پونڈیچری شہریت قانون کے خلاف تجویز پاس کرنے والا پہلایونین ٹریٹری بن گیا ہے۔ اس سے پہلے کیرل، پنجاب، راجستھان، مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش اسمبلی میں اس قانون کے خلاف تجویز پاس ہو چکی ہیں۔
نئی دہلی: کانگریس مقتدرہ پونڈیچری کی اسمبلی نے بدھ کومتنازعہ قانون کے خلاف تجویز پاس کر دی۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس قانون کے خلاف تجویز پاس کرنے والا پہلایونین ٹریٹری بن گیا ہے۔اس سے پہلے شہریت قانون کے خلاف کیرل، پنجاب، راجستھان،مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش اسمبلی میں بھی یہ تجویز پاس ہو چکی ہے۔مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور کیرل کےوزیر اعلیٰ پنرائی وجین اس متنازعہ قانون کی کھل کرمخالفت کر رہے ہیں۔
اسمبلی کے ایک روزہ اسپیشل سیشن کے دوران اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بیچ وزیر اعلیٰ وی ناراین سامی نے تجویز پیش کی، جس کواسمبلی نے پاس کر دیا۔اسمبلی نے این آرسی اوراین پی آر کی بھی پرزور مخالفت کی۔اپوزیشن پارٹیوں اےآئی این آرسی اور انادرمک کے ایم ایل اے نےسیشن کابائیکاٹ کیا جبکہ بی جےپی کے تین نامزد ایم ایل اے نے تجویز پیش کیے جانے پراعتراض کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
دینک جاگرن کے مطابق، پونڈیچری کے وزیر اعلیٰ وی ناراین سامی نے بتایا کہ مرکز سے شہریت قانون کو واپس لینے کی اپیل کرتے ہوئے تجویز کو اسمبلی میں پاس کیا گیا ہے۔پونڈیچری کی ایل جی کرن بیدی نے دو دن پہلے ہی سی ایم ناراین سامی کو خط لکھ کر کہا تھا کہ پارلیامنٹ کے ذریعے پاس ایکٹ یونین ٹریٹری کے لیے نافذ کیا گیا ہے اور کسی بھی طریقے سے اس سے چھیڑ چھاڑ یا سوال نہیں کیا جا سکتا۔
پنجاب کیسری کے مطابق ،سی پی آئی ایم سکریٹری رنجنگم پونڈیچری نےسرکار کو یہ تجویز پاس نہ کرنے کی صلاح دے رہیں ایل جی کرن بیدی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔کرن بیدی نے دلیل دی تھی کہ سرکار کے پاس اس تجویز کو پاس کرنے کے لیےاختیارات نہیں ہیں ۔ اس پراپوزیشن کا الزام ہے کہ ایسا کرکے انہوں نے اس حقیقت کو چھپایا کہ سرکار کے پاس ‘قانون کی توسیع’کے تحت اتنے اختیارات ہے کہ وہ مرکزی حکومت کے کسی قانون کونافذ نہیں کرنے کافیصلہ لے سکتی ہے۔
سی پی آئی ایم سکریٹری نے اپوزیشن این آر کانگریس اور انادرمک کی اس تاریخی تجویز میں حصہ نہیں لینے کو لے کر بھی تنقید کی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ سرکار ایسا قانون لے کر آئی ہے جوآئین کے بنیادی ڈھانچے کو توڑتا ہے۔اپوزیشن پرطنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ سوچ کرخاموش ہے کہ یہ قانون صرف سری لنکائی تمل اوراقلیتوں کو ہی نقصان پہنچائے گا تو ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ قانون سبھی کے لیے خطرناک ہے اور اس سے ہر کوئی متاثر ہوگا اس لیے ہم سبھی کو اس قانون کی کھل کر مخالفت کرنی چاہیے۔’
اس بیچ ہیومن رائٹس اور صارفی امور سے متعلق سوسائٹی نے بھی اسمبلی کے اس قدم کاخرمقدم کیا ہے۔واضح ہو کہ شہریت قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئے غیر مسلم کمیونٹی ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کوہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
اس قانون کو ‘غیر آئینی ’ اور ‘برابری کے حق کی خلاف ورزی کرنے والا’ قرار دیتے ہوئے کئی لوگوں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیاہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)