نقلی نوٹ، بلیک منی اور دہشت گردی پر قابو پانے کی بات کرتے ہوئے مودی حکومت نے 2016 میں نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا اور 2000 روپے کے نوٹ جاری کیے تھے۔ اب بی جے پی ایم پی سشیل کمار مودی نے راجیہ سبھا میں کہا ہے کہ لوگوں نے یہ نوٹ بڑے پیمانے پر جمع خوری کررکھی ہے۔ صرف غیر قانونی کاروبار میں ان کا استعمال ہو رہا ہے۔
نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک ممبر نے سوموار کو راجیہ سبھا میں دعویٰ کیا کہ 2000 روپے کے نوٹوں کا مجرمانہ سرگرمیوں اور غیر قانونی کاروبار میں بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہاہے ، اس لیے حکومت کو انہیں بتدریج بندکر دینا چاہیے۔
بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور بی جے پی ایم پی سشیل کمار مودی نے ایوان بالا میں وقفہ صفر کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا۔
انہوں نے کہا، ‘بازار میں گلابی رنگ کے 2000 روپے کے نوٹ کمیاب ہوگئے ہیں۔ اے ٹی ایم سے نہیں نکل رہا ہے اور افواہ ہے کہ یہ اب قانونی نہیں رہا۔
انہوں نے حکومت سے اس حوالے سے صورتحال کو واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔
واضح ہو کہ نقلی نوٹ، بلیک منی، بدعنوانی اور دہشت گردی پر قابو پانے کی بات کرتے ہوئےمرکز کی نریندر مودی حکومت نے 8 نومبر 2016 کو نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا۔ اس کے تحت 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو غیر قانونی قرار دے کر چلن سے باہر کر دیا گیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد حکومت نے ان کی جگہ 500 اور 2000 روپے کے نئے نوٹ جاری کیے تھے۔
سشیل کمار مودی نے دعویٰ کیا کہ 2016 میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو تیزی سے بدلنے کے لیے آر بی آئی کی جانب سے2000 روپے کے نوٹ پیش کے گئے تھے۔ کئی چیلنجز کی وجہ سے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے پچھلے تین سالوں سے 2000 روپے کے نوٹوں کی چھپائی بند کر دی ہے اور 2000 روپے کے جعلی نوٹ بھی بڑی تعداد میں ضبط کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2000 روپے کے نوٹوں کی جمع خوری اور کالا بازاری کے معاملے سامنے آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘لوگوں نے بڑے پیمانے پر 2000 روپے کے نوٹوں کی جمع خوری کر رکھی ہے۔ اس کا استعمال صرف غیر قانونی کاروبار میں ہو رہا ہے۔ کچھ جگہوں پر یہ بلیک میں بھی مل رہاہے اور پریمیم پر فروخت کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منشیات، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سمیت کئی جرائم میں ان نوٹوں کابڑے پیمانے پر استعمال ہوتاہے۔
سشیل کمار مودی نے کہا کہ دنیا کی تمام جدید معیشتوں میں بڑے نوٹوں کا چلن بند ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں زیادہ سے زیادہ 100 ڈالر ہیں اور وہاں بھی 1000 ڈالر کے نوٹ نہیں ہیں۔ چین میں زیادہ سے زیادہ 100 یوآن، کینیڈا میں 100 سی اے ڈی اور یورپی یونین میں 200 یورو ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک میں 5 ہزار روپے کے نوٹ ہیں، جبکہ انڈونیشیا میں ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ چلن میں ہیں۔
بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ سشیل مودی نے کہا، ‘یورپی یونین نے 2018 میں 500 یورو کے نوٹوں پر پابندی لگا دی تھی اور سنگاپور نے 2010 میں 10000 سنگاپور ڈالر کے نوٹ جاری کرنا بند کر دیے، تاکہ منشیات کی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، ٹیررفنڈنگ، ٹیکس چوری جیسی غیر قانونی سرگرمیوں کو روکاجا سکے۔
انہوں نے کہا، ‘ہندوستان میں اب 2000 کے نوٹوں کے چلن کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اب حکومت ڈیجیٹل لین دین کو بھی فروغ دے رہی ہے۔ اس لیے میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ 2000 روپے کے نوٹوں کو بتدریج ختم کیا جائے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت عوام کو ایک موقع دے، تاکہ وہ ایک یا دو سال میں 2000 کے نوٹوں کو دوسرے نوٹوں سے بدل سکیں۔
انہوں نے کہا، 2000 کا نیانوٹ بلیک منی یعنی کالا بازاری… اگر بلیک منی پر پابندی لگانی ہے تو 2000 کے نوٹ کو بند کرنا چاہیے۔
واضح ہو کہ اگست 2022 میں لوک سبھا میں حکومت کی طرف سے دیے گئے ایک تحریری جواب میں انکشاف کیا گیا تھا کہ نوٹ بندی کے باوجود ملک میں جعلی نوٹوں کا بازار پھل پھول رہا ہے۔
وزیر مملکت برائے خزانہ پنکج چودھری کی طرف سے لوک سبھا میں تحریری طور پر بتایا گیا تھاکہ 2016 سے 2020 کے درمیان 2000 روپے کے جعلی نوٹوں کی تعداد میں 107 گنا اضافہ ہوا ہے۔
پنکج چودھری نے بتایا تھاکہ 2016 میں 2000 روپے کے 2272 جعلی نوٹ پکڑے گئے تھے، جبکہ 2017 میں 74898، 2018 میں 54776، 2019 میں 90566 اور 2020 میں 244834 جعلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔
ان کے جواب کے مطابق 2018 کو چھوڑ دیں تو 2016 کے بعد سے یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ 2019 اور 2020 کے درمیان 2000 روپے کے جعلی نوٹوں کی تعداد میں 170 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب بینکنگ سسٹم میں نقلی نوٹوں کا پتہ لگانے کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
مارچ 2020 میں مرکز کی مودی حکومت کی جانب سے لوک سبھا میں کہا گیا تھا کہ حکومت کے پاس 2000 روپے کے نوٹ کو چلن سے واپس لینے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ کہا گیا تجاکہ اب بھی کئی اے ٹی ایم میں 2000 روپے کے کرنسی نوٹ دے رہے ہیں۔
نومبر 2019 میں، سابق فنانس سکریٹری سبھاش چندر گرگ نے کہا تھا کہ 2000 روپے کے نوٹوں کا ایک بڑا حصہ سرکولیشن میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ لوگ 2000 روپے کے نوٹوں جمع خوری کرنے میں لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ نوٹ زیادہ تعداد میں چلن میں نہیں ہے۔ لوگ اسے لین دین میں بہت کم استعمال کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ نوٹ بند ہو جائے تو کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔
آر بی آئی کے اعداد وشمار کے مطابق، مارچ 2017 کے آخر میں 2000 روپے کے 328.50 کروڑ نوٹ چلن میں تھے۔ایک سال بعد، 31 مارچ 2018 کواس تعداد میں صرف336.3 کروڑ نوٹ تک کا معمولی اضافہ ہوا تھا۔31 مارچ 2018 کو چلن میں کل کرنسی کی تعداد 18 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی تھی اور اس میں سے 2000 کے نوٹوں کا حصہ 37.3 فیصد ہی تھا۔ وہیں 31 مارچ 2017 کو یہ اعدادوشمار 50.2 فیصد تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)