دستاویز رکھنے کے لیے صحافیوں پر مقدمہ چلانا تشویشناک اور قابل مذمت ہے: میڈیا ادارے

جی ایس ٹی چوری کے مبینہ کیس میں گرفتار سینئر صحافی مہیش لانگا کے خلاف گجرات میری ٹائم بورڈ کے خفیہ دستاویز رکھنے کے الزام میں بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس پر میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو کام کے دوران حساس دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے تعزیری کارروائی شروع کرنا تشویشناک ہے۔

جی ایس ٹی چوری کے مبینہ کیس میں گرفتار سینئر صحافی مہیش لانگا کے خلاف گجرات میری ٹائم بورڈ کے خفیہ دستاویز رکھنے کے الزام میں بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس پر میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو کام کے دوران حساس دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے تعزیری کارروائی شروع کرنا تشویشناک ہے۔

علامتی تصویر، وکی میڈیا کامنس

علامتی تصویر، وکی میڈیا کامنس

نئی دہلی: احمد آباد میں دی ہندو کے نامہ نگار مہیش لانگا کے خلاف گجرات پولیس کی جانب سے درج کیے گئے دوسرے معاملے  پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے میڈیا اداروں نے کہا کہ یہ ‘تشویش ناک’ اور ‘حیران کن’ ہے کہ خفیہ دستاویز رکھنےکے الزام میں صحافیوں کے خلاف پولیس کی کارروائی شروع کی گئی ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، گجرات میری ٹائم بورڈ (جی ایم بی) سے متعلق ‘حساس’ دستاویز کی مبینہ ‘چوری’ کے الزام میں درج کی گئی ایف آئی آر کو سینئر وکیلوں اور قانون کے ماہرین نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے ‘خطرناک مثال’ قرار دیا ہے، جس کا صحافیوں اور وہسل  بلورز پر بھیانک اثرپڑ سکتا ہے۔

دریں اثنا، لانگا کے وکیلوں نے الزام لگایا کہ ایف آئی آر میں ضابطے سے متعلق  خامیاں ہیں۔

اس بیچ، پریس کلب آف انڈیا، انڈین ویمن پریس کارپس  اور دیگر صحافی یونینوں کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ حیران کن ہے کہ ریاست کی طرف سے محض دستاویز کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے۔’

بیان میں ایف آئی آر کی مذمت کی گئی اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ایڈیٹرز گلڈ نےسوموار کو ایک بیان میں کہا، ‘صحافیوں کو اکثر اپنے کام کے دوران حساس دستاویز تک رسائی اور ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے، اور ان کے کام کے لیے ان کے خلاف تعزیری کارروائی شروع کرنا تشویشناک ہے۔’

اس کے ساتھ ہی ، گلڈ نے گجرات پولیس کے ‘حساسیت’ کی وجہ سے درج شدہ ایف آئی آر کو آن لائن دستیاب نہ کرنے کے فیصلے کو سنگین تشویش کا معاملہ قرار دیا ہے۔

وہیں،سینئر وکیل اندرا جئے سنگھ نے کہا کہ پولیس کی کارروائی ‘آزادی کی خلاف ورزی کے ساتھ سینسرشپ ‘کی جانب اشارہ  کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ پریشان کن ہے کہ وہسل بلور ایکٹ موجود ہونے کے باوجود اسے کبھی استعمال نہیں کیا گیا، کیونکہ یہ ایسے معاملات میں صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے گا۔’

انہوں نے کہا کہ صرف آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے ذریعے محفوظ دستاویز ہی کسی کے پاس جانے پر پابندی ہے۔

