جسٹس راجیو نارائن رینا کی ایک رکنی بنچ  نے پنجاب کے ڈی جی پی سے اس بارے میں ہدایت  جاری کرنے کو کہا تاکہ سیاہ فام  لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے توہین آمیز لفظوں کا استعمال نہ کیا جائے۔جسٹس رینا نے کہا کہ وہ نشیلی اشیاسے متعلق این ڈی پی ایس قانون کے تحت ایک معاملے میں نچلی عدالت کے سامنے ضابطہ فوجداری کی دفعہ173 کے تحت پیش کیے گئے چالان لیٹرز میں ایک افریقی شہری کے لیے ‘نیگرو’لفظ کو دیکھ کر حیران  ہیں۔

انہوں نے 12 جون کے اپنے آرڈر میں کہا، ‘دنیا بھر میں یہ بے حد توہین آمیز لفظ ہے اور کسی کو اس کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے ہدایت  دی جاتی ہے کہ چالان سمیت کسی بھی پولیس دستاویز میں یا جانچ رپورٹ سمیت کیس ڈائری میں کہیں بھی ایسےلفظوں کا استعمال نہ کیا جائے جنہیں شائع نہیں کیا جا سکتا۔’

عدالت نے کہا کہ افریقی شہریوں کے  معاملےکو ان کے ملک کے توسط سے مخاطب کیا جانا چاہیے۔عدالت نے ہدایت  دی کہ پولیس اہلکاروں  کو ان مدعوں پر حساس بنایا جانا چاہیے اور آگاہ کیا جانا چاہیے، تاکہ کسی کو اس کے رنگ کی بنیاد پر حوالات میں نہ ڈالا جائے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، معاملے میں ملزم کی طرف سے پیش وکیل ساحل پوری نے کہا، ‘پولیس نے چالان/چارج شیٹ اور دوسرےدستاویزوں میں ‘نیگرو’لفظ  کا استعمال کیا تھا۔ اپنے بیان میں ایک ملزم نے کہا ہے کہ اس نے دہلی میں ایک ‘نیگرو’ سے ہیروئن خریدی ہے۔’

جسٹس رینا نے کہا، ‘یہ ہندوستان کے لیے شرمندگی کی بات ہے اور اس سے ملک کے لیے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس نے مان لیا ہے کہ ہر سیاہ فام نشیلی اشیا کا اسمگلر ہے اور اس سے ایسا ہی برتاؤ ہونا چاہیے۔ یہ خطرناک سوچ ہے۔’آرڈرمیں کہا گیا ہے، ‘وہ افریقہ سے ہندوستان آنے والےیا طلبا کے طورپرآنے والےایک غیرملکی زمین  پر احترام  کے حقدار ہیں جہاں وہ  عارضی طور پر رہ رہے ہیں۔ یہ سفیدسے لےکر کالے، ہر رنگ کے بے شمار لوگوں کے لیے اپنے آپ میں فخر کی بات ہے۔’

بنچ نے کہا، ‘سارے افریقی ہمارے دوست ہیں اور جب وہ  مہمان یا اسٹوڈنٹ کے طور پرہندوستان آتے ہیں تو ہمارےمعزز مہمان ہیں اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان کی مہمان نوازی کی مستحکم روایت ہے اور ہمیں اس پر فخر ہوتا ہے۔’جسٹس رینا نے آگے کہا کہ دو دہائی  تک جنوبی افریقہ میں رہتے ہوئے مہاتما گاندھی کی سیاسی سوچ کشادہ ہوئی اور انہوں نے رنگ کی بنیاد پر امتیاز کرنے والوں کے خلاف تحریک کی قیادت کی اور نسل کی بنیاد پرامتیاز کے خلاف اور کالے قوانین کے خلاف آزادی  کے لیے لڑے۔

عدالت نے کہا، ‘ہمیں اس پرعمل  کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کو اوردیگر لوگوں کو عزت دینی چاہیے۔’عدالت نے اگلی شنوائی کے لیے 18 جون کی تاریخ طے کی۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)