مودی سیاست میں اتنے ایماندار ہیں کہ وہ اپنی ’عیاری‘ کو بھی نہیں چھپاتے…

02:55 PM Mar 04, 2019 | یاسمین رشیدی

اندازہ لگایئے کہ تاریخ سے کھیلنے والے ہمارے وزیر اعظم کے لیے جوانوں کی شہادت پر سیاست کیا مشکل ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ جنگ کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔

27 فروری 2019 کو نئی دہلی میں نیشنل یوتھ پارلیامنٹ تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

ونگ کمانڈر ابھینندن اپنے وطن، اپنے گھر واپس لوٹ آئے،یہ سب کے لیے خوشی کی بات ہے۔ ہمیں خوش ہونا بھی چاہیے، لیکن ان کی حراست  اور رہائی کے درمیان  جب  لوگ خیریت سے ان کی وطن واپسی کی دعا کر رہے تھے،اس وقت’ گودی میڈیا‘ اور  وزیر اعظم نریندر مودی کیا کر رہے تھےیاکیا کہہ رہے تھے،یہ قابل توجہ امر ہے۔ساتھ ہی کمانڈر ابھینندن کو مرکز میں رکھ کران  کے نام پر ہونے والی سیاست بھی دیکھے جانے کے لائق ہے اور یہ سیاست ابھی لمبی چلنے والی ہے،جس کا سلسلہ  فلم کے ٹائٹل رجسٹر کرانے سے لے کر مودی کے پراکرم تک میں فی الحال دیکھا جا سکتا ہے ۔

دراصل ایک طرف جہاں انھوں نے اپنے خطابات سے عوام کو اکسانے کی بھر پور کوشش کی ،وہیں دوسری طرف تمل ناڈو میں انتخابی ریلی کو ہی خطاب کرتے ہوئے ان کو ابھینندن کی یاد دوبارہ آئی، وزیر اعظم کو یاد آیا کہ ابھینندن یہیں کا تو ہے۔ افسوس ہے اس ذہنیت پر کہ ایک دن پہلے جب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان،ابھینندن کو رہا کرنے  کی بات کر رہے تھے ،اس وقت ہمارے وزیر اعظم سائنس کے لئے شانتی سوروپ بھٹناگر ایوارڈ دیتے ہوئے کہہ رہے تھےکہ ابھی تو ’پائلٹ پروجیکٹ‘ پورا ہوا ہے اور اصلی کام اب شروع ہوگا ۔اور آپ جانتے ہی ہیں یہ پائلٹ پروجیکٹ کیا ہے ؟ سچ پوچھیے تو ایسا محسوس ہوتا ہےکہ مودی کے لیے انتخاب سے بڑا پروجیکٹ اور کچھ نہیں ہے اور ان کی پسندیدہ جگہ انتخابی ریلی ہی ہے۔

 جی ،توریلیوں میں مصروف رہنے والےہمارے وزیر اعظم ’پائلٹ پروجیکٹ‘ کےذریعے کیا کہنا چاہتے تھے یہ سمجھنا مشکل نہیں ۔پھر تمل ناڈو جاکر انھیں  انتخابی ریلی میں یاد آیا کہ ابھینندن تو تمل ناڈو کے ہیں۔مجھے بھی اپنے وزیر اعظم سے ہی معلوم ہوا کہ ہمارے ونگ کمانڈر ابھینندن  تمل ناڈو سے ہیں،میں تو ان کو  صرف ایک ہندوستانی سمجھ  رہی تھی، وہم و گمان میں یہ بات نہیں تھی کہ کسی کے پوچھ لوں کہ وہ ہندوستان کی کس ریاست سے ہیں؟لیکن سیاست ، وہ بھی مودی کی سیاست… شاید ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ والی سیاست میں ان باتوں کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔

بہر کیف اس دوران پاکستان کے وزیر اعظم نے جہاں امن کی بات کی وہیں ہمارے وزیر اعظم اپنی انتخابی ریلیوں میں چلا چلا کر کہتے رہے کہ بھائیوں اور بہنوں بدلا لیا جائے گا۔ بدلے کی سیاست میں وہ بھول گئے کہ انھوں نے ونگ کمانڈر کےمعاملے کو لے کر ایک بار بھی عوام کو خطاب نہیں کیا،ہاں اپنے بی جے پی کے کارکنوں سے انھوں نے خوب بات کی، اور اپنے بوتھ کو مضبوط کرنے کی ساری قواعد کر ڈالی۔


یہ بھی پڑھیں:کیا ہماری فوج کا استعمال ایک خاص سیاسی پارٹی کے مفادات کے لئے کیا جا رہا ہے؟


خیر ان سے سوال تو یہ بھی ہے کہ بالاکوٹ ایئر اسٹرائک کے بعد دہشت گردوں کے کیمپ کو تباہ کرنے اور تقریباً 300 دہشت گردوں کے مارے جانے کے دعووں کے باوجود اب تک حکومت کی طرف سے کیوں  نہیں بتایا گیا کہ کتنے دہشت گردوں کو مارا گیا۔حالانکہ پارلیامانی کمیٹی نے بھی اس بارے میں جانکاری مانگی ہے۔بین الاقوامی میڈیا اور پاکستان پہلے ہی سے اس بارے میں کیا کہہ رہا ہے، اس پر بھی نظر دوڑا لیجیے۔

آپ کو ایئر اسٹرائک کے بعد والا وزیر اعظم کا وہ بیان تو یاد ہی ہوگا جس میں انھوں نے ’ملک کو جھکنے نہیں دوں گا اور ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے‘جیسی باتیں کی تھی۔اور ایسے کی تھی جیسے کوئی ،عیار سیاستداں کر سکتا ہے۔پھر کیا ہوا کہ ابھی تک نہ تو ایئر اسٹرائک پر اور نہ ہی ونگ کمانڈر کے پکڑے جانے پر انھوں نے کچھ کہا،ان کے خیر مقدم میں ایک ٹوئٹ کیا بس۔

اس کے علاوہ آپ کو یاد ہے ،کچھ کہا تھا  کیاانھوں نے؟ مجھے تو یاد نہیں آ رہا۔ شاید نوجوت سنگھ سدھو نے ٹھیک ہی کہا  کہ’جس جنگ میں بادشاہ کی جان کو خطرہ نہ ہو وہ جنگ نہیں سیاست ہے۔‘ جی یہ بات ہمارے بادشاہ یعنی وزیر اعظم پر سو فیصد فٹ بیٹھتی ہے۔ بدلے کی سیاست میں وہ بھول گئے کہ جنگ میں اپنے فوجی بھی ہلاک ہوتے ہیں،جس سیاست اور جس کرسی کے لیے وہ جنگ چاہتے ہیں اس میں اپنےہی لوگوں  کے خون سے دھرتی لال ہوتی ہےکہ ساحر کے لفظوں میں ؛

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میتوں پہ روتی ہے

ان سب سے الگ  ’گودی میڈیا ‘نےابھینندن کی رہائی کے پاکستان کے فیصلے کو کیسے کور کیا،یہ بھی غور کیا جانا چاہیے۔ ’جھک گیا پاکستان،بھارت کے آگے پاکستان نے ٹیکے گھٹنے اور ہندوستان کی مونچھ اونچی‘ جیسے سرخی  لگانے والے حکومت سے یہ سوال کرنا بھی بھول گئے کہ آخری وقت تک ونگ کمانڈر کے حراست میں ہونے کی خبر کوحکومت “missing in action”کیوں بتاتی رہی؟