واضح ہو کہ 8 اکتوبر کو درج دوسرے کیس میں گاندھی نگر پولیس نے جی ایم بی کی شکایت پر چوری، مجرمانہ سازش، دھوکہ دہی اور بدعنوانی کی روک تھام ایکٹ کی مختلف دفعات کا حوالہ دیا، جس میں لانگا کا نام ہے۔ جی ایم بی نے کہا کہ اسے 8 اکتوبر کو کرائم برانچ سے ایک خفیہ خط موصول ہوا تھا، جس میں پولیس کو ملنے والی 215 صفحات پر مشتمل دستاویز کی تفصیل تھی۔

قانون کے تحت، سابقہ آئی پی سی کی دفعہ 378 (2) میں  چوری کو کسی شخص کی رضامندی کے بغیراس کے قبضے میں  کسی بھی منقولہ جائیداد کو بے ایمانی سے چھیننے کے ارادے سے کیے گئے کام کے طور پر بیان کیا گیا ہے، اور قانون کے ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ اس معاملے میں جرم کیسے بنایا جا سکتا ہےکہ ایک غیر خفیہ دستاویز کی فوٹو کاپی پائی گئی  ہے۔

سینئر وکیل سدھارتھ اگروال نے کہا، ‘ہندوستان میں جہاں تحقیقاتی صحافت نے 2 جی  اسپیکٹرم اور ویاپم جیسے بڑے گھوٹالوں کو بے نقاب کیا ہے، وہاں مستند رپورٹنگ کے لیے مستند دستاویزتک آزادانہ رسائی ضروری ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ‘مقتدر مفادات کی طرف سے لاحق خطرات کے پیش نظر حساس دستاویز رکھنے والے صحافیوں کو خصوصی تحفظ فراہم کرنا ان کی حفاظت کو یقینی بنائے گا اور بے خوف رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی کرے گا۔’

دریں اثنا، لانگا کے وکیلوں نے ضابطے سے متعلق کاغذی کارروائی میں بھی خامیوں کی نشاندہی کی۔ لانگا کے وکیل ویدانت راج گرو نے بتایا کہ جی ایم بی دستاویزکی مبینہ چوری کے سلسلے میں لانگا کے خلاف درج ایف آئی آر میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ دستاویز کہاں سے برآمد کی گئیں اور نہ ہی ضبطی میمو میں دستاویز کا ذکر ہے۔

اس کے علاوہ، 8 اکتوبر کو لانگا کی گرفتاری کے بعد احمد آباد کرائم برانچ کے ذریعے تیار کردہ ضبطی میمو میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے ان  کے گھر سے دو لیپ ٹاپ اور ایک ڈیسک ٹاپ، ایک آئی فون، ایک پین ڈرائیو، لانگا اور ان کی بیوی کے ٹیکس رٹرن، کلول تعلقہ سے متعلق زمین کےدستاویز، 1.8 لاکھ روپے، آئی اے ایس افسران کے فون نمبر والی 2022 کی فون ڈائرکٹری اور کرسٹوفر جیفرلو کی کتاب ‘گجرات انڈر مودی’ کی کاپی  برآمد کی ہے۔

گھر سے ضبط کیے گئے فون اور لیپ ٹاپ لانگا کی بیوی اور اس کے بچے استعمال کر رہے تھے۔ ضبطی میمو میں نہ تو لانگا کے ذاتی فون اور نہ ہی خفیہ جی ایم بی دستاویز کا ذکر ہے۔

لانگا کو ایک فیملی کمپنی کی طرف سے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی چوری کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا  ، جس میں وہ بورڈ ممبر کے طور پر درج نہیں ہیں۔ جمعہ کو ان کی ضمانت مسترد کر دی گئی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اندرونی تحقیقات کے بعد جی ایم بی کا خیال ہے کہ اس کے کسی ملازم نے بورڈ کے چارٹر سے متعلق پالیسی دستاویز کی کاپیاں بنا کر لانگا کو دی ہوں گی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ چونکہ دستاویز عوامی نہیں ہے اورآرٹی آئی کے تحت نہیں آتی ہے، اس لیے اسے جرم کرنے کی نیت سے چوری کیا گیا ہے اور اس کی کاپیاں غیر قانونی طور پر بنائی گئی ہیں۔

