سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ(سی ایس ای)اور ڈاؤن ٹو ارتھ کے ذریعے 5 جون 2019 کو آنے والی’اسٹیٹ آف انڈیا انوائرنمنٹ 2019 ‘رپورٹ کے مطابق ان اسکیموں کا ہدف بڑی تعداد میں ہندوستانی نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تربیت دےکر ان کو اہل بنانا تھا۔
نئی دہلی : ملک کے 112 میں سے 108 ضلعوں میں’فلیگ شپ اسکیمس’کے نتیجے مایوس کن ہیں۔ جن میں جولائی 2018 سے فروری 2019 کے درمیان منفی اضافہ درج کیا گیا ہے۔
ڈاؤن ٹو ارتھ نے اسٹیٹ آف انڈیا انوائرمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ،موجودہ سرکاری اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی 96 فیصد’ایسپریشنل ڈسٹرکٹ’کے ترقیاتی کاموں پر فوراً دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان ضلعوں میں جولائی 2018 سے فروری 2019 کے درمیان معاشی ترقی اور مہارت کے شعبے میں منفی اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اس مدت کے دوران نگرانی کئے گئے 112 میں سے 108 ضلعوں میں معاشی ترقی اور مہارت کے شعبے میں چلائی جا رہی مختلف اسکیموں کے نتائج مایوس کن ہیں۔
سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ(سی ایس ای)اور ڈاؤن ٹو ارتھ کے ذریعے 5 جون 2019 کو آنے والی’اسٹیٹ آف انڈیا انوائرنمنٹ 2019 ‘رپورٹ کے مطابق ان اسکیموں کا ہدف بڑی تعداد میں ہندوستانی نوجوانوں کو صنعتوں کی مانگکے مطابق ہنر کی تربیت دےکر ان کو اہل بنانا تھا۔ جس سے کمزور طبقے کے نوجوانوں کی بھی ترقی ہو سکے۔اس لئے ان اسکیموں میں ہونے والے منفی اضافے سیدھے سیدھے پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا(پی ایم کے وی وائی)اور دین دیال اپادھیائے دیہی اسکیم کی ناکامیابی کو دکھاتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ایسپریشنل پروگرام کے تحت، ملک کے 112 نیم ترقی یافتہ ضلعوں کو پانچ اہم شعبوں میں ترقی کرنی تھی۔ جس میں-صحت اور غذا، تعلیم، زراعت اور آبی وسائل، اقتصادی اور مہارت کی ترقی، اور بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنا اہم ہے۔ جس کا سیدھا-سیدھا اثر شہریوں کی زندگی اور اقتصادی پیداوری کے معیار پر پڑےگا۔
نئے امکانات کو تلاش کرنے میں ناکام کوشل وکاس یوجنا
رپورٹ کے مطابق، مجموعی طور پر ضلعوں کے حالیہ مظاہرے پر ایک نظر ڈالنے سے لگتا ہے کہ تقریباً تمام ضلعےاچھا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن جولائی 2018 اور فروری 2019 کے درمیان کے مظاہرے کا تقابلی تجزیہ کرنے سے تصویر کچھ اور ہی نظر آتی ہے، یہ سچائی کڑوی ہے، مگر سچ بھی ہے، اور اس پر دوبارہ غور کرنا ضرری ہے۔
جہاں صرف چار ضلعوں میں معمولی اصلاح ہوئی ہے، جن میں ہریانہ کے میوات ضلع میں پچھلے 10 مہینوں میں معمولی سی اصلاح ہوئی ہے۔ جب اس کے اشاریہ کی 21.9 سے 31.7 نمبر تک اصلاح ہوئی ہے۔ وہیں، دوسری طرف منفی اضافہ درج کرنے والے 108 ضلعوں میں چھتیس گڑھ کا مہاسمند اور بستر سب سے خراب مظاہرہ کرنے والے ضلعے ہیں۔ مہاسمند کا اسکور جہاں 73.5 سے گھٹکر 40.8 رہ گیا ہے، وہیں اسی مدت میں بستر کا اسکور 65.3 سے گھٹکر 35.6 درج کیا گیا۔ ان دونوں ضلعوں کے اسکور میں گراوٹ دکھاتی ہے کہ ان ضلعوں کے لئے ‘نوجوان ‘ ترجیحات میں نہیں ہیں۔ حقیقت میں، چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے دیہی علاقوں میں روزگار جیسے اہم مدعے پر اوسط سے نیچے مظاہرہ کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ کانگریس کو چھتیس گڑھ اسمبلی انتخاب میں بھاری فرق سے جیت حاصل ہوئی تھی۔
کیا بڑھتی بےروزگاری کے لئے، نوجوانوں میں مہارت کی کمی ہے ذمہ دار
ڈاؤن ٹو ارتھ کے مطابق،2018 کے دوران بےروزگاروں کی تعداد میں تقریباً1.1 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے، جو کہ پچھلے 27 مہینوں میں ہندوستان کا سب سے خراب مظاہرہ ہے۔ اعلیٰ بےروزگاری شرح کے لئے نوجوانوں میں دستیاب نوکریوں کے مطابق ضروری مہارت کی کمی کو ذمہ دار مانا جا رہا ہے۔
منسٹری آف اسکِل ڈیولپمینٹ اینڈ انٹریپرینرشپ نے بھی قبول کیا ہے کہ ہندوستان کے کل کام کرنے والوں میں سے پانچ فیصد سے بھی کم نے کسی قسم کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی ہے۔ جہاں ہندوستان کے کل کام کرنے والوں کا صرف 4.69 فیصد ہی رسمی طور پر ماہر ہے، وہیں دوسری طرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 52 فیصد، یوکے میں 68 فیصد، جرمنی میں 75 فیصد، جاپان میں 80 فیصد اور جنوبی کوریا میں 96 فیصد لوگ اپنے کام میں ماہر ہیں۔
2019 کی لوک سبھا انتخابات میں بےروزگار اور غیر تربیت یافتہ نو جوان فیصلہ کن کردار نبھا سکتے ہیں ؛ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور کانگریس دونوں کے منشور میں نوجوانوں کے لئے روزگار اور مہارت کی ترقی کا پلندہ باندھا گیا ہے۔ جہاں کانگریس ان لاکھوں لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کر رہی ہے، جنہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی پوری نہیں کی ہے۔ جبکہ بی جے پی نے ‘ نیشنل پالیسی فار رسکلنگ اینڈ اپسکلنگ’کا وعدہ کیا ہے، جس کے ذریعے وہ ایسے ورک فورس کی ترقی کی اسکیم بنا رہی ہے جو صنعت کے موافق ہو اور جس کے ذریعے وہ اپنے لئے نئے امکانات تلاش کر سکیں۔
اندازہ ہے کہ 2020 تک ہندوستان میں آبادی کی اوسط عمر 28 سال ہو جائےگی۔ جو دکھاتا ہے کہ آنے والے وقت میں ہندوستان کی آبادی کا ایک بڑا طبقہ نو جوان ہوگا۔ یہ ملک کے لئے سنہرا موقع کے ساتھ ساتھ ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