سونیا گاندھی، شرد پوار، ممتا بنرجی سمیت اپوزیشن کے لیڈروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہم وزیر اعظم کی خاموشی سے حیران ہیں، جو ایسے لوگوں کے خلاف کچھ بھی بولنے میں ناکام رہے، جو اپنے قول و فعل سے نفرت پھیلا رہے ہیں اور سماج کو مشتعل کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس طرح کے نجی مسلح ہجوم کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔
سرد پوار، ہیمنت سورین، سونیا گاندھی، ممتا بنرجی اور ایم کے اسٹالن۔ (تصویر: پی ٹی آئی، کولاژ: دی وائر)
نئی دہلی: اپوزیشن کے 13رہنماؤں نے سنیچر کو ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت انگیز تقریر کے حالیہ واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور لوگوں سے امن وامان اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی۔ اپوزیشن لیڈروں نے ان مسائل پر وزیر اعظم نریندر مودی کی ’خاموشی‘ پر بھی سوال اٹھائے۔
ایک مشترکہ بیان میں حزب اختلاف کی 13 جماعتوں نے کہا ہے کہ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ حکومت سماج کو پولرائز کرنے کے لیے کھانے پینے، لباس، عقیدے، تہواروں اور زبان جیسےایشو کا استعمال کر رہی ہے۔
یہ بیان کانگریس صدر سونیا گاندھی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن اور جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین سمیت 13 رہنماؤں نے جاری کیا۔
مشترکہ بیان میں حزب اختلاف کے رہنماؤں نے کہا کہ ہم وزیر اعظم کی خاموشی پر حیران ہیں جو ایسے لوگوں کے خلاف کچھ بھی بولنے میں ناکام رہے، جو اپنے قول و فعل سے تعصب پھیلانے اور معاشرے کو مشتعل کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے پرائیویٹ مسلح ہجوم کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔
متحد ہوکر سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کے اپنے مشترکہ عزم کا اظہار کرتے ہوئےاپوزیشن رہنماؤں نے کہا، ہم اس زہریلے نظریے سے لڑنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں جو ہمارے سماج میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا،ہم تمام طبقات کےلوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہیں اوراستدعا کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے منصوبوں کو کامیاب نہ ہونے دیں جو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو اورگہرا کرنا چاہتے ہیں۔
مشترکہ اپیل کرتے ہوئےانہوں نے کہا، ہم ملک بھر میں اپنی تمام پارٹی اکائیوں سے امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے آزادانہ اور مشترکہ طور پر کام کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
غور طلب ہے کہ 10 اپریل کو رام نومی کے موقع پر ملک کے کچھ حصوں سے فرقہ وارانہ تشدد کی خبریں موصول ہوئی تھیں۔
اس بیان پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اور ڈی ایم کے کے صدر ایم کے اسٹالن، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری، جھارکھنڈ کے چیف منسٹر اور جے ایم ایم کے ورکنگ صدر ہیمنت سورین، نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، آر جے ڈی کے صدر تیجسوی یادو، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ، آل انڈیا فارورڈ بلاک کے جنرل سکریٹری دیوورت بسواس، ریولیوشنری سوشلسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری منوج بھٹاچاریہ، آئی یو ایم ایل کے جنرل سکریٹری پی کے کنہالی کٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم ایل) لبریشن جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ نے دستخط کیے ہیں۔
دوسری طرف، اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں پر لاشوں پر ‘گدھ کی سیاست’ کرنے کا الزام لگایا ہے اور کہا کہ وہ صرف سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
بی جے پی نے دیر رات اس سلسلے میں ایک بیان جاری کیا۔
بی جے پی ترجمان گورو بھاٹیہ نے وزیر اعظم مودی پر اپوزیشن کے حملے کا موازنہ آسمان پر کیچڑ اچھالنے سے کیا۔
بھاٹیہ نے راجستھان میں کرولی تشدد پر کانگریس صدر سونیا گاندھی سے سوال کیا اور الزام لگایا کہ ان کی پارٹی کی اپیزمنٹ کی سیاست کی وجہ سے فسادیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ راہل گاندھی فسادیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور حالات کو بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں۔
معلوم ہو کہ ہندوتوا تنظیم کی جانب سے 10 اپریل کو رام نومی کے موقع پر نکالے گئے جلوسوں کے دوران گجرات، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی خبریں موصول ہوئی تھیں۔
اس کے علاوہ 16 اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے ایسے ہی ایک جلوس کے دوران دارالحکومت دہلی کے
جہانگیر پوری علاقے میں تشدد بھڑک اٹھا۔ اس سلسلے میں اب تک 14 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)