اتراکھنڈ کی بنیاد رکھنے والی بی جے پی کے ماتھے پر سب سے بڑا داغ یہ لگا ہے کہ بھاری اکثریت سے سرکار چلانے کے باوجود اس نے دس سال کے اقتدار میں صوبے پر سات وزیر اعلیٰ تھوپ ڈالے ۔ پارٹی کی ناکامی یہ بھی ہے کہ اب تک اس کا کوئی بھی وزیر اعلیٰ اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔
اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ترویندر سنگھ راوت کے ساتھ نئے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@pushkardhami)
دو تہائی سے زیادہ کی اکثریت سے جیتی کوئی ریاستی سرکار، تین مہینے میں تین وزیر اعلیٰ۔ سرکار کی ایک ہی مدت کار میں تین بار راج بھون میں تقریب حلف برداری۔
اتراکھنڈ میں2017 مارچ میں ہوئے اسمبلی انتخاب کے بعد سے ہی پہلی بار وزیر اعلیٰ بنائے گئے ترویندر سنگھ راوت کے خلاف انہی کے وزیروں اور ایم ایل اےکی بےشمار شکایتیں اور بدعنوانی میں داغدار دامن کے باوجود دہلی کے ان کے آقا ان کے خلاف سنگین شکایتوں کو اَن سنا کرتے رہے۔
بی جے پی اعلیٰ کمان کو ترویندر سرکار کی غیرمقبولیت کو سمجھنے میں تقریباً چار سال لگ گئے۔ جب عوام میں فضیحت شروع ہوئی اور یہ لگ گیا کہ ترویندر کے وزیر اعلیٰ رہتے 2022 کا انتخاب نہیں جیتا جا سکتا۔ ان کو بنا کسی وقت گنوائے مارچ 2021 شروع ہوتے ہی ہٹانے کی ٹھان لی گئی۔
ان سے استعفیٰ دینے کو کہا گیا۔محض 24 گھنٹے کی آنا کانی اور چند اور دنوں کی مہلت کو گڑگڑا رہے ترویندر کو دو ٹوک کہا گیا آپ کا وقت پورا ہو چکا۔ آناًفاناً میں کس کو وزیر اعلیٰ بناتے۔ سو بی جے پی اعلیٰ کمان کو تیرتھ سنگھ بطور ‘نائٹ واچ مین’ سامنے نظر آ گئے۔
وہ لوک سبھا میں ایم پی ہیں۔ 6 مہینے کے اندر چن کر آ سکتے تھے، لیکن اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں جیت کے بعد ان کو لوک سبھا سے استعفیٰ دینا پڑتا۔ پھر ان کی گڑھ وال لوک سبھا پر دوبارہ ضمنی انتخاب کی نوبت آتی۔
پارٹی اعلیٰ کمان کا یقین ڈول گیا کہ کووڈ ویکسین میں کروڑوں کی بدعنوانی کا پلیتہ ایسے موقع پر لگا جب ہری دوار کمبھ میلے میں لاکھوں لوگوں کی بھیڑ کھڑی کروانے کے لیے بی جے پی کی مرکز اور اتراکھنڈ سرکار دونوں ہی کٹہرے میں ہیں۔
اتراکھنڈ میں بی جے پی بھلے ہی چھپر پھاڑ اکثریت(70 میں سے 57 سیٹیں)سے انتخاب جیتی ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ چیف سکریٹری کے دفتر سے لےکر پٹواری چوکی تک نوکر شاہی کی بدعنوانی کا ننگا ناچ21 سال سے اتراکھنڈ میں چل رہا ہے۔
صوبے کے 13ضلعوں میں سے 9پہاڑی ضلعوں میں بنیادی سہولیات پر کوئی توجہ نہیں ہے۔گڑھوال کمشنری کا ہیڈکوارٹر پوڑی میں ہے لیکن صوبہ بننے کے بعد پہاڑی ضلعوں کی ترقی میں کئی اہم محکمے دہرادون شفٹ کر دیے گئے یا ایسے حکام کو دوہری ذمہ داری دینے کے نام پر وہ دہرادون میں بیٹھ کر عیش وآرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
بی جے پی کا سب سے بڑا چھلاوہ راجدھانی کے معاملے پر ہے۔2017 کے اسمبلی انتخاب میں اس کے کئی رہنماؤں نے پہاڑ کی عوام کو یقین دلایا کہ گیرسین میں مستقل راجدھانی بنانے کا مدعا ان کی ترجیحات میں ہوگا لیکن جب سرکار انتخابی سال میں داخل ہو رہی تھی، تو اعلان کیا گیا کہ گیرسین موسم گرما کی راجدھانی بنےگی۔
