سابق فنانس سکریٹری سبھاش چندر گرگ نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ معیشت کا جائزہ لینے کے لیےبلائی گئی ایک میٹنگ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی اپنا آپاکھو بیٹھےتھےاور پٹیل پر بھڑک گئے تھے، کیونکہ پٹیل آر بی آئی کے ریزرو کو استعمال کرنے کے خلاف تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور آر بی آئی کے سابق گورنر ارجت پٹیل۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سخت معاشی حالات کے علاوہ حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے درمیان کشیدگی کے بیچ معیشت کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے 14 ستمبر 2018 کو بلائی گئی میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اس وقت کے آر بی آئی کے گورنر ارجت پٹیل کے سامنے اپنا آپا کھو دیا تھااور ان کا موازنہ ‘پیسے کے ڈھیر پر بیٹھے سانپ’ سے کیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، سابق فنانس سکریٹری سبھاش چندر گرگ نے اس واقعے کے بارے میں اپنی کتاب ’وی آلسو میک پالیسی (ہم بھی پالیسی بناتے ہیں)‘ میں لکھا ہے۔
ہارپر کولنز کی شائع کردہ یہ کتاب اکتوبر میں ریلیز ہونے والی ہے۔
گرگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تقریباً دو گھنٹے پٹیل کو سننے اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور پرنسپل سکریٹری نریپیندر مشرا سمیت دیگر سرکاری افسران کے ساتھ پریزنٹیشن اور بات چیت کے بعد وزیر اعظم کو ‘کوئی حل نکلتا ہوا نظر نہیں آیا تھا’۔
وہاں موجود دیگر لوگوں میں اس وقت کے ریلوے کے وزیر پیوش گوئل، ایڈیشنل پرنسپل سکریٹری پی کے مشرا، ڈی ایف ایس سکریٹری راجیو کمار، گرگ اور آر بی آئی کے دو ڈپٹی گورنر (ورل آچاریہ اور این ایس وشواناتھن) شامل تھے۔
سابق فنانس سکریٹری نے کہا، ‘انہوں (پٹیل) نے کچھ سفارشات پیش کیں،سب حکومت کے لیے تھیں اور آر بی آئی کے کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔’
گرگ کے مطابق، ‘ان کی تشخیص سے ایسا لگتا تھا کہ آر بی آئی اس مسئلے میں سرفہرست نہیں ہے’اور وہ معاشی صورتحال کو حل کرنے اور حکومت کے ساتھ اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لیے کوئی بامعنی کام کرنے کو تیار نہیں تھے۔
گرگ نے کتاب کے ایک باب ‘ گورنر ارجت پٹیل کا استعفیٰ ‘، جس میں پٹیل کے استعفیٰ سے پہلے کے حالات کو بیان کیا گیا ہے، اور لکھا گیا ہے کہ ‘اس وقت وزیر اعظم اپنا آپا کھو بیٹھے تھے اور ارجت پٹیل پر برس پڑے تھے۔ میں نے انہیں پہلی بار اس قدر غصے میں دیکھا تھا۔ انہوں نے ارجت پٹیل کا موازنہ پیسوں کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے سانپ سے کیا تھا، کیونکہ پٹیل آر بی آئی کے جمع شدہ ریزرو کو کسی بھی کام میں لانے کے حق میں نہیں تھے۔’
گرگ نے اپنی کتاب میں کہا ہے، ‘انہوں نے کچھ گمبھیراور سخت باتیں کہیں۔ انہوں نے ایسے کئی موضوعات اٹھائے جہاں آر بی آئی کی ہٹ دھرمی ہندوستان کو نقصان پہنچا رہی تھی۔ انہوں نے بچا کر رکھے گئے سرپلس کا مسئلہ بھی اٹھایا… انہوں نےایک وزیراعظم کے طور پر ارجت پٹیل سے زور دے کر کہا کہ وہ بورڈ کی میٹنگ بلائیں اور ارون جیٹلی اور مالیاتی ٹیم کے ساتھ مشاورت سے مسائل کا حل تلاش کریں۔’
