پردھان منتری ماتری وندنا یوجنا کے تحت دی گئی اہلیتی شرطیں اس کا مقصد پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
زچگی کے حق کی جدو جہد اور سسٹم کی پالیسیوں نے یہ تو ثابت کر ہی دیا ہے کہ جی ڈی پی میں 8 فی صد کی شرح نمو ریاستی نظام کو حساس نہیں بناتی ہے۔ اس نے ریاست اور پالیسی بنانے والوں کو اور زیادہ سخت بنایا ہے۔ اقتصادی ترقی کی جدو جہد میں سسٹم ،جنسی لحاظ سے غیرحساس ہوجاتا ہے۔اقتصادی آزادی کا عمل خواتین کے تئیں بےحد تلخ اور سخت ہے۔ بہت بنیادی اصول ہے کہ ولادت کا عمل اور واقعہ سماج، سسٹم اور انسان سے حساس اور جوابدہ عمل کی امید رکھتا۔ یہ قدرت اور سماج کو زندہ رکھنے اور بہتر بنانے کے لئے سب سے اہم ذمہ داری بھی ہے۔ یہ جوکھم کا مرکز بھی ہے، جس کوعورت اٹھاتی ہے۔
ہندوستان میں ہیلتھ منیجمنٹ، اطلاعاتی نظام کے مطابق سال 18۔2017 میں قیاسی تولید 2.73 کروڑ تھے۔ ان تمام خواتین کو خصوصی دیکھ ریکھ،نرم رویے، آرام اور خوشی، اچھے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے ان کی اور بچے کی زندگی یکساں طورپر منسلک ہوتی ہے۔بدلتے سماجی و اقتصادی زاویہ نگاہ نے خواتین کی آزادی کے لئے دروازے کھولے ہیں، لیکن ساتھ ہی ان پر دوہرا بوجھ بھی ڈالا ہے۔ ایک طرف تو خاتون مزدور کو اقتصادی نظام میں ایماندارانہ پہچان نہیں دی گئی، اور دوسری طرف ان آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والی 93 فیصد خواتین کے لئے بھی زچگی کے حق کے اہتمام نہیں کئے گئے۔ کسی بھی عورت کو کام کاجی تبھی مانا جاتا ہے، جب وہ اقتصادی آمدنی میں براہ راست اپنی خدمات دیتی ہے۔ اپنے گھر کو چلانے، بچوں اور رشتہ داروں کی دیکھ ریکھ وغیرہ کو مزدوری کے نظریہ سے قبول نہیں کیا گیا۔
اسٹڈی بتاتے ہیں کہ خواتین اپنے ہی گھروں کو چلانے اور اپنے گھریلو کام میں 9 سے 15 گھنٹے کی مزدوری کرتی ہیں۔ اس اعتبار سے ہر خاتون مزدوری کرتی ہے اور سبھی کے لئے آئینی طریقے یونیورسل زچگی کا حق ہونا چاہیے کیونکہ زچگی کا حق زندگی، مساوات اور برابری کے بنیادی حقوق سے صاف طور پر جڑا ہوا ہے۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد ان آرگنائزڈ سیکٹر کی خواتین کے لئے زچگی کے حق سے متعلق بہت محدود، بہت کمزور پروگرام بنائے گئے، جن کی عمل آوری میں ریاست نے مستعدی نہیں دکھائی۔ صرف سرکاری، نیم سرکاری اور نجی آرگنائزڈ سیکٹر میں ہی ایک حد تک خواتین کو تنخواہ کے ساتھ چھے مہینہ کی تعطیلات، آرام، صحت خدمات جیسے حق دئے گئے۔
پہلی بار اگست 2013 میں نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت یہ اہتمام کیا گیا کہ کسی دوسرے نظام کے تحت زچگی کا حق پانے والی خواتین کو چھوڑ کر تمام خواتین کو اس قانون کے تحت زچگی کے حق کی شکل میں 6000 روپے کی اقتصادی مدد دی جائےگی۔
اس سے امید جگی تھی کہ حکومت کی اس پہل سے 2.73 کروڑ خواتین میں سے زچگی کے حق سے محروم 2.50 کروڑ خواتین کو یہ حق ملنے کی شروعات ہوگی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ قانون بن جانے کے بعد بھی تین سال تک اس قانون کو نافذ کرنے کی منشا حکومت نے نہیں دکھائی۔
نوٹ بندی کے بعد 31 دسمبر 2016 کو ملک کو خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہندوستان میں زچگی کے حق دینے کے لئے اسکیم نافذ کی جائےگی۔ اس کو پردھان منتری ماتری وندنا یوجنا (پی ایم ایم وی وائی) نام دیا گیا ہے۔ اس کے بعد حکومت نے قانونی پروجیکٹ کو کمزور کرنے کے لئے ‘ اہلیتی شرطوں ‘ کا کھیل شروع کیا۔
آخر میں ہوا یہ کہ حکومت نے صرف پہلے بچے کے لئے ہی اس حق کو دینے کا اہتمام کیا۔ صرف اس ایک شرط کا اثر یہ ہوا کہ 2.50 کروڑ کی جگہ صرف 51.70 لاکھ خواتین ہی اس اسکیم کے لائق رہ گئیں۔
اس اسکیم کے لئے 16 ہزار کروڑ روپے کی جگہ 2400 کروڑ روپے کا اہتمام کیا گیا۔ مدھیہ پردیش حکومت نے تو سال 19۔2018کے بجٹ میں اس اسکیم کے لئے 1000 روپے کا ہی اہتمام کیا ہے۔ یہ حق صرف اقتصادی مدد بھر نہیں ہے، یہ خواتین کی مزدوری اور خدمات کو منظوری دیے جانے کی پالیسی بھی ہے۔
ہر بار حاملہ ہونا خاتون کو خطرہ میں لےکر جاتی ہے۔ اس خطرہ کو محدود کرنا ریاست اور سماج کا فرض ہے،لیکن حکومت ہند نے طے کیا ہے کہ وہ ہر 6 میں سے ایک خاتون کو ہی باوقار زندگی کا حق دےگی۔
اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والی خاتون ‘ حقدار ‘ نہیں بلکہ ملتجی ہوگی، اس کو تین قسطوں میں 5000 روپے پانے کے لئے ہر بار درخواست دے کر کل 13 صفحات کے فارم بھرنے ہوںگے۔ ہر نامزدگی، آدھار، پورا بھرا ہوا ماں بچہ تحفظ کارڈ جمع کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ 11 صفحات کےاور بھی فارم ہیں۔ خاتون کہیں نہ کہیں غلطی تو کرےگی ہی، بس اس کو محروم کر دیا جائےگا۔
اس اسکیم کی ہدایت میں کہا گیا ہے کہ
‘ ہندوستان میں زیادہ تر خواتین کو آج بھی غذائی قلت ناموافق طور پر متاثر کرتی ہے۔ ہندوستان میں ہر تیسری عورت غذائی قلت کی شکار ہے اور ہر دوسری عورت انیمیا سے متاثر ہے۔ غذائی قلت والی ماں اکثر کم وزن والے بچوں کو ہی جنم دیتی ہے۔ جب غذائی قلت بچہ دانی میں ہی شروع ہو جاتا ہے تو یہ پوری زندگی چلتا رہتا ہے اور زیادہ تر برا اثر غیر تغیر پذیر ہوتے ہیں۔
اقتصادی و سماجی تنگی کی وجہ سے کئی خواتین اپنی حالت حمل کے آخری دنوں تک اپنی فیملی کے لئے معاش حاصل کرنا جاری رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بچے کو جنم دینے کے ٹھیک بعد وقت سے پہلے ہی کام کرنا شروع کر دیتی ہیں، جبکہ ان کا جسم اس کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح ایک طرف اپنے جسم کو پوری طرح سے صحت یاب ہونے سے روکتی ہیں اور پہلے چھے مہینے میں اپنے نونہالوں کو خصوصی دودھ پلانےکی اپنی اہلیت میں بھی رکاوٹ پہنچاتی ہیں۔ ‘
