سرکاری اسکولوں کو بہت ہی اسپانسرڈ طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی طرف سے اس بات کی غلط تشہیر کی گئی ہے کہ سرکاری اسکولوں سے بہتر پرائیویٹ اسکول ہوتے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں بچی ہے۔
رائٹ ٹو ایجوکیشن(آر ٹی ای) کو نافذ ہوئے 9 سال پورے ہو چکے ہیں لیکن موجودہ صورتِ حال میں 90 فیصدی سے زیادہ اسکول آر ٹی ای کے معیارات پر کھرے نہیں اترتے ہیں۔ اس دوران سرکاری اسکولوں کی حالت اور امیج دونوں خراب ہوتی گئی ہے۔اس کے برعکس پرائیویٹ ادارے لگاتار پھلےپھولے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قانون ہونے کے باوجود حکومتیں اس کی ذمہ داری اٹھا پانے میں ناکارہ ثابت ہوئی ہیں۔ اب وہ اسکولوں کو ٹھیک کرنے کی اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹتے ہوئے ان کو بھی بند کرنے یا ان کو ضم کرنے جیسی تدبیروں پر آگے بڑھ رہی ہیں۔دراصل سرکاری اسکول فیل نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کو چلانے والی حکومتوں اور ان کے سسٹم کی ناکامی ہے۔
تمام طرح سے نظرانداز کیے جانے اور تنقیدوں سے گھرے رہنے کے باوجود سرکاری اسکول سسٹم کی حالیہ کامیابیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔آج ان کا بڑا نیٹ ورک ملک کے ہر کونے میں پھیل گیا ہے اور وہ اس ملک کے سب سے محروم اور حاشیے پر رہ رہے کمیونٹی کے بچوں کی اسکولنگ میں اہم کردار نبھا رہے ہیں۔
رتبہ گھٹا لیکن اہمیت قائم ہے
پچھلی تین دہائیوں سے ہندوستان میں اسکولی تعلیم کی بے مثال توسیع ہوئی ہے اور ابتدائی سطح پر تعلیم کی رسائی آفاقی ہو گئی ہے۔ اس نے ہندوستان میں اسکولی تعلیم کو عالمگیر بنا دیا ہے۔آج ملک کے ہر حصے میں سرکاری اسکولوں کا جال بچھ چکا ہے۔ آپ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیے دور اور دشوارگزار علاقوں میں بھی آپ کو سرکاری اسکولوں کی موجودگی دیکھنے کو مل جائےگی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں صدیوں سے علم اور تعلیم پر کچھ خاص کمیونٹی کی ہی اجارہ داری رہی ہے یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔آج صحیح معنوں میں ہندوستان میں اسکولی تعلیم کی عالم کاری ہو گئی ہے۔ ایک ملک کے طور پر ہم نے ہر آدمی تک تعلیم کی رسائی کے ہدف کو قریب قریب حاصل کر لیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آج ملک کے 99 فیصد فیملی عام تعلیم کی پہنچ کے دائرے میں آ چکی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی اہم ہےکہ اس نظام کے تحت کسی کی ذات، جنس یا مذہب پر دھیان دئےبغیر سبھی کو شامل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔اس کامیابی میں خصوصیت یہ ہے کہ اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی ایسی کمیونٹی ہیں جن کی پہلی نسل تک تعلیم کی پہنچ بنی ہے۔ظاہر ہے یہ سب سرکاری اسکولوں کے بھروسے ہی پورا ہوا ہے۔ تمام مخالف حالات کے باوجود آج بھی قریب 50 فیصد شہری اور 80 فیصدی دیہی بچے سرکاری اسکولوں میں ہی پڑھ رہے ہیں۔لیکن المیہ دیکھیے، ٹھیک اسی دوران سرکاری اسکولوں پر سے لوگوں کا بھروسہ بھی کم ہوا ہے۔ طویل مدت سے اے ایس ای آر(ANNUAL STATUS OF EDUCATION REPORT) اور کئی دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار اس بات کو نشان زد کرتے آئے ہیں کہ عام تعلیمی نظام کا بھروسہ کم ہو رہا ہے اور ابتدائی سطح پر سرکاری اسکولوں میں بچوں کے سیکھنے کی شرح میں لگاتار گراوٹ آ رہی ہے۔