یہ تکنیکی بندوبسٹ تو پچھلی کانگریس سرکار میں بھی تھا اور وہاں برائے نام ہی صحیح اسمبلی کے سیشن کاڈھونگ کیا گیا۔ ترویندر سنگھ نے چمولی اور کماؤں کے 3-4 ضلعوں کو ملاکر گیرسین کمشنری بنانے کا بھی اعلان کیا، لیکن یہ سب ناٹک وہ صرف کرسی بچانے کے لیے کر رہے تھے کیونکہ پارٹی اعلیٰ کمان پچھلے سال سے ہی ان پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
تیرتھ سنگھ کو لانے کا تجربہ بی جے پی اعلیٰ کمان پر الٹا پڑا۔ بی جے پی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ 6 ماہ کے ا ندر ایم ایل اے بننے کی ترجیحات کیا ان کو وزیر اعلیٰ بناتے وقت پارٹی قیادت کو پتہ نہیں تھی یا جان بوجھ کر 2-3 مہینے کا وقت کاٹنے کے لیے تیرتھ کی فضیحت کرائی گئی۔
اگریہ بات سچ ہے کہ تیرتھ نائٹ واچ مین سی ایم کے طور پر لائے گئے تھے اور ان کو لانے اور بنا کسی ٹھوس وجہ کے ہرانے سے بی جے پی کی اتراکھنڈ میں عوام اور پورے ملک کی نظر میں جو حالت ہوئی ہے، اس کا خمیازہ کس کے سر پر پھوڑا جائےگا۔
نئےوزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نوجوان اور پرجوش ہیں۔ لیکن ان کی حلف برداری کی تقریب کو 24 گھنٹے ٹالنے کی مجبوری کے پیچھے سب سے بڑا پینچ تھا کہ بی جے پی کے تقریباً آدھے درجن سرکردہ رہنما کوپ بھون میں چلے گئے۔ ان میں کانگریس سے بی جے پی میں گئےستپال مہاراج سے لےکر ہرک سنگھ اور یشپال آریہ سے لےکر بی جے پی کےسینئر وزیروں ونشی دھر بھگت و بشن سنگھ چفال جیسے اہم ستون شامل تھے۔
حلف لیتےاتراکھنڈ کے نئے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@pushkardhami)
تقریباً دو درجن ایم ایل اے اتنے خفا تھے کہ وہ اندرونی طور پر سرکشی کی تیاری میں تھے۔ ان میں سے کئی وہ بھی تھے، جن کی سابق وزیر اعلیٰ ترویندر سنگھ راوت کے گھر پر دو دن لمبی بیٹھکیں ہوئیں۔ سب سے بڑی بات ہے کہ ایک ایک ناراض رہنما کو منانے کے لیے وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی صدر جےپی نڈا کو دو دن بھاری مشقت کرنی پڑی۔ سب سے زیادہ پسینہ ستپال مہاراج کو راضی کرنے میں لگا کیونکہ ان کے باغیانہ تیور ساتویں آسمان پر تھے۔
پارٹی اعلیٰ کمان نے دعویٰ کیا ہے کہ 45سال کے نوجوان پارٹی کارکن کو کرسی سونپنے سے پرانے لوگوں کے بیچ بالادستی کی لڑائی ختم ہو جائے گی۔ لیکن بی جے پی کے اندرایک مضبوط گروپ مانتا ہے کہ پارٹی رہنماؤں میں گٹ بازی کم ہونے کے بجائے اور بڑھےگی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پشکر سنگھ دھامی مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے سیاسی شاگرد ہیں۔ کوشیاری سال2001 میں عبوری سرکار میں چند مہینوں کے لیے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے تھے۔ نتیانند سوامی کو غیر اتراکھنڈی بتانے پر کوشیاری گٹ کے دباؤکی وجہ سےہی سوامی کو ہٹایا گیا تھا۔ اس سے بی جے پی کی ہی فضیحت ہوئی۔
اتراکھنڈ کی بنیادرکھنے والی بی جے پی پہلے اسمبلی انتخابات میں ہی بری طرح ہاری۔ اسے پانچ سال تک اقتدار سے باہر رہنا پڑا۔
مانا جا رہا ہے کہ دھامی کے وزیر اعلیٰ بنانے میں بھگت سنگھ کوشیاری کی فعالیت نے سب سے اہم رول نبھایا۔ بی جے پی میں اندرونی چرچہ یہ بھی ہے کہ کوشیاری خود فعال سیاست میں آنے کے لیے مارچ میں دہلی میں کافی متحرک ہوگئے تھے۔ انہوں نے آر ایس ایس کے اپنے تعلق کے ذریعے بھی ترویندر کے ہٹنے کے بعد خود وزیر اعلیٰ بننے کی لابنگ کی لیکن ان کی باتوں کو ان سنا کر دیا گیا۔
اتراکھنڈ بی جے پی میں کوشیاری گٹ ان کے گورنر بننے کے بعد ایک دم الگ تھلگ ہو گیا تھا۔ لیکن اب بی جے پی میں کوشیاری گٹ پھر سے زندہ ہو گیا ہے۔ کماؤں حلقہ سے بشن سنگھ چفال کو کوشیاری کماؤں کے مقامی قواعد کی وجہ سے پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی دباؤ میں ترویندر سنگھ نے 2017 کے بعد سے چفال کو وزیر نہیں بننے دیا۔
ستپال مہاراج اور کوشیاری کے بیچ بھی چھتیس کا آنکڑا ہے۔ مہاراج کا سب سے بڑا درد یہ ہے کہ انہیں بی جے پی اعلیٰ کمان کی جانب سے کئی بار اشارے دیے گئے کہ وزیر اعلیٰ بننے کے لیے ان کے مرتبہ کا پارٹی دھیان رکھےگی۔ مہاراج کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ پارٹی نے چھلاوا کیا۔
مہاراج کا درد یہ ہے کہ ایچ ڈی دیوگوڑا کی سرکار میں ریل اور خزانہ کےوزیر مملکت رہ چکے ہیں۔ لیکن گزشتہ سوا چار سال سے ان کے پر کترکر رکھے گئے۔
کانگریس سے آئے ہرک سنگھ راوت بی جے پی سرکار میں دبنگ رہنما ہیں، جن کو لےکر بی جے پی ہمیشہ ڈری رہتی ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ ہرک سنگھ کانگریس کے دہلی دربار کے رہنماؤں سے بھی مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں۔
سال 2016 میں وجے بہوگنا، ستپال مہاراج، ہرک سنگھ اور یشپال آریہ سے کانگریس میں تقسیم کرکے بی جے پی کا دامن تھاما تھا۔ یہ سبھی رہنما کانگریس کی ریڑھ مانے جاتے تھے لیکن ہریش راوت کی بالادستی کی وجہ سے انہوں نے باقی ایم ایل اےکے ساتھ بی جے پی کا دامن تھاما۔
سال2017 کے انتخاب میں اور بی جے پی سرکار میں وزیر کےعہدے پر دوبارہ بحالی بھی ہو گئی لیکن آر ایس ایس سے چلنے والی بی جے پی کی سیاست میں انہیں ابھی بھی اچھوت اور ناقابل اعتمادمانا جاتا ہے۔ ستپال مہاراج کی دعویداری کی ان دیکھی کرکے بی جے پی نے اپنی اسٹوڈنت ونگ اور پارٹی کے اندر پل کر بڑے ہوئے نوجوان رہنما دھامی پر ہی بھروسہ کیا۔
بی جے پی کے ماتھے پر سب سے بڑا داغ یہ لگا ہے کہ بھاری اکثریت سے سرکار چلانے کے باوجود اس نے اپنے 10 سال کے اقتدار میں اتراکھنڈ پر سات وزیر اعلیٰ تھوپ ڈالے۔ بی جے پی کی ناکامی یہ بھی رہی کہ اس کا اب تک کوئی بھی وزیر اعلیٰ اپنی مدت پوری نہیں کر پایا۔
اس بار عوام کے سامنے بی جے پی کی ایسی کوئی کارکردگی نہیں ہے، جس کے بل پر وہ 2022 کے شروع میں ہونے والے اسمبلی انتخاب میں ووٹ مانگ سکے۔ بی جے پی کے لیے بڑا جھٹکا یہ ہے کہ اس کے خلاف کووڈ مہاماری سے نمٹنے میں ناکامی کو لےکر شہر و پہاڑوں میں ہر جگہ غصہ ہے۔