یہ خیال صرف پہلے زندہ پیدا ہونے والے بچے اور اس کے زندہ رہنے تک لاگو ہوتے ہیں۔ اسقاط حمل ہونے، مردہ بچہ پیدا ہونے یا نوزائیدہ بچے کی موت ہونے پر حکومت یہ سوچ چھوڑ کر بےحس ہو جاتی ہے۔اس کے بعد حکومت کہتی ہے کہ پی ایم ایم وی آئی کے تحت حق صرف پہلے بچے کے جنم تک ہی دیا جائےگا۔ جب بحران ہر پریگننسی اور پرورش کی حالت میں ہوتا ہے، تو پہلے بچے تک حق محدود کیوں؟
حکومت کی دلیل ہے کہ ‘ چونکہ عموماً ایک خاتون کی پہلی پریگننسی اس کو نئےچیلنجزاور تناؤ سے متعلق عامل کے تئیں اجاگر کرتی ہے ” (سوال 1269، راجیہ سبھا، 28 دسمبر 2017) اس لئے حکومت نے پہلے زندہ بچےتک کے لئے یہ حق محدود رکھا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری تولید میں عورت کو سہولت ہوتی ہے اس کو تناؤ نہیں ہوتا اور کوئی خطرہ نہیں رہتا؟ ‘
حکومت ہند یہ نہیں جانتی ہے کہ اب بھی لڑکی کی شادی کس عمر میں کر دی جائےگی یا وہ کب اور کتنی بار حاملہ ہوگی، یہ فیصلہ اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتا ہے۔ شادی اور ولادت کے بارے میں فیصلہ اب بھی پدری سماج ہی لیتا ہے۔ ایسے میں پی ایم ایم وی وائی میں شامل شرطوں کو صرف اور صرف خاتون مخالف مانا جانا چاہیے۔
حیوانیت کی حد دیکھیے۔ اسکیم کے مطابق حمل کی نامزدگی پر مستفید کو 1000روپے کی پہلی قسط کی ادائگی کئے جانے کا اصول ہے۔ اگر پہلی قسط مل جانے کے بعد اسقاط حمل ہو جاتا ہے، تب خاتون کو زندگی میں دوسری بار حاملہ ہونے پر اس اسکیم کا پورا فائدہ نہیں ملےگا۔ اس کو پہلی قسط سے محروم کر دیا جائےگا، مانو عورت نے پہلے کوئی جرم کیا ہو!
اسی طرح اصول ہے کہ جب نامزد حاملہ خاتون کی ایک تولید سے قبل تفتیش ہوگی، تب 2000 روپے کی دوسری قسط کی ادائگی کی جائےگی۔ اس کے بعد اگر کسی وجہ سے اسقاط حمل ہو گیا یا مردہ بچے کا جنم ہوا ؛ اس حالت میں زندگی میں دوبارہ حاملہ ہونے پر خاتون کو شروعاتی دو قسط (روپے 3000) کا تعاون نہیں ملےگا، کیونکہ پہلے کی حالت حمل میں اس کی دو قسطیں ملی ہیں۔ اس کو صرف تیسری قسط (روپے 2000) کا ہی تعاون ملےگا۔
اتناہی نہیں اگر جنمکے کچھ دنوں بعد نوزائیدہ بچے کی موت ہو جاتی ہے، اور خاتون کو اس اسکیم کے تحت تینوں قسط دی جا چکی ہیں، تب اس کو اگلی حالت حمل کے تحت پی ایم ایم وی وائی کا فائدہ ‘ نہیں ‘ ملےگا۔ حکومت دکھانا چاہتی ہے کہ وہ عورت قابل لعنت ہے۔ اسقاط حمل، مردہ بچہ جنم اور نوزائیدہ بچہ کی موت کی حالت میں وہ مہیلا وندنا کے لائق نہیں ہے۔
اسقاط حمل یا مردہ بچہ کے جنمکے بعد، جب عورت دوسری بار حاملہ ہوگی تب حکومت اس کو خطرے میں نہیں مانتی ہے اور جو بھی بڑے مقصد طے کئے گئے ہیں، ان کو سولی پر چڑھا دیا جائےگا۔پہلی بار کے اسقاطِ حمل اور دوسری بار کی پریگننسی پر حق سے جڑی پی ایم ایم وی وائی کی شرطیں خاتون مخالف اور غیر انسانی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ایک مہذب سماج کا رکن ہونے کے ناطے ہم اس حق کی اسکیم کے ان اہتماموں کے پیچھے چھپے ہوئے منشا اور کردار کو پہچانیں۔