آر بی آئی اور حکومت کے درمیان متنازعہ مسائل میں سے ایک آر بی آئی کاسرپلس ٹرانسفر تھا۔
گرگ نے لکھا، ’10 اگست 2017 کو آر بی آئی بورڈ کی میٹنگ میں آر بی آئی بورڈ کے ممبر طور پر میں نے حصہ لیا تھا، جس میں مالی سال 2016-17 کے لیے آر بی آئی سر پلس کے 44200 کروڑ روپے میں سے 13400کروڑ روپے کوبرقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا’۔ آر بی آئی نے مطلع کیا تھا کہ سال 2016-17 کے لیےحکومت کو سرپلس کے طور پر تقریباً 30000 کروڑ روپے منتقل کرنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔ گرگ نے کہا کہ ان سےپچھلے سالوں کی طرز پر100 فیصد حکومت ہند کو منتقل کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
گرگ نے لکھا، ‘ارجت پٹیل کے تئیں حکومت کی مایوسی 12 فروری 2018 کو شروع ہوئی جب وہ بینکنگ سیکٹر کے نان پرفارمنگ لون (این پی اے) سے نمٹنے میں اور ان ڈیفالٹرز کوآئی بی سی (دیوالیہ اور دیوالیہ پن کوڈ) کے تحت حل کرنے کے لیےایک بہت سخت فارمولہ لے کر آئے تھے۔’
پٹیل نے بالآخر 10 دسمبر 2018 کو حکومت کے ساتھ پالیسی کے امور پراختلافات کی وجہ سےآر بی آئی گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
گرگ کے مطابق، ارجت پٹیل نے 14 ستمبر کو وزیر اعظم کی طرف سے بلائی گئی میٹنگ میں ایک پریزنٹیشن دیا تھا، جہاں ان کا جائزہ موجودہ معاشی صورتحال سے بھی زیادہ تشویشناک تھا اور اس نے ایک خوفناک تصویر پیش کی تھی۔
آر بی آئی کا 12 فروری کا سرکلر، جو عام طور پر غیر فعال قرضوں کے حل کی طرف ایک اچھا قدم تھا، نے پاور سیکٹر کی کمپنیوں کو دیے گئے قرضوں کے سلسلے میں بینکوں کے لیے بڑی مشکلات پیدا کر دی تھی۔ پاور سیکٹر کے ڈیولپرز کی ایک درخواست پر، الہ آباد ہائی کورٹ نے آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ7 کو لاگو کرنے کی ہدایت دی، جس میں حکومت کو گورنر کے ساتھ مشاورت کے بعد آر بی آئی گورنر کو ‘ہدایات’جاری کرنے کا اہتمام تھا۔
گرگ نے دعویٰ کیا،’آر بی آئی نے اس پر حکومت کے ساتھ کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آر بی آئی نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کابینہ سکریٹری کی صدارت میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی میٹنگوں میں بھی حصہ نہیں لیا۔’
قابل ذکر ہے کہ 14 مارچ 2018 کو پٹیل نے گاندھی نگر میں گجرات نیشنل لاء یونیورسٹی کے سینٹر فار لاء اینڈ اکنامکس میں ایک خطاب کے دوران قومی بینکوں پر ریگولیٹری اتھارٹی چھوڑنے میں حکومت کی نااہلی پر سوال اٹھایا، جس سے آر بی آئی کے پاس پرائیویٹ سیکٹر کے بینکوں کے مقابلے پبلک سیکٹر بینکوں (پی ایس بی) پر ناکافی ریگولیٹری اتھارٹی رہے۔
اسی طرح کے اور بھی معاشی مسائل پر پٹیل کا حکومت کے ساتھ تصادم رہا۔ ان میں الیکٹورل بانڈز کا مسئلہ بھی تھا۔
الیکٹورل بانڈز کے معاملے پر گرگ نے کہا کہ پٹیل نے ابتدائی طور پر اسکیم کی تجویز سے اتفاق کرنے کے بعدوزیر خزانہ ارون جیٹلی کو ایک خط لکھا تھا جس میں آر بی آئی کے علاوہ کسی بھی بینک کے ذریعے بانڈ جاری کرنے کےمعاملے پرسوالات اٹھائے گئے تھے۔
گرگ نے کہا کہ پٹیل نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ بانڈز کو ڈیجیٹل موڈ میں جاری کیا جانا چاہیے نہ کہ فزیکل موڈ میں۔