خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نےجمعہ کی شام کوچین میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری کا بیان ٹوئٹ کیا تھا جو چین کے ہندوستان میں دراندازی نہیں کرنے کے وزیراعظم نریندر مودی کے دعوے کے برعکس تھا۔ اس کے بعد پبلک براڈکاسٹر پرسار بھارتی نے پی ٹی آئی کے ساتھ تمام تعلقات کوتوڑنے کی دھمکی دی ہے۔
نئی دہلی: چین میں ہندوستانی سفیر کا انٹرویو کرنے کے بعد ان کے بیان کو چلانے پر سرکاری نشریاتی ادارہ پرسار بھارتی نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو ‘اینٹی نیشنل’ کہا ہے اور اس کے ساتھ تمام رشتے توڑنے کی دھمکی دی ہے۔پی ٹی آئی نے چین میں ہندوستانی سفیر وکرم مسری کے حوالے سے کہا تھا، ‘چینی فوج کو لداخ میں ایل اےسی کےاپنی طرف واپس جانے کی ضرورت ہے۔’
India hopes China will realise its responsibility in de-escalation and disengaging by moving back to its side of LAC: Indian envoy to China
— Press Trust of India (@PTI_News) June 26, 2020
دراصل، مسری کا یہ بیان وزیر اعظم نریندر مودی کے اس دعوے کے برعکس ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان میں کوئی بھی نہیں گھسا ہے۔قابل ذکر ہے کہ 24 گھنٹوں بعد بھی نہ تو سفیر وکرم مسری اور نہ ہی وزارت خارجہ نے پی ٹی آئی کے ٹوئٹ کی صداقت کو خارج کیا ہے۔
غور طلب ہے کہ مسری کے بیان نے سرکار کو شرمندہ کر دیا ہے کیونکہ یہ سرحد پر کشیدگی کے معاملے پر پچھلے ہفتے ہوئے کل جماعتی اجلاس میں وزیر اعظم کی جانب سے دیے گئے بیان کے برعکس ہے۔پی ٹی آئی کے ایک دیگر ٹوئٹ میں مسری کہتے ہیں، ‘چین کو ایل اےسی کے ہندوستانی حصہ کی جانب تجاوزات کی کوشش اورڈھانچوں کو کھڑا کرنے کی کوشش کو روکنا ہوگا۔’
China has to stop the practice of transgressing and trying to erect structures on the Indian side of the LAC: Indian envoy to China
— Press Trust of India (@PTI_News) June 26, 2020
ان کا یہ بیان بھی مودی کے اس دعوے کے برعکس ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ چین نے اس سے پہلے بھی دراندازی نہیں کی تھی۔
پی ٹی آئی نے ایک تیسرا ٹوئٹ بھی کیا تھا جس کو سنیچرکی صبح ہٹایا گیا۔ حالانکہ، نہ تو وزارت خارجہ اور نہ ہی مسری نے کہا کہ ان کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔مسری کے حوالے سے پی ٹی آئی نے کہا تھا، ‘ایل اےسی پر تصادم کا صرف ایک ہی حل ہے اور یہ کہ چین نئے ڈھانچوں کو بنانا روک دے۔’
حالانکہ، ایسا لگ رہا ہے کہ خبر رساں ایجنسی کی جانب سےسنیچر کی شام کو انٹرویو کے کچھ حصوں کو جاری کرنے کے بعد وزارت خارجہ اور پی ٹی آئی کے بیچ ایک طرح کا سمجھوتہ ہو گیا، کیونکہ مسری کی جانب سے دیے گئے ان خاص بیانات کو پی ٹی آئی کی خبر میں شامل نہیں کیا گیا۔
