مودی کے انتخاب جیتنے کے بعد یا پھر اس سے کچھ پہلے ہی میڈیا نے اپنا غیر جانبدارانہ رویہ طاق پر رکھنا شروع کر دیا تھا۔ ایسا تب ہے جب حکومت اور وزیر اعظم نے میڈیا کو پوری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ میڈیا اہلکاروں کی جتنی زیادہ توہین کی گئی ہے، وہ اتنا ہی زیادہ اپنی وفاداری دکھانے کے لئے بےتاب نظر آ رہے ہیں۔
تین طریقوں سے حکومت میڈیا پر قابو رکھتی ہے۔ پہلا طریقہ ہے میڈیا کی پابندی سے جڑے قوانین کو بنانا اور اس کو سختی سے نافذ کرنا تاکہ اظہار کی آزادی کو کچلا جا سکے۔ ان قوانین پر عمل نہیں کرنے پر جیل جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ دوسرا طریقہ ہوتا ہے کہ بنا کسی قانونی بنیاد کے میڈیا گھرانے کے مالکوں، مدیروں اور صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا اور تیسرا جو شاید ان میں سب سے خطرناک طریقہ ہے، میڈیا کی آزادی پر لگام لگانے کا، وہ ہے ان کو لالچ دےکر خرید لینا۔
بے شک صحافیوں کا قتل کرنا میڈیا پر دباؤ بنانے کا سب سے آخری اور سخت طریقہ ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان بھی اس معاملے میں کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ اظہار کی آزادی سے جڑے قانون کافی حد تک لبرل ہے اور کبھی کبھار ہی ان قوانین کا استعمال میڈیا گھرانوں اور صحافیوں کے خلاف ہوتا ہے۔ جب پورے قانونی عمل کے تحت ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی تب قانونی طور پر میڈیا پر بھی سینسرشپ لاگو ہوئی تھی۔ جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم دوسری ایمرجنسی کے دور سے گزر رہے ہیں تو وہ غلط ہے۔ میڈیا اور صحافیوں پر کسی بھی طرح سے حکومت کی طرف سے سینسرشپ نہیں لاگو ہے اور نہ ہی عام شہریوں پر ہی اس طرح کی کوئی پابندی لگائی گئی ہے۔ وہ جو چاہے لکھنے اور بولنے کے لئے آزاد ہیں۔
اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے نہ کہ حکومت نے کوئی ایسا قانون نافذ کیا ہے۔ نریندر مودی حکومت کو لگتا ہے کہ کوئی بھی نیا قانون پھر وہ چاہے بالواسطہ طور پر ہی کیوں نہ میڈیا پر قابو رکھتا ہو، وہ میڈیا کے ہر طبقے میں ایک جھنجھلاہٹ پیدا کر سکتا ہے اور وہ سارے متحد ہو سکتے ہیں۔ فیک نیوز پر لگام کسنے کو لےکر اسمرتی ایرانی کی بنا سوچ سمجھ کر بنائی گئی اسکیم کے معاملے میں ہم صحافیوں کی مخالفت دیکھ چکے ہیں، جس پر کچھ ہی گھنٹوں کے اندر وزیر اعظم نے روک لگا دی تھی۔ یہ ان لوگوں کے لئے ایک پیغام کی طرح ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کسی بھی معاملے میں بیک فٹ پر نہیں جانا چاہتی ہے۔ میڈیا اور صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے طریقے کو لےکر حکومت بہت احتیاط برت رہی ہے۔
این ڈی ٹی وی پر مالی بے ضابطگی کے الزام لگنے کی وجہ سے چھاپا مارا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحافی ایک منچ پر آکر متحد ہو گئے۔ یہ واضح تھا کہ ان چھاپوں کے ذریعے دوسرے میڈیا اداروں کو سخت پیغام دینے کی کوشش کی گئی۔ ہو سکتا ہے وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہو لیکن یہ ایسا ہتھیار نہیں ہے جس کا استعمال بار بار کیا جا سکے۔ حکومت مخالف کسی خاص اسٹوری کو لےکر مدیروں کے پاس فون آنے کی بھی کچھ خبریں آئی ہیں لیکن زیادہ تر معاملوں میں یہ قصہ کہانیاں ہی ہیں۔ ان دونوں ہی طریقوں کی بجائے حکومت یہ کھیل زیادہ باریکی سے کھیل رہی ہے۔ وہ میڈیا کے ایک بڑے طبقے کو ان ہی کی مرضی سے اپنی طرف لے آئی ہے۔
