سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹ کے سابق ججوں پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وزارت داخلہ کی لاپرواہی، تشدد میں دہلی پولیس کی ملی بھگت، میڈیا کی تفرقہ انگیز رپورٹنگ اور سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف بی جے پی کی نفرت انگیز مہم دہلی فسادات کے لیے مجموعی طور پرذمہ دار تھے۔
نئی دہلی: نارتھ–ایسٹ دہلی میں 2020 میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکور کی سربراہی میں بنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے واضح طور پرتشدد متاثرہ علاقوں میں اضافی فورسز کی تعیناتی میں تاخیر کی، جبکہ فرقہ وارانہ فسادات 23 فروری سے 26 فروری 2020 کے بیچ بے روک ٹوک جاری رہے۔
کمیٹی نے پایا کہ دہلی پولیس کی قیادت کو 23 فروری کو اسپیشل برانچ اور خفیہ اکائیوں سے کم از کم چھ اندرونی الرٹ موصول ہوئے تھے، پھر بھی اضافی دستے کی تعیناتی 26 فروری کو کی گئی۔ الرٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ برادریوں کے درمیان تشدد بڑھ سکتا ہے۔ واضح ہو کہ 23 فروری کو ہی فسادات کی شروعات ہوئی تھی۔
کمیٹی نے کہا کہ وزارت داخلہ کی طرف سے دکھائے گئے مبینہ لاپرواہ رویے نے بالواسطہ طور پر دنگائیوں کو تین دن تک بے تحاشہ ٹارگٹیڈ تشدد پھیلانے میں مدد کی۔
ایف آئی آر–59 سے متعلق عدالت میں دہلی پولیس کی طرف سے پیش کی گئی چارج شیٹ سے بھی کمیٹی کے اس دعوے کی تائید ہوتی ہے۔ اس میں عمر خالد، خالد سیفی، عشرت جہاں، گلفشاں فاطمہ، صفورہ زرگر، نتاشا نروال، دیوانگانہ کلیتا اور ان جیسےدیگر طالبعلموں کے خلاف یو اے پی اے لگایا گیا ہے۔
چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے پہلے تین دنوں میں جب متاثرہ علاقوں سے زیادہ سے زیادہ فون (ڈسٹریس کال) آرہے تھے، تب دہلی پولیس اور سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز کے اہلکاروں کی تعداد 1400 سے کم تھی۔ 26 فروری کو جب شمال–مشرقی دہلی کے کئی حصوں میں تشدد بہت حد تک قابومیں تھے ، تب فورسز کی تعیناتی کو بڑھا کر 4000 کر دیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ درحقیقت،24 فروری کو سویلین پولیس اور نیم فوجی دستوں کی تعداد 23 فروری کے مقابلے کم تھی۔ 26 فروری کو ہی تعیناتی میں اضافہ کیا گیا تھا، جبکہ یہ وہ دن تھا جب قومی سلامتی کے مشیر نے حالات کے قابو میں ہونے کا اعلان کیا تھا۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی میں سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکور، دہلی اور مدراس ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ، دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج آر ایس سوڈھی، پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج انجنا پرکاش اور سابق مرکزی داخلہ سکریٹری جی کے پلئی شامل تھے۔
اپنی 170 صفحات سے زیادہ کی مفصل رپورٹ میں کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ، مرکزی وزارت داخلہ کی لاپرواہی، تشدد میں دہلی پولیس کی ملی بھگت، میڈیا کے ذریعے واقعہ کی تفرقہ انگیز تفصیل اوردو ماہ سے زیادہ عرصے سے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کی نفرت انگیز مہم دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات کے لیے مجموعی طور پر ذمہ دار تھے۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے یہ جھوٹا ماحول بنایا کہ ‘حالات قابو میں تھے’۔
کمیٹی نے 758 ایف آئی آر میں سے 752 کا جائزہ لیا اور پایا کہ سی اے اے مخالف مظاہرین، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے، اور سی اے اے کی مخالفت کرنے والے ہندوتوا کارکنان کے خلاف پولیس کا ردعمل متضاد اور جانبدارانہ تھا۔
کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ ہندوتوا کارکنوں کی قیادت والے تشدد میں پولیس نے بھی اس لیے حصہ لیا، تاکہ شمال–مشرقی دہلی میں کئی مقامات پر سی اے اے مخالف پروٹیسٹ سائٹ کو ختم کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی معاملات میں دہلی پولیس کے اہلکار شمال–مشرقی دہلی میں رہنے والے مسلم باشندوں کو نشانہ بناتے ہوئے پائے گئے، وہ سی اے اے مخالف مظاہروں کے خلاف اپنا غصہ نکال رہے تھے۔
Uncertain Justice – The Report by The Wire
اس حوالے سے رپورٹ میں پولیس کی بربریت سے متعلق اس واقعے کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں 5 مسلم نوجوانوں کو پولیس نے نشانہ بنایا اور جن میں سے ایک ‘فیضان’ کی موت ہوگئی تھی۔ اس واقعہ کا ویڈیو بھی وائرل ہوا تھا، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلم نوجوان زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور پولیس انہیں مار رہی ہے اور قومی ترانہ اور وندے ماترم گانے کے لیے کہہ رہی ہے۔ فیضان نے بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیا اور اس کی موت ہوگئی تھی۔
رپورٹ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء اور یونیورسٹی کے سی سی ٹی وی فوٹیج کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس کے متعصبانہ رویہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں سی اے اے مخالف مظاہرین اور ہندوتوا کارکنوں اور بی جے پی رہنماؤں کے خلاف پولیس کی کارروائیوں کے درمیان موازنہ بھی کیا گیا ہے کہ کس طرح پولیس نے دونوں فریقوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا۔
رپورٹ کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ایک طرف تو پولیس نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف ہر محاذ پر سخت رویہ اپنایا تو دوسری طرف سی اے اے کی حمایت میں حکمراں جماعت (بی جے پی) کے لیڈروں کی جانب سے تشدد کی وکالت کرنے والے مظاہروں اور حرکات پر کوئی مداخلت تک نہیں کی۔
رپورٹ میں پولیس کی تفتیش پر بھی سوالات اٹھائے گئے کہ یہ بی جے پی اور اس کے حامیوں کے حق میں پورے طور پر فرقہ وارانہ رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 700 معاملے درج کرنے کے باوجود بھی دہلی پولیس نے صرف چھ معاملات میں اکتوبر 2021 سے جنوری 2022 کے درمیان چارج شیٹ داخل کی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ کئی عوامل اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سی اے اے مخالف کارکنوں کے خلاف لگائے گئے بہت سے الزامات جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی معاملات میں عدالت نے پایا کہ ملزمین کے کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) کی لوکیشن جائے وقوعہ پر ملزم کی موجودگی سے متعلق استغاثہ کے دعووں میں تضاد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
کمیٹی نے یہ بھی پایا کہ ایف آئی آر 59 میں یو اے پی اے کا نفاذ نامناسب تھا، کیونکہ پولیس کوئی بھی ایسا ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی جس سے اس قانون کے استعمال کا جواز پیدا ہو۔ مزید برآں، کپل مشرا، پرویش ورما یا ہندوتوا لیڈروں جیسے یتی نرسنہانند سرسوتی، راگنی تیواری اور دیگر کی تحقیقات میں تفتیشی ایجنسیوں کی ناکامی،جنہوں نے اپنی تقریروں میں کھلم کھلا تشدد کوبھڑکایا، تحقیقات کی جانبدارانہ منشا کی کھلے طور پرتصدیق کرتی ہے۔
کمیٹی نے اپنی تحقیقات میں پایا کہ برادریوں کے درمیان تناؤ جان بوجھ کر پیدا کیا گیا تھا۔ کچھ نیوز چینلوں نے بی جے پی کی سوشل میڈیا مشینری کے ساتھ مل کر ہندو بنام مسلم کا ماحول بنا یا تھا۔
اس سلسلے میں رپورٹ میں مین اسٹریم کے ٹی وی چینلوں- زی نیوز، ری پبلک ٹی وی، انڈیا ٹی وی، آج تک–کا ذکر کیا گیا ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ ان ٹیلی ویژن چینلوں نے کپل مشرا، پرویش ورما اور ان جیسے دیگر بھگوا لیڈروں کی نفرت انگیز تقاریر کو مشتہر کیا۔ ان تقاریر میں ہندوؤں سے بار بار متحد ہونے کی اپیل کی گئی تھی۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)