سی اے اے مخالف مظاہرے کے سلسلے میں گرفتار جے این یواسٹوڈنٹ اور پنجرہ توڑ کارکن دیوانگنا کلیتا کی ایک عرضی پر پولیس کی جانب سےدائر حلف نامے کو لےکر دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ اس میں کئی الزام لگائے گئے ہیں، جو غیرذمہ دارانہ ، غیرمناسب اور عرضی کے دائرے سے پرے ہیں اور انہیں واپس لیا جانا چاہیے۔
نئی دہلی: پنجڑہ توڑ کی کارکن دیوانگنا کلیتا کی ایک عرضی پر دہلی پولیس کی جانب سے دائر کئے گئے حلف نامے کو لےکر دہلی ہائی کورٹ نے سخت پھٹکار لگائی ہے۔کورٹ نے کہا کہ پولیس کی جانب سے اس میں لگائے گئے کچھ الزام بالکل غیرمناسب ہیں۔عدالت نے کہا کہ ہمیں نہیں پتہ ہے کہ حلف نامے میں درج حقائق کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں۔ کچھ الزامات کو غیرذمہ دارانہ طریقے سے لگایا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق کلیتا(31)نےعرضی دائر کر کے مانگ کی ہے کہ پولیس کو ہدایت دی جائے کہ جب تک جانچ التوا میں ہے تب تک ان کے خلاف لگائے گئے الزامات/شواہد کو میڈیا میں لیک نہ کیا جائے۔
کلیتا کے خلاف کل چار ایف آئی آر دائر کیے گئے ہیں، جس میں سے ایک پچھلے سال دسمبر میں دریا گنج میں ایک مظاہرہ میں مبینہ طورپر شامل ہونے کو لےکر ہے اور باقی معاملے شمال مشرقی دہلی کے جعفرآباد میں شہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف مظاہرہ کے سلسلے میں ہیں۔
کلیتا کے علاوہ پنجرہ توڑ کی ایک اورممبر نتاشا نروال کو بھی پولیس نے 23 مارچ کو دہلی تشدد کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طالبات ہیں۔ کلیتا جے این یو کی سینٹر فار ویمن ا سٹڈیز کی ایم فل کی اسٹوڈنٹ ہیں جبکہ نروال سینٹر فار ہسٹوریکل اسٹڈیز کی پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ہیں۔ دونوں پنجرہ توڑ کی بانی ممبر ہیں۔
گزشتہ سات جولائی کو دائر کیےگئے اپنے جوابی حلف نامہ میں پولیس نے الزام لگایا تھا کہ خود کلیتا اور پنجڑہ توڑ نے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے اوراپنی حمایت میں رائے عامہ بنانے کے لیے ‘میڈیا ٹرائل’ شروع کر دیا تھا۔اس پر کورٹ نے کہا کہ پولیس اس بنیاد پر یہ نہیں کہہ سکتی ہے کہ چونکہ عرضی گزارمیڈیا ٹرائل کر رہی ہیں، اس لیے وہ ان کے بارے میں جانکاری عوامی کر رہے ہیں۔
جسٹس وبھو باکھرو نے کہا، ‘یہ پولیس کا رویہ نہیں ہو سکتا ہے۔ کچھ تحمل ہونا چاہیے اور انہیں(پولیس)عمل کرنا ہوگا۔’جسٹس باکھرو نے کہا کہ عرضی کے محدود دائرے کو دیکھتے ہوئے حلف نامے میں لگائے گئے الزام غیر مناسب ہیں۔عدالت نے کہا کہ حلف نامے میں کئی الزام لگائے گئے ہیں جو عرضی کے دائرے سے پرے ہیں۔ کورٹ نے اسے واپس لینے کا مشورہ دیا۔
بنچ نے کہا کہ اس معاملے میں وہ صرف اس بات کی جانچ کرنے والی ہیں کہ کسی معاملے کے بارے میں پولیس کن حالات میں اور کس طریقے سےریلیز یا پریس نوٹ جاری کر سکتی ہے۔عدالت نے کہا کہ وہ پولیس کو کسی بھی معاملے میں کوئی ریلیز جاری کرنے پر روک نہیں لگا رہی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اگر حلف نامہ ریکارڈ میں رہتا ہے، اور کوئی افسر الزامات کی ذمہ داری نہیں لیتا ہے تو وہ اس کے موادپر تبصرہ کرےگی۔کورٹ نے کہا، ‘ہمیں نہیں پتہ ہے کہ (حلف نامے میں)حقائق کی کوئی بنیاد ہے۔ کچھ الزامات کو غیرذمہ دارانہ طریقے سے لگایا گیا ہے۔’
جسٹس باکھرو نے کہا، ‘ہم اس حلف نامے کو ریکارڈ پر لینے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں جب تک کہ کوئی اس میں لکھی گئی باتوں کی 100 فیصدی ذمہ داری نہ لے لے۔ یہ کورٹ آف ریکارڈ ہے۔’پولیس کی جانب سے پیش ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل (اےایس جی)امن لیکھی نے کہا کہ حلف نامے میں دیے گئے بیان عرضی میں لگائے گئے اس الزام کے جواب میں ہیں کہ عرضی گزارجے این یو اسٹوڈنٹ دیوانگنا کلیتا کو جان بوجھ کر پریشان کیا جا رہا ہے۔
لیکھی نے کہا کہ وہ حلف نامے پر بھروسہ نہیں کریں گے اور قانون کے مطابق اپنی دلیلیں محدود رکھیں گے۔کلیتا کے وکیل ادت ای پجاری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ حلف نامہ مبینہ طورپر میڈیا میں شیئر کیا گیا ہے۔کورٹ نے کہا، ‘یہ بے مطلب کی کوشش ہے۔ یہ دستاویز فائل ہونے سے پہلے ہی کئی لوگوں کے پاس پہنچ گئے ہیں۔’
اپنی عرضی میں کلیتا نے دس جون کے ‘مختصر نوٹ’میں شامل سبھی الزمات کو واپس لینے کے لیے پولیس کو ہدایت دینے کی مانگ کی ہے۔عدالت نے 10 جون کو کلیتا کے خلاف الزامات اورشواہد کے بارے میں مبینہ طور پر جمع کیے گئے کسی بھی بیان کو جاری کرنے سے پولیس کو پہلے ہی روک دیا تھا۔
معاملے میں اگلی شنوائی 15 جولائی کو ہوگی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)