آج جب کوئی افسر، رہنما یا کاروباری اپنے بچوں کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں کراتا ہے تو یہ قومی خبر بن جاتی ہے اور لوگ اس کو غیرمعمولی بات کی طرح لیتے ہیں۔لبرلائزیشن کے بعد ابھرے متوسط طبقہ نے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں سے دور کر لیا ہے۔ جو اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں نہیں بھیج سکتے ہیں، ان کے لئے دھڑلےسے سستے پرائیویٹ اسکول کھل گئے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے میں اپنی توہین سمجھنے والے لوگ یہاں اپنے بچوں کو آسانی سے بھیج دیتے ہیں۔ان دو باہم متضادتصویروں کا کیا مطلب نکالا جائے؟ ایک طرف جہاں سرکاری اسکولوں کی وجہ سے اسکولی تعلیم عالم گیر ہوئی ہے تو وہیں دوسری طرف سرکاری اسکولوں کا بھروسہ بھی لگاتار کم ہواہے۔
اسپانسرڈ حملے
دراصل سرکاری اسکولوں کو بہت ہی اسپانسرڈ طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی نجی کاری حامی لابی کی طرف سے مختلف مطالعہ اور اعداد و شمار کی مدد سے بہت ہی جارحانہ طریقے سے اس بات کی غلط تشہیر کی گئی ہے کہ سرکاری اسکولوں سے بہتر نجی اسکول ہوتے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں بچی ہے جبکہ پرائیویٹ اسکولوں کو لےکر اس طرح سے مطالعہ یا اعداد و شمار جاری نہیں کئے جاتے ہیں۔نیولبرل ازم کے حامی ہندوستانی سماج اور ریاست کے سامنے اس بات کو قائم کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں کہ نجی کاری ہی سب سے اچھا خیال ہے اور جو نجی ہے وہی بہتر ہے۔
اس کی وجہ سے یہ نظریہ بھی بنا ہے کہ پرائیویٹ اسکول ہی اچھے ہوتے ہیں۔ آج ہمارے سماج میں یہ نظریہ اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ اس کے برعکس خیالات یا تجربات کو کوئی سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔نجی کاری کے پیروکار اسکولی تعلیم کو ایک بڑے بازار کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، جس میں سب سے بڑی رکاوٹ سرکاری اسکول ہی ہیں۔ اس رکاوٹ کو توڑنے کے لئے وہ نئی-نئی چالبازی کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں جس میں سرکاری اسکولوں میں پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ نظام کو نافذ کرنے، واؤچر سسٹم اپنانے یا کم آمدنی والے لوگوں کے لئے کم خرچ والے اسکول (افورڈیبل اسکول)جیسی تدبیر شامل ہے۔تعلیم کے تجارت کاروں کو اپنے اس کام میں رہنماؤں اور افسرشاہی کی بھی حمایت مل رہی ہے جو عام تعلیمی نظام کو برباد کرنے میں اپنی طرح سے مدد کرتے ہیں جس سے یہ نظام دم توڑ دے اور آخرکار نجی کاری کی سمت میں آگے بڑھا جا سکے۔
چیلینجز کی لمبی لسٹ
حالانکہ عالمگیریت کی کامیابی کے باوجود سرکاری اسکولوں کے سامنے چیلنجز بھی کم نہیں ہیں۔ تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی، معیاری تعلیم، ضروری بنیادی سہولیات کی کمی، بچوں کی غیرموجودگی اور درمیان میں ہی پڑھائی چھوڑ دینے کا مسئلہ بہت شدید طور سے بنا ہوا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ اسکولوں کو چلانے اور انتظامیہ سے جڑا ہوا ہے جو کہ نہایت غیرپیشہ ور اور غیرمنظم ہے۔یہ پوری طرح سے سیاسی مداخلت، لال فیتہ شاہی اور من مانےپن کی گرفت میں ہے۔ اس کو چلانے میں اس کے سب سے بڑے مستفید طلبہ، اساتذہ اور کمیونٹی کا ہی کوئی کردار نہیں ہے۔اسکول چلانے والوں کا کام اوپر سے آنے والے احکام کو ہوبہو نافذ کرنے کا ہی ہو گیا ہے۔ چونکہ ہمارے ملک میں تعلیم ریاست کا موضوع ہے جس کی وجہ سے ہر ریاست کی اپنی ترجیحات ہیں، اس کا اثر ا س کی عمل آوری پر پڑتا ہے۔ وقت پر رقم مختص، مرکز اور ریاستوں کے ساتھ مختلف محکمہ جات کے درمیان تال میل کا مسئلہ بھی بنا رہتا ہے۔