گویا سب جم کر سیاست کر رہے تھے ،کوئی سیٹوں کی تعداد شمار کر رہا تھا تو کوئی مودی کے پوسٹر لگا رہا تھا جیسے مودی ہی جنگی طیارہ کو کمانڈ کر رہے تھے ۔ ان سب کے بیچ اسمرتی ایرانی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’مودی کے پراکرم سے ایئر فورس کے پائلٹ کی 48 گھنٹوں میں واپسی ہوئی۔‘کیا واقعی؟ یہاں امریکہ اور ٹرمپ کے رول کو نظر انداز کرنا بے وقوفی ہوگی۔ یاد کیجیے اچھی خبر آنے کی نوید بھی انہوں نے دی تھی ، اس سے پہلے بھی وہی بول رہے تھے ۔ یہ الگ بات کہ ٹرمپ کی اچھی خبر مودی کے اچھے دن کا وعدہ  ثابت نہیں ہوا۔لیکن کسی نے اسمرتی ایرانی سے کیوں نہیں پوچھا کہ جس حملے کی خبر ہی پاکستان دے رہا تھا اور جو پائلٹ حکومت کے لفظوں میں ’لاپتہ‘تھا اس کو مودی کے’ پراکرم‘نے کیسے بچایا؟

سوال بہت سارے ہیں لیکن ہمارا ’گودی میڈیا‘ نہ تو پوچھنے کی ہمت رکھتا ہے اور نہ ہی حکومت جواب دینے کے موڈ میں نظر آتی ہے۔اور جو لوگ سوال پوچھتے ہیں ان کو ملک مخالف بتا کر خوب ٹرول کیا جاتا ہے،گالیاں دی جاتی ہیں۔

ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جہاں ایک طرف پاکستان کی عوام کا ایک حصہ امن  مار چ کر رہا تھا اور ہندوستانی پائلٹ کو رہا کرنے کی مانگ  کو لے کر سڑکوں پر تھا،اسی  وقت ہمارے یہاں  عوام کا ایک طبقہ  ترنگے کے ساتھ اپنی  ریلیوں میں پاکستان مردہ باد کے ساتھ ،پاکستان کی ماں کا بھونسڑہ…جیسی گالیوں کو ہوا میں اچھال رہا تھا ۔ تو ہم کس پستی میں پہنچ چکے ہیں ،شاید اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ میڈیا چینلز پر پروسی جا رہی نفرت ہی ہے جو وقت بے وقت مختلف صورتوں میں ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔

ہمارے وزیر اعظم اور ان کے جھوٹ کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہ ایک مثال کافی ہوگی کہ حال ہی میں انھوں نے تمل ناڈو میں اپنی انتخابی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے ہندوستان کی پہلی خاتون وزیر دفاع نرملا سیتا رمن کو بنا دیا۔ہندوستان کی پہلی خاتون وزیر دفاع کے طور پر اندرا گاندھی کو بھول جانا مودی کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ یوں بھی وہ نئی تاریخ لکھنے سے زیادہ بولتے آئے ہیں ۔

اب اندازہ لگایئے کہ تاریخ سے کھیلنے والے ہمارے وزیر اعظم کے لیے جوانوں کی شہادت پر سیاست کیا مشکل ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ جنگ کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔اگر جانتے ہیں تو ہر انتخابی ریلی میں ان کے لفظوں کے انتخاب پر توجہ دیجیے۔ بہت آسانی سے سمجھ آ جائے گا کہ وہ صرف عوام کو گمراہ نہیں کرتے بلکہ ان کاا ستعمال کرتے ہیں۔بھیڑ بناتے ہیں اور پھر بھیڑ اپنا کام کر کے نکل جاتی ہیں؟ نہ کوئی ملزم نہ مجرم کہ بھیڑ تو بے چہرہ ہوتی ہے۔

کیا یہ ہندوستان  کے وزیر اعظم کے اس عہدے کی بے عزتی نہیں ہے،جس پر نریندر مودی بیٹھے ہیں؟ کیا یہ ہم سب ہندوستانیوں کی بے عزتی نہیں ہے کہ ہمارے وزیر اعظم جو غیر ممالک میں ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہیں اپنی انتخابی ریلیوں میں جھوٹ بولتے ہیں۔رویش کمار  شاید ٹھیک کہتے ہیں کہ اب بہت دیر ہو چکی ہےلیکن اگر اب بھی ہم نے اندھ بھکتی نہیں چھوڑی تو تاریخ میں ہندوستان کا یہ زمانہ کس طرح یاد کیا جائے گا؟ اور کیا عوام قصور وار نہیں ہوگی،اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے جرم میں ؟ جھوٹ پر یقین کرنے کے جرم میں؟