مرکزی حکومت نے ’عوامی مفاد‘ کا حوالہ دیتے ہوئے آٹھ ضروری دواؤں کی قیمت بڑھائی

نیشنل فارماسیوٹیکل پرائسنگ اتھارٹی آف انڈیا (این پی پی اے) کا کہنا ہے کہ دواسازوں نے بعض وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے قیمتوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا، جس کے باعث اس نے وسیع تر عوامی مفاد میں دواؤں کی قیمت میں اضافہ کیا ہے۔

نیشنل فارماسیوٹیکل پرائسنگ اتھارٹی آف انڈیا (این پی پی اے) کا کہنا ہے کہ دواسازوں نے بعض وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے قیمتوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا، جس کے باعث اس نے وسیع تر عوامی مفاد میں دواؤں کی قیمت میں اضافہ کیا ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons/Ragesoss/این پی پی اے)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons/Ragesoss/این پی پی اے)

نئی دہلی: نیشنل فارماسیوٹیکل پرائسنگ اتھارٹی آف انڈیا (این پی پی اے) نے سوموار (14 اکتوبر) کو ‘غیر معمولی حالات’ اور ‘عوامی مفاد’ کا حوالہ دیتے ہوئے آٹھ دواؤں کی قیمتیں بڑھا  دی ہیں۔

 معلوم ہو کہ این پی پی اے مرکزی وزارت کیمیکل اور فرٹیلائزر کے فارماسیوٹیکل ڈپارٹمنٹ کے تحت آتا ہے۔ این پی پی اے 1997 میں دواؤں کی قیمتوں کی حدکے تعین کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے پاس ضروری اشیاء ایکٹ کے تحت حکومت کی طرف سے جاری کردہ ‘ڈرگ پرائس کنٹرول آرڈر’ (ڈی پی سی او) کے تحت ادویات کی قیمت طے کرنے کا اختیار ہے۔

این پی پی اے ‘شیڈولڈ ڈرگس’ کی قیمتیں طے کرتا ہے، جو ہندوستان کی ضروری ادویات کی قومی فہرست کے تحت آتی ہیں۔ فی الحال اس میں 350 سے زیادہ ادویات کی 960  فارمولیشن شامل  ہیں۔

بتادیں کہ کسی  دوا میں ایک سے زیادہ فارمولیشن ہو سکتے ہیں۔ یہ دوائیں این پی پی اے کی مقرر کردہ قیمت سے زیادہ پر فروخت نہیں کی جا سکتی ہیں۔

سوموار کو جن ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، ان میں سالبوٹامول (دمہ)، انجکشن  کے لیے اسٹریپٹومائسن پاؤڈر(ٹی بی)، لیتھیم (بائی پولر ڈس آرڈر کے لیے) اور پیلو کارپن آئی ڈراپ (گلوکوما کے لیے) جیسی دوائیں شامل ہیں۔ ان کی قیمتوں میں موجودہ حد سے 50 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔

این پی پی اے روٹین پریکٹس  کے طور پرپچھلے سال کے تھوک قیمت انڈیکس (ڈبلیو پی آئی) کی بنیاد پر 1 اپریل سے شروع ہونے والے ہر مالی سال میں قیمتوں  کی حد طے کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، این پی پی اے نے ڈبلیو پی آئی کے مدنظر 1 اپریل 2024 کو یا اس کے بعد فروخت ہونے والی دوائیوں کی قیمتوں میں 0.00551 فیصداضافے کی منظوری  دی۔

لیکن 14 اکتوبر کو این پی پی اے نے  50 فیصد اضافے کے لیے ‘غیر معمولی’ حالات کا حوالہ دیا۔

واضح ہو کہ ڈی پی سی او کی دفعہ 19 حکومت کو سالانہ روٹین پریکٹس کے علاوہ لاگت کی حد  کو اوپر یا نیچے کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ یہ غیر معمولی حالات میں کیا جا سکتا ہے۔

ڈی پی سی اوکی دفعہ 19 میں کہا گیا ہے، ‘اس آرڈر میں مضمر کسی بھی بات کے باوجود، حکومت، غیر معمولی حالات میں، اگر وہ عوامی مفاد میں ایسا کرنا ضروری سمجھتی ہے، تو کسی بھی دوا کی قیمت کی حد یا خوردہ قیمت اس مدت کے لیے مقرر کر سکتی ہے،   جیسا وہ مناسب سمجھےاور جہاں بھی ہو دوا کی  قیمت کی حد یا خوردہ قیمت پہلے سے طے شدہ اور نوٹیفائیڈ ہے، حکومت اس سال کے لیے سالانہ تھوک قیمت اشاریہ کے باوجود ،جیسا بھی معاملہ ہو، قیمت کی حدیا خوردہ قیمت  میں کمی بیشی کی  منظوری دے سکتی ہے۔’

حکومت کی دلیل

این پی پی اے نے کہا ہے کہ اس نے بڑے عوامی مفاد میں قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دواسازوں نے بعض  وجوہات ،مثلاً’ دوا بنانے کے لیے ضروری اشیاء کی لاگت میں اضافہ، پیداوار کی لاگت، شرح مبادلہ میں تبدیلی وغیرہ’ کا حوالہ دیتے ہوئے قیمتوں پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی۔

این پی پی اے نے دعویٰ کیا کہ ان عوامل نے دوائیوں کی تیاری میں مشکلات پیدا کی ہیں اور اس وجہ سے کچھ دوا سازوں نے بعض  فارمولیشن کو بند کرنے کی درخواست بھی دی ہے۔

این پی پی اے نے اس سلسلے میں مزید کوئی معلومات نہیں دی ہے۔

اس سلسلے میں ایسوسی ایشن آف ڈاکٹرز فار ایتھیکل ہیلتھ کیئر (اے ڈی ای ایچ) کے رکن اور پنجاب میڈیکل کونسل کے سابق صدر ڈاکٹر گوریندر ایس گریوال نے کہا کہ حکومت کی دلیل میں کئی اہم باتیں نہیں ہیں۔

ڈاکٹر گریوال نے سوال کیا کہ اان میں سے کس دوا کے لیے، پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا، اور کتنا ہوا؟ ہر دوا کی پیداواری لاگت میں اضافہ کے عوامل کیا ہیں؟

ڈاکٹر گریوال نے مزید کہا کہ ان تفصیلات کو واضح کیے بغیر حکومت کی طرف سے دی گئی دلیل مبہم معلوم ہوتی  ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ‘غریب لوگوں کی دوائیں’ تھیں، جو عام بیماریوں کے لیے لی جاتی ہیں اور اکثر پرانی  بیماریوں کے لیے طویل عرصے تک لی جاتی ہیں۔

غور طلب ہے کہ حکومت کی اپنی رپورٹ اور سروے بتاتے ہیں کہ صحت کی خدمات پر اخراجات میں اضافے کا بنیادی عنصر ادویات پر خرچ ہے۔

بڑھتے ہوئے اخراجات

حکومت کی طرف سے گزشتہ ماہ جاری تازہ ترین نیشنل ہیلتھ اکاؤنٹس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کے موجودہ اخراجات کا تقریباً ایک تہائی (30.84فیصد) ‘دواسازی کے اخراجات’ کے طور پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس میں پرسکرائبڈ دوائیں، اوور دی کاؤنٹر دوائیں، داخل مریضوں یا بیرونی مریضوں کی دیکھ بھال کے دوران دی جانے والی دوائیں، یا کسی اور طریقے سے صحت کی خدمات حاصل کرنا شامل ہیں۔

دراصل، رپورٹ میں درج صحت کی دیکھ بھال سے متعلق 17 سرگرمیوں میں سے، جن میں ہسپتال میں داخلے یا او پی ڈی کی دیکھ بھال پر خرچ شامل ہے، ادویات پر خرچ (پرسکرائبڈ اور اوور دی کاؤنٹر) دوسرے نمبر پر تھا۔ ادویات کے مقابلے میں مریضوں کی دیکھ بھال پر زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ، کمیونٹی فزیشن اور پبلک ہیلتھ ریسرچر ڈاکٹر پارتھ شرما نے شیڈولڈ دوائیوں کی فہرست میں ایک خاص فارمولیشن کو شامل کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ فارمولیشن جس بیماری کے خلاف کام کرتا ہے،اس کے  علاج میں اس کی  افادیت کم ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘تمام موجودہ رہنما خطوط کے مطابق، سالبوٹامول (دمہ کے مریضوں کو دی جانے والی دوا) کی گولیاں نہیں دی جانی چاہیے، کیونکہ یہ سست  رفتاری سے کام کرتی ہے اور اس کے کچھ مضر اثرات بھی ہیں۔’

ڈاکٹر شرما نے مزید کہا، ‘انہیلرز، جو کہ سالبوٹامول کی گولی سے بہتر کام کرنے کے لیے جانا جاتے ہیں، زیادہ تر سرکاری اسپتالوں میں اسٹاک سے باہر ہیں اور پرائیویٹ فارمیسیوں میں اس کی قیمت 300-400 روپے ہے، جس کی وجہ سے یہ غریب لوگوں کی رسائی میں نہیں ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)