دوسرا کمبھ میں کووڈ ٹیکہ گھوٹالے میں بی جے پی کی پوری مشینری عوام کی نظر میں بدنام ہو چکی ہے۔ اس لیے کہ گھوٹالےبازوں کا گروہ اتراکھنڈ سے لےکر دہلی تک بی جے پی رہنماؤں کے ہم جولی بنے ہوئے تھے۔ ویکسین گھوٹالے میں فرضی جانچ رپورٹوں کے کی بنیاد پر صوبے کے خزانےسے کئی سو کروڑ کی لوٹ پاٹ ہو گئی۔
ایسے برے دور میں جب پوری دنیا میں اور ہندوستان میں کووڈ انفیکشن سے ہر روز سیکڑوں لوگ موت کے منھ میں سما رہے تھے تو بی جے پی سرکار نے ہری دوار میں کمبھ میلے میں لاکھوں لوگوں کو کووڈ پروٹوکال کی خلاف ورزی کئی ہفتوں تک ہونے دی۔ اتراکھنڈ کے میدانی ضلعوں سے لےکر دوردراز کے پہاڑوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کی موتوں پر بھاری غصہ ہے۔
زیادہ تر لوگ بنا آکسیجن اور معمولی علاج دستیاب نہ ہونے کی وجہ سےعام اور خاص بھی دردر بھٹکنے کو مجبور ہوئے۔ بدعنوانی اور گھوٹالوں پر کارر وائی کے معاملے میں بی جے پی سرکار کا رویہ صوبے میں کانگریس کی سرکاروں سے الگ نہیں رہا۔
کرپٹ نوکر شاہی وزیر اعلیٰ اور وزیروں کو ہمیشہ نچاتی رہی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ صوبے میں نوکر شاہی کا رویہ عوامی سروکاروں کے لیے پوری طرح سے غیرحساس ہے۔ بی جے پی قیادت کے پاس اپنے ہی وزرائے اعلیٰ کے کارناموں کا کچا چٹھا موجود ہے لیکن کوئی کارر وائی تو دور ایسے رہنماؤں کو الٹاتحفظ ہی ملتا رہا ہے۔
پشکر سنگھ دھامی کے سامنے صوبے میں اپنی ساکھ کھو چکی بی جے پی کے تیزی سے گرتے ووٹ بینک کو بچانے کا بڑا چیلنج ہے۔ عام آدمی پارٹی کے آنے کے بعد بی جے پی میں ہلچل ہے۔
دوسرا یہ کہ کانگریس بھی اپنا وجود بچانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔صوبے کی تشکیل سے لےکر اتراکھنڈ میں ووٹوں کا پولرائزیشن کانگریس و بی جے پی کے ارد گرد ہی سمٹتا ہے۔ ‘عآپ’ شہری علاقوں میں سمٹی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا میں بھی متحرک ہے، لیکن اس کی فعالیت بی جے پی مخالف ووٹوں میں ہی تقسیم کھڑا کرےگی۔
اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ابھی نوجوان ہیں اور پورے صوبے میں ان کی مقبولیت ابھی صفر کے پائیدان پر ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ترقی کے تمام کام کاج ٹھپ پڑے ہیں۔ پینے کے پانی، سینچائی، اسپتال اور بنیادی تعلیم کا برا حال ہے۔ بےروزگاری عروج پر ہے اورکووڈ مہاماری نے مہاجروں کو بڑی تعداد میں واپس اپنے گاؤں میں آنے کومجبورکیا ہے۔
ایسے لوگ صوبے کے لیے ایک بڑی پونجی ثابت ہو سکتے ہیں۔حیرت یہ ہے کہ ڈیڑھ سال سے ہزاروں مہاجرمزدوروں نے پہاڑی علاقوں میں اپنے گاؤں کی جانب رخ کیا ہے۔ لیکن ریاستی سرکار کے پاس ان کی اہلیت اور صلاحیت کوریاست کی دوررس ترقی میں حصہ دار بنانے کے لیے نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی کسی طرح کے اعدادوشمارہیں۔
اگلااسمبلی انتخاب ہونے میں اب کم ہی وقت بچا ہے۔ ایسے میں ڈوبتی بی جے پی کو اقتدارمیں واپسی کرانے، سرکار وپارٹی میں توازن بناکر کام کرنا نئے وزیر اعلیٰ کے لیے آسان کام نہیں ہے۔
(اوماکانٹ لکھیڑاسینئر صحافی ہیں۔)