فائل رکھنے کی بنیاد پر صحافی کی گرفتاری جمہوری آزادی پر حملہ: کانگریس

کانگریس نے سوموار کو کہا کہ دی ہندو صحافی مہیش لانگا کے خلاف مبینہ طور پر گجرات میری ٹائم بورڈ (جی ایم بی) کی خفیہ فائلیں رکھنے کے الزام میں درج ایف آئی آر جمہوری آزادی پر ایک کھلا حملہ ہے۔

جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک طویل پوسٹ میں کہا کہ احمد آباد میں ‘دی ہندو’ کے ایک سینئر صحافی پر گجرات میری ٹائم بورڈ (جی ایم بی) کے سرکاری دستاویزرکھنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ واضح طور پر اس بات سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا ہے جس میں جی ایم بی کو سرکاری خزانے کی قیمت پر ‘موڈانی’ کو خصوصی منافع دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔

رمیش نے کہا، ‘اصل جرم گجرات حکومت کی اعلیٰ سطح پر ہو رہا ہے۔ اسی لیے ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ ’موڈانی‘ کیس کی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) سے مکمل جانچ کرانے کی ضرورت ہے۔ 2024 کے اوائل میں، اڈانی پورٹس نے گجرات میری ٹائم بورڈ (جی ایم بی) سے ‘بلڈ-آپریٹ-اون-ٹرانسفر’ (بی او او ٹی) کی بنیاد پر نجی بندرگاہوں کے لیے رعایت کی مدت کو موجودہ 30 سال سے بڑھا کر 75 سال کر نے  کی درخواست کی، جو کہ تسلیم شدہ  مدت 50 سال کافی زیادہ ہے۔’

رمیش کے مطابق، جی ایم بی نے 12 مارچ 2024 کو میٹنگ کی اور سفارش کی کہ پورٹ کے اثاثوں اور آپریشنز کے لیے مزید بولیاں طلب کی جائیں، موجودہ آپریٹر (اڈانی پورٹس) کے ساتھ مالیاتی شرائط پر دوبارہ گفت و شنید کی جائے اور پورٹ کے لیے الگ الگ ڈھانچے تیار اور لاگوکیے جائیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا، ‘کچھ دنوں کے بعد،جی ایم بی کی سفارشات کو ‘گجرات انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ بورڈ (جی آئی ڈی بی) اور خود وزیر اعلیٰ نے خارج کر دیا تھا۔ اس نے اڈانی بندرگاہوں کے لیے 75 سال تک موندرا، ہزیرہ اور دہیج بندرگاہوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی راہ ہموار کی۔

رمیش کا کہنا ہے کہ یہ تمام حقائق 14 اگست 2024 کو کھل کر سامنے آئے۔

انہوں نے کہا، ‘ریاست کے محکمہ خزانہ نے موجودہ رعایتی مدت  2027-28 کے اختتام کے بعد اڈانی پورٹس کے ذریعے ریاست کو ملنے والی رائلٹی ریونیو کی رقم پر جی ایم بی سے کچھ وضاحتیں طلب کیں۔ اڈانی پورٹس کی طرف سے ریاست کو کی جانے والی ادائیگی کا جی ایم بی کا ابتدائی تخمینہ تقریباً 1700 کروڑ روپے سالانہ تھا جبکہ کمپنی کادعویٰ تھا کہ یہ صرف 394 کروڑ روپے سالانہ تھا۔

کانگریس لیڈر نے کہا، ‘اس کے بعد زبردست ہنگامہ ہوا۔ ایگزیکٹوز کا تبادلہ کیا گیا اور کمپنی کے مطابق نمبروں کو دوبارہ بنایا گیا۔ یہ معاملہ فی الحال محکمہ خزانہ کے پاس ہے۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔’