ارندھتی را ئے کی خصوصی تحریر: پیگاسس جاسوسی، یہ جیب میں جاسوس لے کر چلنے سے کہیں آگے کی بات ہے

07:25 PM Aug 03, 2021 | ارن دھتی رائے

ٹکنالوجی کو واپس نہیں لیا جا سکتا۔لیکن اسے کھلے بازار میں بےقابو، قانونی صنعت کے طور پر کام کرنے کی اجازت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر قانون کی گرفت  ہونی چاہیے۔ تکنیک رہ سکتی ہے، لیکن صنعت کا رہنا ضروری نہیں ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ: Gordon Johnson/Pixabay/السٹریشن: د ی وائر)

ہندوستان میں اموات کااندوہناک  کا موسم بڑی سرعت  سے جاسوسی کے موسم میں بدلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

کورونا وائرس کی دوسری لہر ماند پڑ گئی ہے، اور چھوڑ گئی ہے تقریباً 40 لاکھ ہندوستانیوں کی موت۔ا موات کا سرکاری اعدادوشمار اس کا دسواں حصہ ہے؛ چار لاکھ۔ نریندر مودی کے خیالی ملک میں، جب شمشان گھاٹوں پر دھواں صاف ہونے لگا اور قبرستانوں کی مٹی جمنے لگی، تب ہماری سڑکوں پر ‘تھینک یو مودی جی’کہتے ہوئے بڑے بڑے ہورڈنگ نمودار ہوئے۔ (یہ اس ‘مفت ویکسین’کے لیے لوگوں کی جانب  سے پیشگی شکریہ  ہے، جواکثر تو دستیاب نہیں ہے، اور جسے آبادی کے 95فیصدکو ابھی لگنا باقی ہے۔)

جہاں تک مودی سرکار کی بات ہے، اموات کے صحیح اعدادوشمار کی گنتی کرنے کی کوئی بھی کوشش ہندوستان  کے خلاف ایک سازش ہے گویا جو لاکھوں  لوگ مرے وہ صرف اداکارتھے جو ایک بدنیتی کے ساتھ کام کر رہے تھے، جو ان تنگ، اجتماعی  قبروں میں لیٹے جنہیں آپ نے آسمان سے لی گئی تصویروں میں دیکھا، یا جنہوں نے لاشوں کا بھیس بدل  کر خود کو ندیوں میں بہایا، یا جنہوں نے شہروں کے فٹ پاتھوں پر اپنی  لاش کو نذر آتش کیا۔ وہ سب ہندوستان کی بین الاقوامی  شرمندگی کی اکلوتی  خواہش کے ساتھ کام کر رہے تھے۔

حکومت ہند اور اس کی پالتو میڈیا نے اب یہی الزام ان صحافیوں  کے اس بین الاقوامی کنسورٹیم کے خلاف لگایا ہے، جس کے تحت 17صحافتی اداروں  کے صحافیوں  نے فاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر عالمی  جاسوسی اور نگرانی کی ایک غیرمعمولی  خبر کواجاگر کیا۔

ان خبروں میں ہندوستان  اُن ممالک میں شامل ہے جن کی سرکاروں نے ظاہری  طور پر اسرائیلی نگرانی کمپنی این ایس او گروپ کے ذریعےتیار کیے گئے پیگاسس اسپائی ویئر(جاسوسی کرنے والا ایک سافٹ ویئر)خریدا ہے۔ اپنی طرف سے این ایس او نے کہا ہے کہ یہ اپنی تکنیک صرف انہی سرکاروں کو فروخت کرتی ہے جن کی انسانی حقوق کی تاریخ  بےداغ ہو اور جو وعدہ کرتی ہیں کہ وہ  صرف قومی سلامتی کے مقصد سے دہشت گردوں  اورمجرموں  کا سراغ لگانے کے لیے اس کا استعمال  کریں گی۔

این ایس او کے ہیومن رائٹس  ٹیسٹ میں بےداغ نکلنے والے دوسرے کچھ ممالک میں روانڈا، سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور میکسکو شامل ہیں۔ تو ‘دہشت گردوں ’اور ‘مجرموں ’کی تعریف  ٹھیک ٹھیک کن لوگوں نے بنائی ہے؟ کیا یہ بس این ایس او اور اس کے کلائنٹ کی مرضی پر منحصر ہے؟

اسپائی ویئر کی موٹی قیمت کے علاوہ، جو ایک ایک فون کے لیے لاکھوں ڈالر تک ہوتی ہے، این ایس او پروگرام کی مجموعی  قیمت کا 17فیصدسالانہ سسٹم مینٹیننس فیس کی شکل میں وصول کرتی ہے۔ ایک غیرملکی  کارپوریٹ کمپنی ایک ایسا جاسوسی نیٹ ورک مہیا کرا رہی ہے اور اسے چلاتی ہے جو ایک ملک کی سرکار کی طرف سے اس ملک  کے شہریوں  کی نگرانی کر رہی ہے، اس میں کچھ تو بے حد غداری والی بات ہے۔

صحافیوں  کی ایک ٹیم نے 50000 فون نمبروں کی لیک ہوئی فہرست کی چھان بین کی۔اس تجزیےسے پتہ لگا کہ ان میں سے 1000 سےزیادہ نمبر ہندوستان میں این ایس او کے ایک کلائنٹ کے ذریعےمنتخب کیے گئے تھے۔ وہ ان نمبروں کو ہیک کرنے میں کامیاب رہے تھے یا نہیں،یا ان کو ہیک کرنے کی کوشش ہوئی تھی یا نہیں، یہ بات صرف تبھی پتہ لگائی جا سکتی ہے جب ان فون کو فارنسک جانچ کے لیے جمع کیا جائے۔

ہندوستان میں جن نمبروں کی جانچ کی گئی ان میں سے کئی کو پیگاسس اسپائی ویئر سے متاثر پایا گیا۔ لیک ہوئی فہرست میں اپوزیشن  پارٹی کے سیاستدانوں، تنقیدکرنے والے صحافیوں، کارکنوں، وکیلوں، دانشوروں، کاروباریوں ،ہندوستان  کے الیکشن کمیشن کے ایک نافرمان افسر، بات نہ ماننے والے ایک سینئر خفیہ افسر، کابینہ وزیر اور ان کےاہل خانہ  غیرملکی ڈپلومیٹ اور یہاں تک کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے فون نمبر بھی شامل ہیں۔

ہندوستانی سرکار کے ترجمان  نے فہرست کو فرضی قرارر دیا ہے۔ ہندوستانی سیاست پر قریب سےنظر رکھنے والے واقف ہیں کہ ایک ماہر اور باشعور فکشن نویس  بھی ان لوگوں کی ایسی مربوط اور قابل اعتماد فہرست تیار کرنے سے قاصر ہیں ، جن میں مقتدرہ  پارٹی کی دلچسپی ہے یا وہ جنہیں اپنے سیاسی منصوبے کی مخالف سمجھتی ہے۔

یہ فہرست خوشگوارنکات، کہانیوں کے اندر کہانیوں (بین السطور)سے بھری ہوئی ہے۔ کچھ ایسے نام اس میں شامل ہیں جن کی توقع  نہیں تھی۔ کئی نام  جن کا اندیشہ تھا، وہ  اس میں شامل نہیں ہیں۔

ہمیں بتایا گیا ہے کہ پیگاسس کو بس ایک مسڈ کال کے ذریعے ٹارگیٹ کیے گئے فون میں انسٹال کیا جا سکتا ہے۔ ذرا سوچیے۔ مسڈ کال کی ایک میزائل سے فائر کیےگئےغیرمرئی اسپائی ویئر کا گولا بارود۔ براعظموں کوپار کرنے والی ایک بیلسٹک مسائل  (آئی سی بی ایم) جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ جو جمہوریتوں  کو تباہ کرنے میں اور معاشروں کو توڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جس کو کسی لال فیتہ شاہی کا سامنا نہیں کرنا ہے نہ وارنٹ، نہ ہتھیاروں کے سمجھوتے، نہ چوکسی کرنے والی کمیٹیاں، نہ ہی کسی طرح  کا قانون۔ بےشک، تکنیک کا اپنا کوئی اصول نہیں ہوتا۔ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔

ظاہری طور پراین ایس اواورہندوستان کے بیچ دوستانہ لین دین 2017 سے شروع ہوا، جب ہندوستانی  میڈیا کی زبان  میں مودی-نیتن یاہو کا ‘برومانس’چلا تھا – جب انہوں نے اپنے پتلونوں کے پائنچے موڑکر دور سمندری ساحل پر قدم ملائے۔ اپنے پیچھے انہوں نے جو چھوڑا وہ ریت پر ان کے قدموں کا نقش  بھر نہیں تھا۔ یہی وہ وقت  تھا جس کے آس پاس اس فہرست میں ہندوستان  کے فون نمبر دکھائی دینے لگے۔

اسی سال ہندوستان  کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کا بجٹ دس گنا بڑھ گیا۔ زیادہ تر بڑھی ہوئی رقم سائبر سیکیورٹی پر خرچ ہونی تھی۔

وزیر اعظم  کےطور پر اپنی دوسری بار فتح حاصل کرنے کے بعد جلد ہی اگست 2019 میں ہندوستان کے سخت انسداد دہشت گردی قانون یواے اپی اے کی توسیع کرکے،جس کی وجہ سےپہلے سے ہی ہزاروں لوگ بغیر  ضمانت کے جیلوں میں بند ہیں، اب صرف اداروں  کو ہی نہیں،افراد کو بھی اس کے دائرے میں لے آیا گیا۔

آخرکار اداروں کا کوئی اسمارٹ فون نہیں ہوتا یہ ایک اہم  نکتہ ہے، چاہے نظریاتی ہی ہو۔ لیکن یقینی طور پر اس نے پھندے کاگھیرا بڑھا دیا۔ اور بازار بھی۔

پارلیامنٹ میں اس ترمیم پر ہونے والی بحث کے دوران وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا، ‘سر، بندوق دہشت گردی  نہیں بڑھاتے،دہشت گردی  کی جڑ وہ پروپیگنڈہ  ہے جو اس کو پھیلانے کے لیے کی جاتی ہے…اور اگر ایسے تمام افراد کو دہشت گرد  کے طور پرنشان زد کیا جاتا ہے، تو میں نہیں سوچتا کہ پارلیامنٹ کے کسی ممبر کو اس پر اعتراض  ہونا چاہیے۔’

پیگاسس اسکینڈل نےپارلیامنٹ کے مانسون سیشن میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔اپوزیشن نے وزیر داخلہ  کے استعفیٰ  کا مطالبہ  کیا ہے۔ اپنی  سفاک اکثریت سےمطمئن مودی کی مقتدرہ پارٹی نے ریلوے اور کمیونی کیشن اور انفارمیشن  ٹکنالوجی  کے وزیر کے طور پر نئے نئےحلف  لینے والےاشونی ویشنو کوپارلیامنٹ میں سرکار کا دفاع کرنے کے لیے اتارا۔لیکن بدقسمتی دیکھیے، لیک ہوئی فہرست میں ان کا نمبر بھی تھا۔

اگر آپ سرکار کے متعدد بیانات کی الجھی ہوئی اورپیچیدہ باتوں کو پرے کر دیں، تو آپ پائیں گے کہ پیگاسس خریدنے اور اس کا استعمال کرنے سے براہ راست انکار نہیں کیا گیا ہے۔ این ایس او نے بھی فروخت کرنے کی بات سے انکار نہیں کیا ہے۔ اسرائیل سرکار نے اسپائی ویئر کے غلط استعمال  کے الزامات کی ایک جانچ شروع کی ہے، فرانسیسی سرکار نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔

ہندوستان  میں پیسے کے لین دین کا پتہ لگائیں گے تو آج نہ کل پختہ شواہد تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن وہ  پختہ ثبوت ہمیں کہاں پہنچائیں گے؟

