ناتھو رام گوڈسے جی دیش بھکت تھے ، ہیں اور رہیں گے، ہندو پن کی نئی علامت پرگیہ ٹھاکر کے ا س بیان کے بعد جو شور اٹھا ،اس کے بعد کے واقعات پر دھیان دینے سے کچھ دلچسپ باتیں ابھر کر آتی ہیں۔
ناتھو رام گوڈسےجی تو دیش بھکت تھے ہی، گاندھی بھی تھے…بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ہندوؤں کے لئے پیش کی گئی تازہ آئیڈیل پرگیہ ٹھاکر نے جو کہا اس کا مطلب یہی ہے۔جب مالیگاؤں میں ہوئے دہشت گردانہ معاملے کی ملزم پرگیہ ٹھاکر کو بی جے پی کے ذریعے بھوپال سے امیدوار بنائے جانے پر سوال اٹھا تونریندر مودی نے کہا کہ پرگیہ ٹھاکر ہندو تہذیب کی علامت ہیں۔’ناتھو رام گوڈسےدیش بھکت تھے، ہیں اور رہیںگے’،’ہندوپن کی نئی علامت’پرگیہ ٹھاکر کے اس بیان کے بعد جو شور اٹھا، اس کے بعد کے واقعے پر دھیان دینے سے کچھ دلچسپ باتیں ابھرکر آتی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس بیان سے پلہ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پرگیہ کی ذاتی رائے ہے۔ یہ بھی بی جے پی ترجمان نے کہا کہ تنازعہ ختم ہو جانا چاہیے کیونکہ پرگیہ ٹھاکر نے معافی مانگ لی ہے۔ لیکن تب تک عوامی طور پرگیہ ٹھاکر کی طرف سے کوئی صفائی نہیں دی گئی تھی۔
پھر پرگیہ ٹھاکر کا بیان آیا،’ اپنی تنظیم میں عقیدت رکھتی ہوں، اس کی کارکن ہوں، اور پارٹی کی لائن میری لائن ہے۔’اس بیان میں پہلے کے بیان پر کوئی افسوس کا اظہار نہیں کیا گیا، نہ اس کا کہیں ذکر آیا۔ اس بیان سے یہ صاف ہے کہ پرگیہ اپنے اپنے بیان پر قائم تھیں۔یہ تو نصیب ہے گاندھی کی کہ آج بھی ان کے قتل کو میڈیا کا وہ حصہ بھی برا مانتا ہے جو ان کو باقی سارے معاملوں میں نالائق سمجھتا رہا ہے۔ اس وجہ سے بی جے پی پر پرگیہ کے اس دوسرے بیان کے بعد بھی دباؤ بنا رہا اور تب رات کو ایک ویڈیو بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے کہا،’ اگر اس نے (میرے بیان) کسی کے جذبہ کو چوٹ پہنچایا ہے تو میں معافی مانگتی ہوں۔ گاندھی جی نے جو ملک کے لئے کیا، وہ بھلایا نہیں جا سکتا۔ میں ان کا بڑا احترام کرتی ہوں۔’
ان سب کے درمیان نریندر مودی نے بنگال میں اپنے خطاب میں عوام کو بتایا،’ ہمارے ملک میں بھگوان شری کرشن کو سدرشن چکردھاری کہا جاتا ہے اور مہاتما گاندھی کو چکردھاری موہن کہا جاتا ہے۔ آج ہمارے ملک کو دونوں ہی عظیم شخصیتوں کی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے؛ترقی کے لئے چکردھاری موہن کی اور تحفظ کے لئے سدرشن چکردھاری کی۔’یہ بات الگ ہے اور اس پر کہیں اور بڑے پیمانے پر غور کیا جانا چاہیے کہ خود گاندھی سدرشن چکر کی تشدد آمیز وضاحت کے حامی نہیں تھے۔ یہاں تک کہ جب کنہیالال مانک لال منشی نے قومی پرچم میں چکر کی وضاحت سدرشن چکر کے طور پر کی تو گاندھی نے واضح کیا کہ یہ اشوک کا چکر ہے اور عدم تشدد کی علامت ہے۔ اس کی تشدد آمیز وضاحت سدرشن چکر کے طور پر کرنا غلط ہے! یہی بات امبیڈکر نے ملک کے پرچم کے بارے میں دستور ساز اسمبلی میں کہی تھی کہ کانگریس پارٹی کے پرچم میں چرخے کی جگہ بودھ ازم کے کال چکر کو پرچم کے مرکز میں رکھا جائےگا۔ بعد میں نہرو نے اس میں ترمیم کرتے ہوئے دستور ساز اسمبلی کو کہا کہ قومی پرچم کا چکر دراصل سارناتھ کے اشوک کی لاٹ پر درج 24 تیلیوں والا چکر ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ گاندھی کے چرخے کے سب سے اہم چکر کا آئینہ دار ہے۔ اس طرح یہ محنت اور عدم تشدد کی نمائندگی کرتا ہے۔
نریندر مودی کے سبکدوش گرو لال کرشن اڈوانی نے اسی چکر پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ سیکولرنہیں ہے۔ جو بھی ہو گاندھی سمیت امبیڈکر، نہرو اور مکمل دستور ساز اسمبلی قومی پرچم کے چکر کو سدرشن چکر سے کہیں نہیں جوڑتا۔یہ گاندھی کو تھوڑا بہت بھی پڑھے ہیں لوگ جانتے ہیں کہ وہ گیتا کو شاعر کے ذریعے کھڑا کیا گیا آدمی کے دل میں چلنے والے شگون اور بدشگونی کی جنگ کا ایک شعری استعارہ مانتے تھے۔ وہ چرخے کو بھی سادگی، انسانیت کی خدمت، دوسرے کو چوٹ نہ پہنچے، اس طرح کی زندگی اور عدم تشدد کی علامت مانتے تھے۔لیکن ابھی ہم اس بات کو چھوڑ دیں اور نریندر مودی کی اس چالاکی پر بھی فریفتہ نہ ہوں کہ گوڈسے کو محب وطن بتانے والی پرگیہ ٹھاکر کے بیان کی مذمت کئے بغیر کیسے وہ بےداغ بنے رہے۔
پوری دنیا میں اس بیان پر تھو تھو ہونے کے بعد ہوش آیا تو کہا گیا کہ اس بیان سے بہت برا لگا ہے انہیں اور اس کے لیے وہ پرگیہ کو من سے معاف نہیں کر پائیں گے ۔ پرگیہ سے ناراضگی اس وجہ سے کہ یہ تو کوئی وقت نہ تھا من کی بات کہنے کا !یہ بی جے پی اور سنگھ کا پرانا آزمایا طریقہ ہے ، تشدد، زبان یا عمل کی ہوجانے دو ، اس کا اثر سماج میں بیٹھ جانے دو ، پھر اس سے اپنے آپ کو الگ کر لو ۔ اس سے تشدد اپنا کام کرچکا ہوگا اور آپ بھی بچ جائیں گے یہی سنگھ نے گوڈسے کے ذریعے گاندھی کے قتل کے بعد اس سے اپنے آپ کو الگ کرکے دکھلایا ۔ حالاں کہ اس سے پہلے خود اس ممبروں نے گاندھی کے قتل کے بعد مٹھائی بانٹی اور کھائی ۔ یہ بھی ان کا نجی ردعمل تھا!
پرگیہ ٹھاکر نے بھی اپنا بیان واپس نہیں لیا، صرف اس سے کوئی ٹھیس پہنچی ہو تو اس سے معافی مانگ لی۔ بیان جہاں کا تہاں بنا ہوا ہے۔مقصد اس کا یہ ہے کہ گاندھی کو بھی محب وطن کہہ دیا، اتنے بھر سے آپ کو تسلی کیوں نہیں ہو رہی؟اصل میں پرگیہ کا جو بیان ہے، وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی رائے ماننے والے لوگوں کا خیال ہی ہے۔ آئیے، آگے منقولہ ُتک بندی کو پورا پڑھیں ؛
مانا گاندھی نے کشٹ سہے تھے،
اپنی پوری نِشٹھا سے
اور بھارت پرکھیات ہوا ہے،
ان کی امر پرتِشٹھا سے
لیکن اہنسا ستیہ کبھی،
اپنوں پر ہی ٹھن جاتا ہے
گھی اور شہد امرت ہیں پر،
ملکر کے وِش بن جاتا ہے
اپنے سارے نرنیہ ہم پر،
تھوپ رہے تھے گاندھی جی
تشٹی کرن کے خونی خنجر،
گھونپ رہے تھے گاندھی جی
مہاکرانتی کا ہر نایک تو،
ان کے لئے کھلونہ تھا
ان کے ہٹھ کے آگے،
جمبودیپ بھی بونا تھا
اسی لئے بھارت اکھنڈ،
اکھنڈ بھارت کا دور گیا
بھارت سے پنجاب، سندھ،
راولپنڈی، لاہور گیا
تب جاکر کے سپھل ہوئے،
ظالم جناح کے منصوبے
گاندھی جی اپنی ضد میں،
پورے بھارت کو لے ڈوبے
بھارت کے اتہاس کار،
تھے چاٹوکار درباروں میں
اپنا سب کچھ بیچ چکے تھے،
نہرو کے پریواروں میں
بھارت کا سچ لکھ پانا،
تھا ان کے بس کی بات نہیں
ویسے بھی سورج کو لکھ پانا،
جگنو کی اوقات نہیں
آزادی کا شرے نہیں ہے،
گاندھی کے آندولن کو
ان یگیوں کی ہویہ بنایا،
شیکھر نے پسٹل گن کو
جو جناح جیسے راکشش سے،
ملنے جلنے جاتے تھے
جن کے کپڑے لندن، پیرس،
دبئی میں دھلنے جاتے تھے
کائرتا کا نشہ دیا ہے،
گاندھی کے پیمانے نے
بھارت کو برباد کیا،
نہرو کے شاہی گھرانے نے
ہندو ارمانوں کی جلتی،
ایک چتا تھے گاندھی جی
کورو کا ساتھ نبھانے والے،
بھشم پتا تھے گاندھی جی
اپنی شرطوں پر ارون تک،
کو بھی جھکوا سکتے تھے
بھگت سنگھ کی پھانسی کو،
دو پل میں رکوا سکتے تھے
مندر میں پڑھکر قرآن،
وہ وشو وجیتا بنے رہے
ایسا کرکے مسلم جن،
مانس کے نیتا بنے رہے
ایک نول گورو گڑھنے کی،
ہمت تو کرتے باپو
مسجد میں گیتا پڑھنے کی،
ہمت تو کرتے باپو
ریلوں میں، ہندو کاٹ کاٹ کر،
بھیج رہے تھے پاکستانی
ٹوپی کے لئے دکھی تھے وہ،
پر چوٹی کی ایک نہیں مانی
مانو پھولوں کے پرتی ممتا،
ختم ہو گئی مالی میں
گاندھی جی دنگوں میں بیٹھے تھے،
چھپکے نوواکھالی میں
تین دِوس میں شری رام کا،
دھیرج سنیم ٹوٹ گیا
سوویں گالی سن کانہا کا،
چکر ہاتھ سے چھوٹ گیا
گاندھی جی کی پاک پرستی پر،
جب بھارت لاچار ہوا
تب جاکر ناتھو،
باپو ودھ کو مجبور ہوا
گئے سبھا میں گاندھی جی،
کرنے انتِم پرنام
ایسی گولی ماری گاندھی کو،
یاد آ گئے شری رام
موک اہِنسا کے کارن ہی،
بھارت کا آنچل پھٹ جاتا
گاندھی جیوِت ہوتے تو،
پھر ملک، دوبارہ بٹ جاتا
تھک گئے ہیں ہم پرکھر ستیہ کی،
ارتھی کو ڈھوتے ڈھوتے
کتنا اچھا ہوتا جو،
نیتا جی راشٹرپتا ہوتے