اساتذہ کی کمی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہمارا عام تعلیمی نظام اساتذہ کی بھاری قلت سے جوجھ رہا ہے۔آج بھی ملک کے تقریباً 92000 اسکول ایک ہی استاد کے بھروسے چل رہے ہیں۔ اس معاملے میں مدھیہ پردیش ٹاپ پر ہے جہاں 18307 واحد استاد والے اسکول ہیں۔ دوسری طرف جو استاد ہے ان سے بھی بڑے پیمانے پر غیر تعلیمی کام کرائے جا رہے ہیں۔اس دوران ریاستی حکومتوں کے ذریعے کم تنخواہ پر بڑے پیمانے پر گیسٹ/پیرا-ٹیچرس وغیرہ کی تقرری کی گئی ہے، جس نے معیار کو گرانے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔
گزشتہ سال مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اپنی سماعت کے دوران اس بات پر حیرانی کاا ظہار کیا تھا کہ ریاستی حکومت مہمان اساتذہ کو یومیہ مزدوروں سے بھی کم تنخواہ دے رہی ہے۔دراصل کورٹ کو جب یہ جانکاری دی گئی کہ صوبے میں مہمان اساتذہ کو 100 روپے دن کے حساب سے اعزازیہ دیا جاتا ہے تو کورٹ نے حیران ہوکر حکومت سے پوچھا تھا کہ ‘ اتنی کم رقم میں یہ استاد گھر کیسے چلاتے ہیں؟ ‘اسکولوں کے ساتھ کمیونٹی کی بڑھتی دوری بھی ایک بڑے مسئلہ کی شکل میں ابھری ہے جبکہ اسکول کو سماج کا ایک اہم حصہ ہونا چاہیے۔
کوئی بھی عوامی اسکول تبھی اچھے طریقے سے چل سکتا ہے جب ا س کے چلانےمیں کمیونٹی اور سرپرستوں کی شراکت داری ہو۔معیاری تعلیم کے لئے بھی کمیونٹی کی فعال شراکت داری ضروری ہے لیکن اس سمت میں سب سے بڑا مسئلہ وسائل سے مالامال سرپرستوں کا نجی اسکولوں کی طرف جھکاؤ ہے۔قومی تعلیمی پالیسی، 1986 میں تعلیم کے انتظام وانصرام میں عمومی شراکت داری پر زور دیا گیا تھا جس سے گھر میں بچوں کی حاضری بڑھے، ڈراپ آؤٹ کی شرح کم ہو اور تعلیم کا معیار بہتر ہو سکے۔
1992 کی قومی تعلیمی پالیسی میں بھی تعلیم کی اسکیم اور انتظام وانصرام میں کمیونٹی کی شراکت داری پر زور دیا گیا ہے۔رائٹ ٹو ایجوکیشن2009 میں بھی تمام سرکاری اور امدادیافتہ اسکولوں میں اسکول کی انتظامیہ کمیٹی کی تشکیل کرنا لازمی کیا گیا ہے۔ بچوں کو معیاری اور ضروری تعلیم مہیا کرانا سرپرستوں اور اسکول انتظامیہ کمیٹی کا فرض ہے۔آر ٹی ای کے تحت اسکولوں کے انتظام وانصرام میں اسکول انتظامیہ کمیٹیوں کے ساتھ مقامی بلدیاتی کو بڑا رول دیا گیا ہے۔ لیکن وہ بھی مناسب جانکاری/تربیت کی کمی اور مقامی سیاست کی وجہ سے اپنا اثر چھوڑنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام کی گنتی دنیا کے سب سے بڑی تعلیمی نظام میں ہوتی ہے، لیکن ہمیشہ سے ہی اس کا بجٹ اونٹ کے منھ میں زیرہ جیسا رہا ہے۔تعلیم پر ہندوستان کا خرچ ہمیشہ سے ہی تین فیصد کے آس پاس بنا رہا ہے اور عموماً یہ بھی یا تو غیرمنظم طریقے سے خرچ کر دیا جاتا ہے یا اس کا بڑا حصہ خرچ ہی نہیں کیا جاتا ہے۔
تعلیم کا حق
ہمارے تعلیمی نظام کو لےکر پوری بحث اس کی بازارکاری یا پھر اس کے مفت ہونے تک ہی الجھکر رہ گئی ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 19 (1) جیکے مطابق، تعلیم ایک بنیادی حق ہے جس کی وجہ سے اس کومنافع کمانے کا کاروبار نہیں بنایا جا سکتا۔ حالانکہ آج تعلیم کو ایک ‘ کاروبار ‘ یا غریبوں کے لئے مفت سبسیڈی کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی نظام کی شکل ہی ایسی ہے جو سب کو ساتھ لےکر چلنے میں ناکام ہے۔ دراصل ہندوستان میں دوہرا تعلیمی نظام نافذ ہے جس کے تحت ایک طرف حکومت کے ذریعے چلنے والےیا امداد یافتہ اسکول ہے تو دوسری طرف طرح طرح کی ذاتی ملکیت والے اسکول ہیں جو 100 روپے سے لےکر ایک لاکھ روپے تک فیس وصول کرتے ہیں۔
District Information System for Education (ڈی آئی ایس ای )کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں11 لاکھ سرکاری اسکول 19.77 کروڑ بچوں کو ابتدائی سطح پر تعلیم دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس تقریباً تین لاکھ پرائیویٹ اسکول ہیں، جو تقریباً 8.5 کروڑ بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔حالانکہ پرائیویٹ اسکول تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اگر یہی رفتار رہی تو تعداد کے معاملے میں بھی وہ حاوی ہو جائیںگے۔
ضروری ہے سرکاری اسکولوں کے معیار اوروقار کی بحالی
سب سے بنیادی ضرورت ہے کہ کیسے سرکاری اسکولوں کے اعتماد کو بحال کیا جائے اور ان کو اس سطح تک پہنچا دیا جائے جہاں وہ متوسط طبقہ کی توقعات سے جوڑی بنا سکیں۔دراصل 1991 کے اقتصادی اصلاحات کے بعد ہندوستان کی بڑی آبادی کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے جس سے اس کی خریداری قوت بڑھنے کے ساتھ ہی توقعات بھی بڑھی ہیں۔ہمارے سرکاری اسکول ان توقعات پر کھرے اترنے میں ناکام رہے ہیں جس سے اس کثیر آبادی کا دھیان سرکاری اسکولوں سے ہٹکر پرائیویٹ اسکولوں کی طرف پر مرکوز ہو گیا ہے۔
اس کے لئے اسکولوں کے چلانے/انتظامیہ، بجٹ اور تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی اور انفرا اسٹرکچر کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔یہ کام ہماری قومی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے تعلیم نہ تو ہمارے سماج کی ترجیح میں ہے اور نہ ہی سیاست کے۔ایسے میں تھوڑی بہت امید عدلیہ سے ہی بچتی ہے۔ گزشتہ دنوں (3 فروری 2019) سپریم کورٹ نے اتر پردیش کے چیف سکریٹری کو ہتک عزت کی نوٹس بھیجی ہے جس کا سروکار سیدھے طور پر سرکاری اسکولوں سے جڑا ہوا ہے۔
غور طلب ہے کہ 18 اگست 2015 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش میں سرکاری اسکولوں کی خراب حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بے مثال حکم جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری ملازم، نصف سرکاری ملازم، مقامی بلدیاتی کے نمائندے، عدلیہ اور دیگر سبھی لوگ جو سرکاری خزانے سے تنخواہ یا فائدہ لیتے ہیں، کو اپنے بچوں کو لازمی طور پر سرکاری اسکولوں میں ہی پڑھنا پڑےگا۔اپنے حکم میں عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس اصول کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے سزا کا اہتمام کیا جائے۔ اس حکم پر عمل کرنے کے لئے عدالت نے چھ مہینے کا وقت دیا تھا لیکن اتنا لمبا وقت گزر جانے کے باوجود حکومتوں کے ذریعے اس پر کوئی عمل نہیں کیا۔اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے اتر پردیش کے چیف سکریٹری کو ہتک عزت کی نوٹس جاری کی ہے۔ ظاہر ہے عدلیہ نے مسئلہ کی بنیاد پر دھیان دیا ہے جس پر حکومتوں اور سماج کو بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔)