انڈین فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ کے طالبعلموں کے ایک گروپ نے منگل کی رات کو رام مندر تحریک پر مبنی آنند پٹ وردھن کی ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام’ کی اسکریننگ کا اہتمام کیا تھا۔ طالبعلموں کے مطابق، دوپہر کے وقت تقریباً 25 لوگ کیمپس میں داخل ہوئے اور ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگاتے ہوئے طالبعلموں کے ساتھ بدسلوکی کی اور مارپیٹ شروع کردی۔
نئی دہلی: شرپسندوں کے ایک گروپ نے منگل کو پونے میں فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایف ٹی آئی آئی) کے کیمپس میں ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگائے اور ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے خلاف احتجاج کر رہے طالبعلموں پر مبینہ طور پر حملہ کیا۔
دی ٹیلی گراف کے مطابق، سوموار کی رات ایف ٹی آئی آئی کے طالبعلموں کے ایک گروپ نے رام جنم بھومی تحریک پر مبنی آنند پٹ وردھن کی ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام’ کی اسکریننگ کا اہتمام کیا تھا۔ ایف ٹی آئی آئی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (ایف ٹی آئی آئی ایس اے) کی طرف سے جاری کردہ ایک میڈیا ریلیز کے مطابق، منگل کی دوپہر کو 1.30 بجے کے آس پاس تقریباً 25 لوگ کیمپس میں داخل ہوئے، ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگائے اور طالبعلموں کے ساتھ بدسلوکی کی، ان کو گالیاں دیں۔
ایف ٹی آئی آئی ایس اے کے صدر من کپ نوکووہم، سکریٹری ساینتن اور کچھ طالبات کو مبینہ طور پر مارا پیٹا گیا۔ من کپ کو کئی زخم آئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس دوران سیکورٹی گارڈ مبینہ طور پر خاموش تماشائی بنے رہے اور بھیڑ کیمپس میں ہنگامہ آرائی کرتی رہی اور ‘وزڈم ٹری’ تک پہنچ گئی۔ پولیس کے پہنچتے ہی بھیڑ منتشر ہونے لگی اور سیکورٹی گارڈ انہیں واپس مین گیٹ تک لے گئی۔ پھر پولیس نے انہیں جانے دیا۔
میڈیا میں جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ان غنڈوں نے ہمارے کیمپس میں داخل ہونے کے بعد معصوم طلبہ پر شدید حملہ کیا، جبکہ سکیورٹی اور عملہ محض خاموش تماشائی بنا رہا۔ یہ طالبعلموں کی زندگی کے بنیادی حق پر کھلا حملہ اور لاء اینڈ آرڈر کی بڑی ناکامی ہے۔ ایف ٹی آئی آئی اسٹوڈنٹس یونین ہمارے جمہوری حقوق کے ساتھ ساتھ طلبہ کی زندگی پر اس طرح کے سنگین حملے کے خلاف مضبوطی سے کھڑی ہے۔’
دوسری طرف پٹ وردھن نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ دائیں بازو کی قوتیں ان کیمپس میں طالبعلموں پر حملہ کر رہی ہیں جہاں ان کی ڈاکیومنٹری دکھائی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘گزشتہ دو دنوں میں فلم ‘رام کے نام’ کی اسکریننگ کے لیے طلباء اور منتظمین پر حملوں کے تین واقعات رونما ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایوارڈ یافتہ فلم ہے اور اس کی اسکریننگ کو قانونی طور پر روکا نہیں جا سکتا۔ دائیں بازو کی قوتوں نے بربریت کا سہارا لیا ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘دائیں بازو کی قوتیں نہیں چاہتی ہیں کہ لوگ تاریخ کو جانیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ صرف مودی کی سرگرمیوں کی تشہیر کی جائے۔’
سال 1992 میں ریلیز ہوئی آنند پٹوردھن کی دستاویزی فلم ‘رام کے نام’ یا ‘ان دی نیم آف گاڈ’ 1990 کی دہائی میں ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی مہم اور اس تنازعہ کے نتیجے میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں ہے۔
دریں اثنا، کیرالہ میں سی پی ایم کے یوتھ ونگ ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیانے منگل کو ‘رام کے نام’ کی اسکریننگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ سنگھ پریوار کے کارکنوں کے ذریعےفلم انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ کو اس کی نمائش سے روکنے کے بعد لیا گیا۔
کے آر نارائنن نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ویژول سائنس اینڈ آرٹس کے طلباء نے سوموار کو کوٹائم میں انسٹی ٹیوٹ کے مین گیٹ کے باہر شام 7 بجے اس ڈاکیومنٹری کی اسکریننگ کا وقت مقرر کیا تھا۔ سنگھ پریوار کے کارکنوں نے اسکریننگ کرنے پر مبینہ طور پر طالبعلموں نقصان پہنچانے کی دھمکی دی، جس کے بعد کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔
طالبعلموں نے آخر میں ڈاکیومنٹری دکھانے کے لیے کیمپس کے اندر اسکرینیں لگائیں۔ انسٹی ٹیوٹ کی طلبہ کونسل کے صدر سری دیون کے پیرومل نے منگل کو دی ٹیلی گراف کو بتایا، ‘سنگھ پریوار کے کارکنوں نے کھلے عام ہمیں کاٹ دینے کی دھمکی دی اور ہماری خواتین ساتھیوں کے خلاف نازیبا اور غلط تبصرے کیے اور کارروائیاں کیں۔’
ڈی وی ایف آئی نے منگل کو اس ڈاکیومنٹری کو ریاست میں ہر جگہ اسکرین کرنے کا اعلان کیا اور یہاں تک کہ ہر اس شخص کی مدد کا اعلان بھی کیا جو اسے اسکرین کرنا چاہتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ تلنگانہ کے رچاکونڈہ میں اتوار (21 جنوری) کو ایک ریستوراں میں ‘رام کے نام’ نامی ڈاکیومنٹری کی اسکریننگ کا اہتمام کرنے پر چار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