اگر کسی میڈیا ادارے نے کسی بھی طرح سے بھی مخالفت کا رخ اپنایا تو نہ صرف میڈیا ادارے کے مالکوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑےگا بلکہ ان مدیروں کو بھی اس کی قمیت چکانی پڑےگی جنہوں نے اقتدار سے سوال پوچھنے کا اپنا اصل فرض اپنی اپنی مرضی سے چھوڑ رکھا ہے۔ کچھ تو یہ کام کھلےعام کر رہے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنی آزادی بچاکر رکھے ہوئے ہیں لیکن ایسا کر کے وہ لوگوں کو بےوقوف بنانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ لوگ ان کو بھی بخوبی سمجھ رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والا کہیں کا نہیں رہتا۔ نہ ہی حکمراں طبقہ، نہ ہی سماج کا دولت مند طبقہ اور نہ ہی قاری طبقہ ہی اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اور پھر، اقتدار کی تعریف میں درباری گان کرنے والے بدنام ‘ نارتھ کوریائی چینل ‘ بھی تو ہیں ذراسا مشتبہ لگنے والے کو چلاکر چپ کرا سکتے ہیں۔
آخر ایسے حالات بنے کیسے؟ سماج میں ہمیشہ سے ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو طاقت ور کے ساتھ کھڑا رہتا ہے اور جیسی ہوا بہتی ہے اس کے حساب سے اپنے آپ کو فٹ کر لیتا ہے۔ یہاں ایسے بھی مدیر ہیں جنہوں نے زبردستی یک طرفہ لکھا اور انتخاب کے کچھ ہی ہفتوں کے بعد اپنا اسٹینڈ بدلکر دوسرے خیمے کے حق میں لکھنے لگے۔ کچھ مدیر ایسے بھی ہیں جو یہی کام آہستہ آہستہ کرتے ہیں لیکن ان کی منشا پوری طرح سے صاف رہتی ہے۔
کئی ایسے بھی صحافی ہیں جو نظریاتی طور پر موجودہ چلن کے ساتھ نظر آتے ہیں لیکن وہ اس کے کوئی پرعزم حمایتی نہیں ہیں، لیکن کسی ہم سفر کی طرح ساتھ موجود ہیں۔ یہ پالا بدلنے والے کوئی نئے رنگ روٹ نہیں ہیں بلکہ کئی سالوں سے خود کی اصلیت چھپائے رکھنے والے لوگ ہیں، جو اب نظام بدلنے پر اپنی سوچ جو اقتدار کے مطابق ہے، کو سامنے لانے میں زیادہ آسانی محسوسکر رہے ہیں۔ میڈیا مالکوں کی حالت یہ ہے کہ وہ یا تو ایک جماعت کا یا پھر دوسری جماعت کا ساتھ چاہتے ہیں کیونکہ ان کو کچھ ایسی باتوں کی فکر ہے، جو ابتک چھپی ہوئی ہے، اس لئے وہ آزاد اور غیر جانبدارانہ طور پر کام نہ کر کے سمجھوتہ کرتے ہیں۔
مودی کے انتخاب جیتنے کے بعد یا پھر اس سے کچھ پہلے ہی میڈیا نے اپنا غیر جانبدارانہ رویہ طاق پر رکھنا شروع کر دیا تھا۔ حالانکہ مئی 2014 کے بعد سے یہ رجحان میڈیا کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔ المیہ دیکھئے کہ ایسا تب ہے جب حکومت اور وزیر اعظم نے میڈیا کو پوری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ میڈیا اہلکاروں کی جتنی زیادہ توہین کی گئی ہے اتنا ہی زیادہ وہ اپنی وفاداری دکھانے کے لئے بےتاب نظر آ رہے ہیں۔ بہت سارے ایسے صحافی ہیں جنہوں نے ابھی بھی سوال پوچھنے اور عوام کے متعلق جوابدہی کے اپنے بنیادی اصول سے سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ ان کا ایک الگ طبقہ بنا ہوا ہے۔ ایسے صحافیوں کو اکثر ‘ بہادر ‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
جس کام کی امید آپ سے کی جاتی ہے اس کو کرنے میں کیسی بہادری۔ اور نا ہی وہ کوئی استثنیٰ ہیں۔ پورے ملک میں کئی ایسے صحافی ہیں جو آج بھی اپنا کام پیشہ ور ایمانداری اور وابستگی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ نہ ہی ڈرے ہیں اور نہ ہی کسی لالچ میں آکر قتدار کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کو اکثر اپنے ساتھیوں کی طرف سے ہی نیچا دکھایا جاتا ہے۔ یہ ساتھی یا تو ان کے باس ہوتے ہیں یا پھر اس میڈیا ادارے کا کوئی متاثر کن شخص۔ کئی صحافیوں نے تو بہت پہلے سے ہی صحافت کے نام پر ڈھونگ کرنا بند کر دیا ہے۔ رات کو ٹی وی نیوز چینلس پر آنے والے یہ صحافی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔
ہندوستان کے صحافیوں کو اس بات کا شکر منانا چاہئے کہ یہاں ابھی ویسے حالات نہیں بنے ہیں جیسے کہ کئی ممالک میں پہلے سے بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ دن بہ دن اس کی آزادی پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن ایک میڈیا اہلکار کے طور پر ہمیں باہری طاقتوں کے ساتھ ساتھ خود کو ان اندرونی وجہوں سے بھی بچانا ہے جو پریس کی آزادی کو ہر روز کھوکھلا کر رہی ہیں کیونکہ یہ وہ دشمن ہے جس سے لڑنا سب سے مشکل کام ہے۔
یہ مضمون پہلی بار7 مئی 2018 کو شائع کیا گیا تھا۔