اس کے بارے میں سوچیے:16سماجی  کارکن، وکیل، مزدور یونین کے کارکن، پروفیسر اوردانشور، جن میں سے کئی دلت ہیں، برسوں سے جیل میں بند ہیں۔ اس معاملے کو اب بھیماکورےگاؤں/ایلگار پریشد کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بےحد عجیب و غریب ڈھنگ سے ان پر الزام  لگایا گیا ہے کہ انہوں نےتشدد کی ایک سازش کی ، جو 1 جنوری 2018 کو دلتوں اوربااثر کمیونٹی کے بیچ ہوا تھا۔ اس دن ہزاروں کی تعداد میں دلت بھیماکورےگاؤں  کی لڑائی(جس میں دلت فوجیوں نے برٹشوں کے ساتھ مل کر ایک مطلق العنان  برہمن راج پیشواؤں کو ہرا دیا تھا)کی 200ویں سالگرہ منانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔

ایلگار پریشد معاملے کے 16ملزمین میں سے آٹھ اور کچھ کے قریبی لوگوں  و رشتہ داروں  کے فون نمبر اس لیک ہوئی فہرست میں ملے ہیں۔ ان میں سے سبھی ہیک ہوئے تھے یا نہیں، یا ہیک کی کوشش کی گئی تھی یا نہیں، اس بات کا پختہ طور پر پتہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ ان کے فون پولیس کے قبضے میں ہیں اور فارنسک جانچ کے لیے دستیاب نہیں ہو سکے۔

بھیما کورےگاؤں  اور ایلگار پریشد معاملے میں گرفتار کارکن۔ (فوٹو: دی وائر)

ادھر کچھ برسوں میں کچھ دانشور اس حد تک ‘برے’مانے جانے لگے ہیں کہ مودی سرکار انہیں دشمن سمجھنے لگی ہے اور انہیں پھنسانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے اور یہ محض سرولانس سے کہیں زیادہ ہے۔

دی واشنگٹن پوسٹ نے حال میں میساچوسٹس کی ایک ڈیجیٹل فارنسک کمپنی آرسینل کنسلٹنگ کی ایک رپورٹ کے نتیجے شائع کیے،جس نے ایلگار پریشد معاملے کے دوملزمین رونا ولسن اور سریندر گاڈلنگ کے کمپیوٹروں کی الکٹرانک کاپیوں کی جانچ کی ہے۔

جانچ کرنے والوں  نے پایا کہ ان کے دونوں کمپیوٹرمیں ایک نامعلوم  ہیکر نے دراندازی کی تھی، اور ان کی ہارڈ ڈرائیو میں ہڈین(چھپے ہوئے)فولڈر بناکر انہیں پھنسانے والے دستاویز رکھ دیےگئے۔ اس کو  سنسنی خیزبنانے کے لیے ایک مضحکہ خیز خط نریندر مودی کےقتل کی سازش کے بارے میں تھا۔

آرسینل رپورٹ کےسنگین نتائج  سے ہندوستانی عدلیہ یاملک  کی مین اسٹریم  میڈیا میں انصاف کے مقصد سے کوئی ہنگامہ نہیں ہے۔ ہوا اس کا الٹا ہی ہے۔ جس وقت اس کی لیپا پوتی کی سخت کوششیں ہو رہی تھیں اور وہ رپورٹ کےممکنہ نقصانات کومحدود کرنے میں لگے تھے، اسی معاملے کے ملزمین میں سے ایک، 84 سال کے ایک پادری فادر اسٹین سوامی کی جیل میں کورونا وائرس سے متاثرہونے کے بعد تکلیف دہ  موت ہوئی۔

اس شخص نےجھارکھنڈ میں جنگل میں رہنے والے ان آدی واسی لوگوں کے بیچ کام کرتے ہوئے اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال گزارے تھے، جو اپنی سرزمین پر کارپوریٹ کمپنیوں کے قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اپنی گرفتاری کے وقت سوامی پارکنسنز اور کینسر سے جوجھ رہے تھے۔

تو ہم پیگاسس کو کیسے سمجھیں؟ حقیقت سے آنکھیں موندتے ہوئے اس کو خارج کر دیں، کہہ دیں کہ حکمراں اپنے عوام  کی نگرانی کے لیے جو صدیوں پرانا کھیل کھیلتے آئے ہیں، یہ اس کا محض ایک نیا تکنیکی ہتھکنڈہ ہے؟

ایسا کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ یہ کوئی معمولی خفیہ نگرانی نہیں ہے۔ ہمارے موبائل فون ہمارے داخلی  وجود میں شامل ہیں۔ وہ ہمارے ذہن اور ہمارے جسم  کی توسیع  ہیں۔ ہندوستان  میں موبائل فون کی غیر قانونی نگرانی نئی بات نہیں ہے۔

ہرایک کشمیری کو یہ پتہ ہے۔ زیادہ تر ہندوستانی کارکن بھی یہ جانتے ہیں۔ لیکن ہمارے لیے سرکاروں اور کارپوریٹ کمپنیوں کو اس بات کا قانونی اختیار دے دینا کہ وہ ہمارے فون میں دراندازی کریں اور اس پر قبضہ کر لیں، ایسا ہی ہوگا گویاہم اپنے وقار کو مجروح کرنے کے لیے اپنے آپ  کو ان کے حوالے کر دیں۔

پیگاسس پروجیکٹ سے منکشف ہونے والی باتیں دکھاتی ہیں کہ اس اسپائی ویئر کا ممکنہ خطرہ  پرانی کسی بھی قسم کی جاسوسی یا نگرانی سے کہیں زیادہ  مہلک  ہے۔ یہ گوگل، امیزون اور فیس بک کے ایلگورتھم سے بھی زیادہ  خطرناک ہے، جن کے تانے بانے کے اندر کروڑوں لوگ اپنی زندگیاں جی رہے ہیں اور اپنی چاہتوں سے کھیل رہے ہیں۔

یہ اپنی جیب میں ایک جاسوس لیے پھرنے سے بھی بڑی بات ہے۔ یہ گویا ایسا ہے کہ آپ کا سب سے محبوب یا اس سے بھی بدتر، آپ کا اپنا دماغ، اپنے مشکل زاویوں  تک میں آپ کی جاسوسی کر رہا ہو۔پیگاسس جیسےاسپائی ویئر نہ صرف ہرایک متاثرہ  فون کے صارف کو، بلکہ اس کے دوستوں، اہل خانہ ،شریک کار کے پورے دائرے کو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی خطرے میں ڈالتا ہے۔

عوام  کی بڑے پیمانے پر نگرانی کے بارے میں سب سے زیادہ اور گہرائی سے شاید ایڈورڈ اسنوڈین نے سوچا ہے، جو ریاست ہائے متحدہ کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق تجزیہ کار اورناقد ہیں۔

گارڈین کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے وارننگ دی:‘اگر آپ اس تکنیک کی فروخت  کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتے ہیں، تو یہ صرف 50000 ٹارگیٹس تک محدود نہیں رہےگی۔یہ 5 کروڑ ہو جائےگی، اور یہ ہمارےخدشات  سے کہیں زیادہ  جلدی ہونے والا ہے۔’ہمیں ان کو سننا چاہیے۔ وہ اس کے اندر تھے اور انہوں نے اس کو آتے ہوئے دیکھا ہے۔

ایڈورڈا سنوڈین۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

اسنوڈین سے میں تقریباً سات سال پہلے دسمبر 2014 میں ماسکو میں ملی تھی۔انہیں با غی ہوئے تقریباً ڈیڑھ سال ہوئے تھے، اور ان میں اپنی سرکار کے ذریعےاپنے ہی شہریوں  کی بے تحاشہ اور بڑے پیمانے پر نگرانی سے نفرت تھی۔

مئی 2013 میں وہ بال بال بچ نکلے تھے، اور ایک مفرور زندگی کے عادی ہونے لگے تھے۔ڈینیل ایلس برگ (پینٹاگن پیپرز والے)، جان کیوزیک (جان کیوزیک والے)اور میں ان سے ملنے کے لیے ماسکو گئے تھے۔ تین دنوں تک ہم کھڑکیوں پر دبش دیتی روس کی برفیلی سردی کے بیچ اپنے ہوٹل کے کمرے میں مقید تھے اور نگرانی اور جاسوسی پر باتیں کرتے رہے تھے۔ یہ کس حد تک جائےگا؟ یہ ہمیں کہاں لے جائےگا؟ ہم کیا بن جا ئیں گے؟

جب پیگاسس پروجیکٹ کی خبریں آنے لگیں تو میں واپس اپنی ریکارڈ کی گئی بات چیت کے ٹرانسکرپٹ پڑھنے لگی۔ یہ کچھ سو صفحات  میں ہے۔ آخر میں میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ تب اپنی عمر کے محض 30 ویں دہائی میں رہے اسنوڈین ناصح  کی طرح بول رہے تھے: ‘تکنیک واپس نہیں لی جا سکتی ہے، تکنیک تو بنی رہےگی…یہ سستی ہونے والی ہے، یہ زیادہ کارگرہونے والی ہے، یہ اور زیادہ دستیاب  ہونے والی ہے۔ اگر ہم کچھ نہیں کرتے، تو ایک طرح سے ہم سوتے سوتے ایک مکمل نگرانی والے اسٹیٹ میں پہنچ جا ئیں گے جہاں ایک سپر اسٹیٹ ہوگا جس کے پاس طاقت کا استعمال کرنے کی بے پناہ صلاحیت  ہوگی اور جاننے اور [اس لیے] اس [طاقت کو]نشانے پر لگانے کی بے پناہ قوت  ہوگی – اور یہ ایک بہت خطرناک آمیزش ہے… مستقبل  کی یہ سمت ہے۔’

دوسرےلفظوں  میں، ہم ایک ایسی سمت میں بڑھ رہے ہیں جہاں ہم پر ایسی سرکاروں کی حکمرانی  ہوگی جہاں  ہر وہ بات جانتی ہے، جو لوگوں کے بارے میں جانی جا سکتی ہے، لیکن ان سرکاروں کے بارے میں عوام بہت کم جانتی ہے۔ یہ عدم توازن  صرف ایک ہی سمت میں لے جا سکتا ہے۔ ایک ناقابل تسخیر مہلک  حکمرانی۔ اور جمہوریت کاخاتمہ۔

اسنوڈین صحیح ہیں۔ تکنیک کو واپس نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن اس کوبے قابو، قانونی صنعت کی شکل میں کام کرنے کی اجازت دینے کی ضرورت نہیں ہے، جو کھلے بازار کے ہلچل بھرے براعظموں  میں پھلے پھولے، اور منافع کمائے۔ اس پر قانونی گرفت  کی شدیدضرورت ہے۔ اس کو قابو میں کرنا ہے۔ تکنیک رہ سکتی ہے، لیکن صنعت کے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔

تو ہم آج کہاں ہیں؟ میں کہوں گی، اسی جانی پہچانی، پرانی سیاست کی دنیا میں۔اس خطرے کو صرف سیاسی  کارروائی ہی روک سکتی ہے، اس کا نقصان کم کر سکتی ہے۔کیونکہ یہ تکنیک، جب بھی یہ استعمال  میں لائی جاتی ہے، (چاہے قانونی یا غیر قانونی طریقے سے)، وہ ہمیشہ ایک پیچیدہ  شیطانی دائرے میں بنی رہےگی جو آج ہمارے وقت کی پہچان ہے:قوم پرستی،سرمایہ داری، سامراج، نوآبادیات، نسل پرستی، ذات پات،جنس پرستی ۔ چاہے یہ تکنیک کیسے بھی فروغ پاتی ہے – یہ ہماری لڑائی کا میدان بنی رہےگی۔

ہمیں اپنا بسیرا اٹھاکر ایک ایسی دنیا میں واپس جانا ہوگا جہاں ہم اپنے سب سے قریبی  دشمن اپنے موبائل فون کے قبضے میں، اس کے ماتحت نہیں جی رہے ہوں گے۔ ہمیں ڈیجیٹل نگرانی کی دم گھونٹ دینے والی حکومت کے باہر اپنی زندگیوں، جدوجہد اورسماجی تحریکوں  کو پھر سے تشکیل دیناہوگا۔

ہمیں ان نظاموں  کواقتدار سے بےدخل کرنا ہوگا جو ہمارے خلاف اس کی تعیناتی کر رہی ہیں۔ اقتدار پر ان کی گرفت کو ڈھیلی کرنے کے لیے، انہوں نے جو کچھ توڑا اسے جوڑ نے کے لیے، اور انہوں نے جو کچھ چرا لیا ہے اسے واپس لینے کے لیے، ہم جو بھی کر سکتے ہیں وہ ہمیں کرنا ہوگا۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے)