احتیاطی حراست شخصی آزادی پر سنگین حملہ: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نےیہ تبصرہ تریپورہ حکومت کی جانب سے 12 نومبر 2021 کو منظور شدہ احتیاطی حراست کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے کیا۔ عدالت نے کہاکہ احتیاطی حراست کے مقصدکے تناظر میں حراست میں لینے والے حکام کے ساتھ–ساتھ اس کی تعمیل کرنے والے افسران کا محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔

سپریم کورٹ نےیہ تبصرہ تریپورہ حکومت کی جانب سے 12 نومبر 2021 کو منظور شدہ احتیاطی حراست کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے کیا۔ عدالت نے کہاکہ احتیاطی حراست کے مقصدکے تناظر میں حراست میں لینے والے حکام کے ساتھ–ساتھ اس کی تعمیل کرنے والے افسران کا محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ احتیاطی حراست شخصی آزادی پر سنگین حملہ ہے اور اس لیے آئین اور اس طرح کی کارروائی کی اجازت دینے والے قانون میں جو تحفظات  فراہم کیے گئے ہیں ، وہ انتہائی اہم ہیں اور ان پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔

چیف جسٹس ادے امیش للت، جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس جے بی پاردی والا کی بنچ نے 12 نومبر 2021 کو تریپورہ حکومت کے ذریعے منظور شدہ احتیاطی حراست  کے فیصلے کو رد کرتے  ہوئے یہ ریمارکس دیے۔

بنچ نے اس کے ساتھ ہی غیر قانونی اسمگلنگ کی روک تھام سے متعلق این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت جرائم کے  ایک ملزم کو فوراً  رہا کرنے کی بھی ہدایت دی۔

عدالت نے کہا کہ احتیاطی حراست کے مقصد کے تناظر میں حراست میں لینے والے حکام  کے ساتھ–ساتھ اس کی تعمیل کرنے والے افسران کے لیےمحتاط  رہنا اور اپنی آنکھیں کھلی رکھنا بہت ضروری  ہوجاتاہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ نظر بندی کا فیصلہ 12 نومبر 2021 کا ہے اور اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ حراستی اتھارٹی کو احتیاطی حراست میں لینے کا حکم پاس کرنے میں تقریباً پانچ ماہ کیوں لگے۔

ملزم سشانت کمار بانک نے ریاستی حکومت کی طرف سے پاس کیے گئے حراستی حکم کے خلاف اپنی عرضی خارج کرنے کے تریپورہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا رخ کیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، یکم جون 2022 کو، تریپورہ ہائی کورٹ نے  12 نومبر، 2021 کو تریپورہ حکومت کی طرف سے منظور کیے گئے احتیاطی حراست  کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی ان کی عرضی  کو خارج کر دیا تھا۔

بنچ نے ‘اشوک کمار بنام دہلی انتظامیہ’ معاملے میں سپریم کورٹ کے 1982 کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ حفاظتی اقدام معاشرے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ان کا مقصد کسی شخص کو کچھ کرنے پر سزا دینا نہیں بلکہ اسے کرنے سے پہلے روکنا ہے۔

بنچ نے کہا کہ حفاظتی اقدامات کے مذکورہ مقصد کے پیش نظر، حراست میں لینے والی اتھارٹی کے ساتھ ساتھ عملدرآمد کرنے والے افسران کے لیے بھی چوکنا رہنا اور اپنی آنکھیں کھلی رکھنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ قرار داد کی منظوری کے دوران آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیے کیونکہ احتیاطی حراست آرڈر لینے والی اتھارٹی کی طرف سے کوئی بھی لاتعلق رویہ حفاظتی اقدامات کے مقصد اور حراست  کے حکم کو بیکار اور پوری  کارروائی میں ناکام بنا دے گا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ احتیاطی حراست کا آرڈرشخصی آزادی پر ایک سنگین حملہ ہے اور کسی بھی جرم کے لیے ملزم شخص  کے لیے  الزام کو خارج  کرنے یا مقدمے میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیےموجود عام طریقے اس کے لیے دستیاب نہیں ہوتے  ہیں۔

بنچ نے کہا کہ اس کے پچھلے فیصلوں سے اس بات کا اشارہ ملتا  ہے کہ اگر حراست کے حکم کی تاریخ، بندی  کی حقیقی  گرفتاری کے بیچ  اورقرارداد کی تاریخ سے اسی طرح حراست  کے حکم کو پاس کرنے کے درمیان غیر مناسب تاخیر ہوئی ہے۔ اس طرح کی تاخیر کی  جب تک کہ تسلی بخش وضاحت نہیں کی جاتی ہے،احتیاطی حراست  میں لینے والی اتھارٹی پر شبہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں حراست  کے حکم کو غلط اور ناقابل قبول بنا دیتا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)