سرکار پہلے ہی ہندوستان میں چینی سفیر کا انٹرویو کرنے کو لےکر پی ٹی آئی سے ناراض ہے اور اس کے خلاف کارروائی کرنے کی تیاری میں ہے۔سنیچر کو پرسار بھارتی کے حکام نے صحافیوں سے کہا کہ نشریاتی ادارہ اپنی اگلی بورڈمیٹنگ سے پہلے پی ٹی آئی کو ایک سخت خط بھیج رہا ہے جس میں پی ٹی آئی کے ذریعےملک مخالف رپورٹنگ پر گہری ناراضگی ظاہر کی گئی ہے۔
حکام نے کہا، ‘پی ٹی آئی کی ملک مخالف رپورٹنگ کی وجہ سے اس کے ساتھ تعلقات کو جاری رکھناممکن نہیں ہے۔’انہوں نے کہا کہ ادارہ دہائیوں سے کئی کروڑوں میں چلنے والی سالانہ فیس کے ساتھ پی ٹی آئی کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 2016 کے بعد سے خبر رساں ایجنسی اپنےفیس میں اضافہ نہ کروانے کو لےکر اڑی رہی ہے۔ اب پی ٹی آئی کے رویے کو دیکھتے ہوئے پرسار بھارتی، پی ٹی آئی کے ساتھ اپنےرشتوں کاجائزہ لے رہی ہے۔ اس سسلے میں آخری فیصلے کی جانکاری جلد دے دی جائےگی۔
اس فیصلے اور اینٹی نیشنل ٹھہرانے کی وجوہات کے بارے میں پوچھے جانے پر پرسار بھارتی کے افسر نے کہا، ‘چین کوریج۔’یہ پوچھے جانے پر کہ کیا یہ پی ٹی آئی کے ذریعے کیے گئے دو سفیروں کے انٹرویو سے متعلق ہے؟ انہوں نے کہا، ‘ہاں۔’اس ہفتے کی شروعات میں باقی ہندوستانی میڈیا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پی ٹی آئی نے ہندوستان میں چینی سفیر کا انٹرویو کیا تھا اور ان سے لداخ کے گلوان میں ہوئےپرتشدد جھڑپ پر بات کی تھی۔
چینی سفارت خانے نے اپنی ویب سائٹ پر انٹرویو کا ایک چھوٹا سا حصہ پیش کیا تھا لیکن مکمل انٹرویو نہیں چھاپنے پر پی ٹی آئی کو تنازعہ کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی نے بھی اس بات کو قبول کیا تھا۔ اگلے دن وزارت خارجہ نے سفیرکے بیانات پر جواب دیا تھا۔
اس کے بعدجمعہ کو خبر رساں ایجنسی کے بیجنگ نامہ نگارکےجے ایم ورما نے مسری کا انٹرویو کیا۔
بتا دیں کہ پچھلے ایک ہفتے سے حکومت ہند کے تمام ترجمان کہہ رہے ہیں کہ چین کے ساتھ کشیدگی کم ہو رہی ہے، فوج کی تعیناتی کم کی جا رہی ہیں اور کوئی چینی دراندازی نہیں ہوئی ہے۔حالانکہ، دفاعی امور کےصحافی ہندوستانی فوج میں اپنے ذرائع کے حوالے سے لگاتار کہہ رہے ہیں کہ ایل اےسی کے کئی حصوں پر چین نے برتری حاصل کر لی ہے۔
گزشتہ جمعہ کو وزارت خارجہ میں چینی تھنک ٹینک کے چیف لیفٹننٹ جنرل ایس ایل نرسمہن نے دی وائر کو بتایا تھا کہ یہ خبریں غلط اور بڑھا چاکر پیش کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ، پی ٹی آئی نے ٹوئٹر پر مسری کے جن دو ٹوئٹ کو چلایا تھا اس سے ایسا نہیں لگتا ہے۔پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی پرسار بھارتی کی یہ کوشش پہلی بار نہیں ہے۔ اس سے پہلے سال 2016 میں مودی سرکار نے خبر رساں ایجنسی کے لمبے وقت تک ایڈیٹران چیف رہے ایم کے راجدان کے ریٹائر ہونے پر ایک نامزد ممبرکی تقرری کرنے کو کہا تھا۔