پی ایم کسان یوجنا کے تحت کسانوں کو ایک سال میں 2000 روپے کی تین قسطوں کے ذریعے کل 6000 روپے دینے تھے۔ حالانکہ آر ٹی آئی کے تحت حاصل کی گئی جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً25 فیصد کسانوں کو ہی اس کا پورا فائدہ مل پایاہے۔
(علامتی فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مودی حکومت کی پی ایم کسان یوجنا کے نافذ ہونےکے پہلے سال کے دوران 10 میں تین سے بھی کم کسانوں کو یوجنا کی تینوں قسطیں ملی ہیں۔تقریباً75 فیصد کسانوں کو اس کا مکمل طورپر فائدہ نہیں ملا ہے۔
دی وائر کےذریعےآر ٹی آئی کے تحت حاصل جانکاری سے اس کا انکشاف ہوا ہے۔
پی ایم کسان یوجنا کے تحت کسانوں کو ایک سال میں2000 روپے کی تین قسطوں کے ذریعے کل 6000 روپے دینے تھے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ اس یوجنا کے نافذ ہونےکے پہلے سال (1 دسمبر 2018 سے 30 نومبر 2019 تک میں)کے دوران مودی حکومت صرف 41فیصد مختص کو خرچکر پائی ہے اور صرف تقریباً25 فیصد کسانوں کو ہی تینوں قسط ملی ہیں۔
دی وائر کے ذریعے آر ٹی آئی کے تحت حاصل جانکاری اور مرکزی وزارت زراعت کے ذریعے پارلیامنٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکلا ہے۔اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پی ایم کسان یوجنا کے نافذہونے کی رفتار سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے کافی دھیمی ہو گئی ہے۔
اس یوجنا کے تحت رجسٹرڈ نو کروڑ کسانوں میں سے آدھے سے زیادہ لوگوں کا رجسٹریشن پہلے فیز میں ہوا تھا، جو کہ لوک سبھا انتخاب سے پہلے ختم ہو گیا تھا۔اس کے بعد سے رجسٹریشن کی رفتار میں گراوٹ آئی ہے۔
75 فیصد کسانوں کو نہیں ملی تینوں قسط
دسمبر 2018 سے لےکر دسمبر 2019 کے درمیان صرف 3.85 کروڑ کسانوں کو2000 روپے کی تینوں قسط ملی ہیں۔ جب پی ایم کسان یوجنا کو لانچ کیا گیا تھا تو اس وقت حکومت نے اندازہ لگایا تھا کہ تقریباً14.5 کروڑ کسان اس سے مستفید ہوںگے اوران کو تین قسطوں میں6000 روپے دیے جائیںگے۔
حالانکہ آر ٹی آئی کے تحت حاصل نومبر 2019 تک کے اعداد و شمار سےیہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یوجنا نافذ ہونے کے پہلے سال کے دوران صرف 26.6 فیصدکسانوں کو ہی تینوں قسط ملی ہیں۔ یوجنا کا تیسرا فیز نومبر 2019 میں ختم ہوا تھا۔اس کی وجہ خراب نوکرشاہی یا کسانوں کی طرف سے مناسب دستاویزوں کی کمی سمیت مختلف وجوہات ہو سکتے ہیں۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے 44 فیصد کسانوں کو ایک سال میں اس یوجنا کے تحت دو قسط یعنی کہ 4000 روپے اور 52 فیصد کسانوں کو دسمبر2018 اور دسمبر 2019 کے درمیان صرف ایک قسط یعنی کہ 2000 روپے ملے ہیں۔وہیں تقریباً48 فیصد کسانوں کو پی ایم کسان یوجنا کے پہلے سال میں ایک بھی قسط نہیں ملی ہے۔
وزارت کے ذریعے دستیاب کرائے گئے اعداد و شمار کے مطابق 7.6 کروڑکسانوں کو ایک سال کی مدت میں 2000 روپے کی ایک قسط ملی۔ جیسا کہ حکومت نےاندازہ لگایا تھا کہ 14.5 کروڑ کسان اس یوجنا کے تحت مستفید ہوںگے، اس کا مطلب ہےکہ 6.8 کروڑ کسانوں کو اس کے نافذ ہونے کے پہلے سال میں پی ایم کسان یوجنا کے تحت ایک بھی قسط نہیں ملی ہے۔
اگر تمام 14.5 کروڑ کسانوں کو پہلے سال میں پی ایم کسان کا پورافائدہ ملا ہوتا، جیسا کہ حکومت نے تصور کیا تھا، تو یوجنا پر 87000 کروڑ روپےخرچ ہوتے۔ لیکن اصل خرچ صرف 41 فیصد رہا ہے، جو کہ نومبر 2019 کے آخر تک 36000کروڑ روپے تھے۔
انتخاب کے بعد یوجنا نافذ ہونے کی رفتار دھیمی ہوئی
لوک سبھا انتخاب میں رائے دہندگی شروع ہونے سے کچھ ہفتہ پہلے وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعے 24 فروری، 2019 کو پی ایم کسان یوجنا کی شروعات کی گئی تھی۔یہ یقینی بنانے کے لئے کہ رائے دہندگی شروع ہونے سے پہلے ادائیگی کی پہلی قسط کسانوں تک پہنچے، اس یوجنا کو اسی مقصد کے ساتھ نافذ کیا گیا اور پہلی قسط دسمبر 2018 سے مارچ 2019 کے درمیان کسانوں کے کھاتے میں بھیجی گئی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یوجنا کا پہلا فیز نافذ کرنے کے لئے حکومت کےپاس صرف پانچ ہفتے ہی تھے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اسی مدت میں زیادہ تر کسان پی ایم کسان یوجنا کے تحت رجسٹرڈ کئے گئے تھے۔عالم یہ ہے کہ انتخاب کے بعدکے آٹھ مہینوں میں جتنے کسان رجسٹرڈنہیں کئے گئے اس سے کہیں زیادہ کسان لوک سبھا انتخابات سے پہلے کے پانچ ہفتے میں رجسٹرڈ کئے گئے تھے۔
لوک سبھا انتخابات کو دیکھتے ہوئے وزارت زراعت نے اس تیزی سے کام کیا تھا کہ یوجنا کا تصور کرنے اور اس کے لئے اصول بنانے کے ساتھ-ساتھ 24 فروری سے31 مارچ 2019 کے درمیان 4.74 کروڑ کسانوں کو پی ایم کسان یوجنا کے تحت جوڑ لیاتھا۔
حالانکہ انتخاب کے بعد اس رفتار میں کافی دھیما پن آ گیا۔ پہلے فیزکے پانچ ہفتوں کے مقابلے میں یوجنا کے دوسرے فیز کے دوران حکومت کے پاس چار مہینےتھے۔ لیکن اس دوران صرف 3.08 کروڑ کسان جوڑے گئے۔ وہیں تیسرے فیز میں 1.19 کروڑکسان ہی رجسٹرڈ کئے جا سکے، جو کہ پہلے فیز کے 4.74 کروڑ کسانوں کے مقابلے اس کیصرف ایک چوتھائی ہے۔
اس طرح انتخاب کے بعدکے آٹھ مہینوں میں جتنے کسان رجسٹرڈ نہیں کئےگئے اس سے کہیں زیادہ کسان لوک سبھا انتخابات سے پہلے کے پانچ ہفتے میں رجسٹرڈ کئےگئے تھے۔حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ یوجنا کے نافذ ہونے کی دھیمی رفتار کی ایک وجہ آدھار تصدیق کی بوجھل اور اکثر غلطی سے پاک عمل ہے، جس کو انتخاب کے بعدیوجنا کے دوسرے فیز کی شروعات میں لازم کر دیا گیا تھا۔ آدھار لنکنگ کو انتخاب سےپہلے اختیاری رکھا گیا تھا۔
حالانکہ بعد میں اکتوبر مہینے میں ان شرطوں کو ہلکا کر دیا گیا اورنافذ کرنے کی تیسری مدت کے لئے آدھار لنکنگ کی ضرورت نہیں ہونے کی بات کہی گئی۔لیکن اس کے باوجود تیسری مدت میں کسانوں کا رجسٹریشن نہیں بڑھا اورآخر میں تیسری مدت میں صرف 1.19 کروڑ رجسٹرڈ ہوئے، جو کہ پہلے فیز کے پانچ ہفتوں میں جوڑے گئے کسانوں کے مقابلے صرف ایک چوتھائی ہے۔
وزارت زراعت کے ذریعے دھیمی ترقی کے لئے ایک اور وجہ یہ دی گئی ہےکہ ہو سکتا ہے کہ حکومت نے شروعات میں ملک میں کسانوں کی تعداد کا زیادہ اندازہ لگا لیا ہو۔ مردم شماری کے اعداد و شمار اور وزارت زراعت کی ‘ کسان ‘ کی تعریف کی بنیاد پر دی وائر کے پہلے کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں کسانوں کی تعدادحکومت کے اندازے کے مقابلے میں زیادہ ہو سکتی ہے۔
دھیمی ترقی کے لئے کچھ ریاستی حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نےمرکز کو ضروری اعداد و شمار مہیّا کرانے میں بہت خراب رویہ اپنایا ہے۔ مثال کےطورپر، مغربی بنگال نے آج تک ایک بھی کسان کی تفصیل نہیں دی ہے کیونکہ انہوں نے مرکزکی یوجنا میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔
اس لئے بھلےہی حکومت کے اندازہ کے مطابق مغربی بنگال میں 68 لاکھ کسان ہوں، لیکن ریاست سے ابھی تک ایک بھی کسان کو پی ایم کسان یوجنا کا فائدہ نہیں ملا ہے۔ جب تک ریاستی حکومتیں اعداد و شمار مہیّا نہیں کرائیںگے تب تک مرکز پیسےنہیں بھیج سکتی ہے۔
بی جے پی حکومت والی ریاست بھی اس کے لئے قصوروار ہیں۔ کسان رجسٹریشن میں پانچ کروڑ کی کمی میں سے تقریباً2.5 کروڑ کسان کرناٹک، اتر پردیش، بہار اورمہاراشٹر ریاستوں کے ہیں۔ اکیلا بہار ہی کسان رجسٹریشن میں 1.13 کروڑ کی کمی کےلئے ذمہ دار ہے۔ ریاست میں قیاسی 1.5 کروڑ کسانوں میں سے صرف 44 لاکھ رجسٹرڈ ہیں۔