
نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گرڈ کے مطابق، اس وقت سپریم کورٹ میں 69,553 دیوانی اور 18,864 فوجداری مقدمات زیر التوا ہیں۔ اگست 2025 میں دائر کیے گئے نئے مقدمات کی تعداد (7,080) نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد – 5667 سے زیادہ رہی۔

السٹریشن: دی وائر
نئی دہلی: سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ 88,417 تک پہنچ گئی ہے ۔ تاہم، عدالت کے پاس اس وقت اپنی مکمل منظور شدہ عدالتی طاقت ہے یعنی 34 جج کام کر رہے ہیں۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، نیشنل جوڈیشل ڈیٹا گرڈ (این جے ڈی جی) کے مطابق، اس وقت سپریم کورٹ میں 69,553 دیوانی اور 18,864 فوجداری مقدمات زیر التوا ہیں ۔ اگست 2025 میں، دائر نئے معاملوں کی تعداد – 7080 – نمٹائے گئے معاملوں کی تعداد – 5667 سے زیادہ رہی۔
معلوم ہو کہ چیف جسٹس (سی جے آئی) بی آر گوئی نے اس بار گرمیوں کی طویل تعطیلات کے دوران زیادہ بنچوں کو کام پر لگایا تھا، اس کے باوجود زیر التواء مقدمات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے اس سال 23 مئی سے 23 جولائی تک موسم گرما کی تعطیلات کا نام بھی ‘ پارشیل ورکنگ ڈے ‘ رکھ دیا تھا۔
اس دوران سی جے آئی اور عدالت کے پانچ سینئر ترین ججوں نے پہلی بنچوں میں بیٹھ کر مقدمات کی سماعت کی۔ تعطیلات کے دوران مجموعی طور پر 21 بنچوں نے مختلف بنچوں میں بیٹھ کر مقدمات کی سماعت کی۔
سال 2025 میں اب تک 52,630 نئے مقدمات درج کیے گئے ہیں، جبکہ 46,309 مقدمات کا تصفیہ کیا جا چکا ہے۔ یہ شرح تقریباً 88 فیصد ہے۔
اس سال اب تک دو چیف جسٹس عہدہ سنبھال چکے ہیں اور نومبر 2025 کے آخر میں جسٹس سوریہ کانت تیسرے چیف جسٹس کے طور پر حلف لیں گے۔
پچھلے سال بھی یہی صورتحال تھی۔ اس وقت 2024 میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 82 ہزار سے بڑھ گئی تھی جو اس وقت اپنی بلند ترین سطح پر تھی۔ اس کے ساتھ ہی سال 2021 میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 70,000 تک پہنچ گئی اور 2022 کے آخر تک یہ بڑھ کر 79,000 تک پہنچ گئی تھی۔
کووِڈ وبائی مرض کے بعد سے، خاص طور پر 2023 کے بعد، زیر التوا مقدمات کا ڈھیر لگاتار بڑھ رہا ہے۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے سی جے آئی رہتے ہوئے تیزی سے ججوں کی تقرری کروائی تھی۔ ان کے بعد جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس گوئی نے بھی اپنی کالجیم ٹیموں کے ساتھ حکومت کو نئے نام بھیجے۔
سابق چیف جسٹس اور کالجیم کی تجاویز نے کئی بار اس بڑھتے ہوئے بوجھ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ نومبر 2023 کی ایک تجویز میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ عدالت کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ ایک عہدہ بھی خالی رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔
حالیہ مہینوں میں حکومت نے سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے کالجیم کی سفارشات کو فوری طور پر منظور کیا ہے، بعض اوقات 48 گھنٹوں کے اندر۔ پھر بھی، بیک لاگ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