ناتھوکو پھانسی لٹکاکر،
گاندھی جی کو نیائے ملا
اور میری بھارت ماں کو،
بٹوارے کا ادھیائے ملا
لیکن
جب بھی کوئی بھشم،
کورو کا ساتھ نبھائےگا
تب تب کوئی ارجن رن میں،
ان پر تیر چلائےگا
اگر گوڈسے کی گولی،
اتری نا ہوتی سینے میں
تو ہر ہندو پڑھتا نماز،
پھر مکہ اور مدینے میں
بھارت کی بکھری بھومی،
ابتک سہمتی نہیں ہوئی
ناتھو کی رکھی استھی،
اب تک پرواہِت نہیں ہوئی
اس سے پہلے استھی کلش کو،
سندھو ساگر کی لہریں سینچے
پورا پاک سماہِت کر لو،
اس بھگوا جھنڈے کے نیچے
اس تک بندی سے آپ کو یہ پتہ چلتا ہے کہ کیوں پرگیہ ٹھاکر نے گوڈسے کو دیش بھکت بتایا اور کیوں ہندوستان کے وزیر اعظم نے پرگیہ کے بیان کی تنقید نہیں کی!یہ ٹھیک ہے کہ گاندھی نے بڑے کام کئے لیکن جب وہ’ ملک’ کو ‘ڈوبانے ‘پر تل گئے تو ناتھو رام کی شکل میں کانہا کا چکر ہاتھ سے چھوٹ گیا۔گاندھی کی پاک پرستی نے ناتھو رام کو گاندھی-ودھ کے لئے مجبور کیا!یہ خیال سنگھ کے ذریعے ملک کے ہندوؤں میں مشتہر کیا گیا ہے جس کا پھر کوئی عدالتی ثبوت نہیں کہ گاندھی کو اگر نہ مارا جاتا تو ہندو مسلمانوں کا غلام بن جاتا۔اوپر جو تک بندی ہے، وہ گاندھی کے قتل کا سنگھی نظریےسے مناسب تجزیہ ہے۔ اس میں خاص طور پر نہرو کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ گاندھی سے غصہ اس لئے بھی ہے کہ ان کے عزیز نہرو تھے۔آخری اعلان پاکستان کو بھگوا پرچم کے نیچے شامل کرنے کا ہے۔ گوڈسے کی استھی اب تک رکھی ہے۔ وہ اس ہندوستان کو ایک کرنے کے بعد ہی، جس کو گاندھی نے بانٹ دیا تھا، سندھو میں بہائی کی جا سکتی ہے۔
سنگھ کے دائرے میں گاندھی کے قتل کو ودھ کہا جاتا ہے۔ قتل ہمیشہ برے لوگوں کا ہوتا ہے، شہید کے ہاتھوں ودھ ہونے سے بے لوگوں کی موت نہیں ہوتی، اس کو نجاب ملتی ہے۔ یہ راون کے ساتھ ہوا تھا، یہی شِشوپال کے ساتھ ہوا۔ اس لئے وہ سب احسان مند تھے کہ ان کی زندگی ایشور کے اوتارکے ہاتھوں ختم ہوئی۔ گاندھی بھکتوں کو بھی گوڈسے کا احسان مند ہونا چاہیے!گوڈسے نے اپنی زندگی میں صرف اہم ایک کام کیا جس کے وجہ سے اس کا نام لینے کو ہم مجبور ہوتے ہیں، اور وہ ہے گاندھی کا قتل۔ تو گوڈسے کی حب الوطنی کا ثبوت بھی یہی کارنامہ تو ہے! باقی تو تنظیم کا کام ہے جو محدود ہے!
پرگیہ ٹھاکر نے اپنا بیان واپس نہیں لیا ہے،وزیر اعظم اور بی جے پی کو عوام نے بھی اس بیان سے دوری بنانے کا ناٹک کرنے پر مجبور کیا ہے ۔۔ یہ سب مل کر آپ سے کہہ رہے ہیں کہ گوڈسے کے خلاف اب غلط پروپیگنڈہ بند کیجئے۔ ہم نے گوڈسےجی کے ساتھ گاندھی کو بھی دیش بھکت مان لیا ہے، یہ کم نہیں ہے!ویسے میرے ایک دوست کی تجویز ہے کہ پارلیامنٹ کے سامنے ایک مجسمہ لگایا جاناچاہیے جس میں گاندھی کے ساتھ گوڈسے بھی ہو، گاندھی پر گولی چلاتے ہوئے اور گاندھی ان تین گولیوں کو اپنے سینے پر لیتے ہوئے!