وزیر اعظم نریندر مودی کانگریس پر جھوٹا الزام لگا رہے ہیں کہ وہ الیکشن میں صنعتکار مکیش امبانی اور گوتم اڈانی کو ایشو نہیں بنا رہی، جبکہ اس دوران وہ خود ان سلگتے سوالوں کا جواب نہیں دے رہے ہیں جو ان دونوں صنعتکاروں کے ساتھ ان کی حکومت کے تعلقات کے حوالے سے اٹھائے جا تے رہے ہیں۔
نئی دہلی: بدھ (8 مئی) کو تلنگانہ کے کریم نگر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک نیا مسئلہ اٹھایا۔ پی ایم مودی نے کانگریس پر صنعتکار گوتم اڈانی اور مکیش امبانی سے ‘سودا’ کرنے کا الزام لگایا۔ گجرات سے آنے والے یہ دونوں صنعتکار مودی کے قریبی بتائے جاتے ہیں۔ اپوزیشن پی ایم مودی پر نہ صرف امبانی-اڈانی کو فائدہ پہنچانے بلکہ ‘ملک بیچ دینے‘ کا بھی الزام لگا چکی ہے۔
تلنگانہ کی ریلی میں مودی نے کہا، ‘پچھلے پانچ سالوں سے کانگریس کے شہزادے (راہل گاندھی کی جانب اشارہ) صبح اٹھتے ہی تسبیح پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔ جب سے ان کا رافیل کیس گراؤنڈیڈ ہوا، اس وقت سے انہوں نے ایک نیا ورد شروع کر دیا ہے۔ پانچ سال تک ایک ہی مالا جپتے تھے۔ پانچ صنعتکار، پانچ صنعتکار، پانچ صنعتکار۔ پھر آہستہ آہستہ کہنے لگے، امبانی-اڈانی، امبانی-اڈانی، امبانی-اڈانی۔ لیکن جب سے انتخابات کا اعلان ہوا ہے، انہوں نے امبانی-اڈانی کو گالی دینا بند کر دیا ہے۔ آج میں تلنگانہ کی سرزمین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ شہزادہ یہ اعلان کریں کہ اس نے انتخابات میں امبانی-اڈانی سے کتنا مال اٹھایا ہے۔ کالے دھن کے کتنے بورے بھرکر مارے ہیں؟ … کیا سودا ہوا ہے۔آپ نے راتوں رات امبانی اور اڈانی کو گالی دینا بند کر دیا۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ پانچ سال تک امبانی-اڈانی کو گالی دی اور راتوں رات گالیاں بند ہو گئیں۔ مطلب کوئی نہ کوئی چوری کا مال، یا ٹیمپو بھر بھر کر آپ نے پایا ہے۔ ملک کو جواب دینا پڑے گا۔’
مودی کا یہ بیان کہ کانگریس اور خصوصی طور پر راہل گاندھی نے انتخابات کے دوران امبانی اور اڈانی کے بارے میں بات کرنا بند کر دیا ہے، غلط ہے۔ 24 اپریل کو کانگریس کے صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا تھا، ‘اس ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے کہ دو بیچنے والے اور دو خریدار ہیں۔ بیچنے والے مودی اور شاہ ہیں اور خریدار امبانی اور اڈانی ہیں۔’
گزشتہ 12 اپریل کو کوئمبٹور میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا تھا، ‘نریندر مودی اور اڈانی کی پالیسیوں نے دو ہندوستان بنائے ہیں، ایک ہندوستان ارب پتیوں کا اور دوسرا غریبوں کا ہندوستان’۔ بھارت جوڑو نیایے یاترا کے دوران بھی انہوں نے دو ارب پتیوں اور ان کی بڑھتی ہوئی دولت کا مسئلہ کئی بار اٹھایا تھا۔
ان باتوں کے علاوہ مودی کچھ باتیں صحیح بھی کہہ رہے ہیں۔ امبانی-اڈانی کو لے کر ملک میں کئی خدشات ہیں۔ ملک کی اگلی حکومت کا انتخاب کرتے وقت رائے دہندگان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس سال کے شروع میں جاری ہوئے انڈیا ٹوڈے موڈ آف دی نیشن پول میں 52 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ معاشی پالیسیاں بڑے صنعتکاروں کی مدد کے لیے بنائی جا رہی ہیں۔
اگر پی ایم مودی ایسے مسائل کو اٹھانا چاہتے ہیں اور ان میں سے کچھ کا جواب دینا چاہتے ہیں، تو اس طرح کے مسائل کی فہرست یہ ہے؛
امبانی-اڈانی کی دولت میں اضافہ اور عام لوگوں کے بڑھتے ہوئے مسائل
امبانی اور اڈانی دونوں نے پچھلے 10 سالوں میں اپنی دولت میں نمایاں اضافہ دیکھا ہے۔ دونوں کی دولت میں کووڈ -19 وبائی مرض کے دوران بھی اضافہ ہوا ہے، جب معیشت بڑی حد تک ٹھپ تھی اور کروڑوں ہندوستانی پیسے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ امبانی اس وقت ایشیا کے امیر ترین شخص ہیں،ان کے بعد اڈانی ہیں۔ دونوں کا نام دنیا کے ٹاپ 15 امیر ترین افراد میں شامل ہے۔ دریں اثنا، ہندوستان کی معیشت کم گھریلو بچت ، گھٹتی مزدوری اور شدید بے روزگاری سے دوچار ہے ۔
اڈانی کی مبینہ ہیرا پھیری کی تحقیقات سست
پندرہ مہینے ہو گئے جب امریکی مالیاتی تحقیقی کمپنی ہنڈنبرگ ریسرچ نے اڈانی گروپ پر اسٹاک میں ہیرا پھیری اور آڈٹ فراڈ کا الزام لگاتے ہوئے اپنی رپورٹ جاری کی تھی۔ ہندوستان میں ایس ای بی آئی (سیبی )کو ان الزامات کی تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا۔ مودی حکومت اس معاملے کی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی سے تحقیقات کرانے کے اپوزیشن کے مطالبے سے متفق نہیں ہوئی۔ ہنڈنبرگ کے علاوہ کچھ صحافیوں نے بھی اڈانی گروپ کی مبینہ دھاندلی کے کئی معاملے اجاگر کیے ہیں۔پھر بھی گروپ کے خلاف اب تک بہت کم کارروائی کی گئی ہے، جبکہ سیبی نے بھی تصدیق کی ہے کہ بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔
مہوا موئترا کو پارلیامنٹ سے برخاستگی
ترنمول کانگریس لیڈر مہوا موئترا کو لوک سبھا سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ مودی حکومت نے موئترا کو ان سوالوں کی وجہ سے نشانہ بنایا جو وہ پارلیامنٹ میں اٹھا رہی تھیں – خصوصی طور پر اڈانی گروپ کے بارے میں ( اس کے بارے میں یہاں تفصیل سے پڑھیں )۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا مودی حکومت کے پاس ابھی تک جواب نہیں ہے۔
راہل گاندھی نے الزام لگایا ہے کہ پارلیامنٹ سے ان کی نااہلی (بعد میں انہیں بحال کر دیا گیا) اور ہتک عزت کے مقدمے میں ان کے خلاف کارروائی ان کی تقریروں میں اڈانی گروپ کا ذکر کرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
حکومتی تعصب کا الزام
مودی حکومت پر اڈانی اور امبانی کو فائدہ پہنچانے کا الزام ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے مودی حکومت نے متعدد ایسے فیصلے کیے ہیں جن کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد کارپوریٹ مفادات کو پورا کرنا تھا، جیسے کہ متنازعہ (اور اب منسوخ) زرعی قوانین، ہوائی اڈوں کی نجکاری، کان کنی کے ضوابط میں تبدیلی اور بہت کچھ۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