
مراٹھواڑہ علاقے کے سمبھاجی نگر میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے مقبرے کو ہٹانے کے ہندوتوا گروپوں کے مطالبے کے بعد پورے مہاراشٹر میں فرقہ وارانہ کشیدگی ہے۔ سوموار کو وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی طرف سے ہوئے احتجاج کے دوران ‘کلمہ’ لکھے کپڑے کو جلانے کی افواہ کے بعد ناگپور کے کچھ حصوں میں تشدد پھوٹ پڑا۔

ناگپور میں سوموار 17 مارچ، 2025 کو وی ایچ پی-بجرنگ دل کے ‘احتجاج’ کے بعد ہوئی جھڑپوں کے بعد کارروائی کرتی پولیس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
ممبئی: مراٹھواڑہ علاقہ کے سمبھاجی نگر میں مغل بادشاہ اورنگزیب کی قبر کو ہٹانے کے ہندوتوا گروپوں کےمطالبے نے پورے مہاراشٹر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو جنم دے دیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے مقدس سمجھے جانے والے رمضان کے مہینے میں کی گئی فرقہ وارانہ اپیل کے نتیجے میں سوموار (18 مارچ) کو تقریباً 500 کلومیٹر دور ودربھ کے علاقے میں ناگپور کے کچھ حصوں میں تشدد پھوٹ پڑا۔
متاثرہ علاقوں میں سے ایک علاقہ محل ہے، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ہیڈکوارٹر واقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، ناگپور میں کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب ریاست بھر میں غیر مصدقہ خبریں پھیل گئیں، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ انتہا پسند ہندوتوا گروپوں وشوہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل کی جانب سے منعقد احتجاج کے دوران ہندوتوا شرپسندوں نے مقدس ‘کلمہ’ لکھے کپڑے کو جلایا ہے۔
ناگپور کے مختلف علاقوں جیسے چٹنیس پارک، کوتوالی، گنیش پیٹھ اور محل علاقے میں تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ تشدد کا پہلا دور شام 7.30 بجے اور دوسرا دور 10.30 بجے کے قریب شروع ہوا۔
اس دوران متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی، دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔ ناگپور کے پولیس کمشنر رویندر سنگھل نے سوموار کی رات دیر گئے ایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ پتھر بازی کے واقعے میں کم از کم چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ آر ایس ایس ہیڈکوارٹر ہونے کے علاوہ ناگپور مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڈنویس کا آبائی شہر بھی ہے۔
فڈنویس نے پتھراؤ کے واقعہ کو ‘نامناسب’ قرار دیتے ہوئے ناگپور کے باشندوں سے’امن و امان برقرار رکھنے’ کی اپیل کی۔ تشدد کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ ‘میں نے پولیس کمشنر کو تشدد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔’

ناگپور میں سوموار 17 مارچ 2025 کو وی ایچ پی-بجرنگ دل کے احتجاج کے بعد چٹنیس پارک علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے پولیس نے مشتعل بھیڑ کو منتشر کیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
گزشتہ چند ہفتوں سے ملک بھر میں حالات کشیدہ ہیں، خاص طور پر مہاراشٹر میں، جہاں ہندوتوا گروپ سمبھاجی نگر کے خلد آباد تعلقہ میں مغل بادشاہ اورنگ زیب کے مقبرے کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، یہ مطالبات نئے نہیں ہیں اور ہر سال شیواجی جینتی یا رمضان کے دوران ایک متنازعہ مسئلہ بن جاتا ہے، جس سے دونوں برادریوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔
سنگھل نے کہا کہ ناگپور میں ایک ‘فوٹو گراف’ کو آگ لگانے کے بعد تشدد پھوٹ پڑا۔ انہوں نے کہا، ‘اس واقعہ میں معاملہ درج کر لیا گیا ہے۔’ سنگھل نے یہ بھی کہا کہ ناگپور کے کئی علاقوں میں امتناعی احکامات (انڈین سول سکیورٹی کوڈ کی دفعہ 163 کے تحت) نافذ کیے گئے ہیں۔
کئی عینی شاہدین کے مطابق، ماسک پہنے ہوئے ‘نامعلوم افراد’ ہنسپوری علاقے میں داخل ہوئے، جو آر ایس ایس ہیڈکوارٹر سے صرف ایک کلومیٹر دور ہے۔
ایک عینی شاہد نے دی وائر کو بتایا، ‘وہ ہتھیاروں، ہاکی اسٹکس اور کانچ کی بوتلوں سے لیس تھے۔ ان کاارادہ ہنگامہ برپا کرنا تھا۔’ عینی شاہدین نے بتایا کہ فسادیوں نے ہنگامہ آرائی کی اور جلد ہی جمع ہجوم میں منتشر ہو گئے۔
ناگپور کے کچھ حصوں میں کرفیو نافذ
ناگپور کے پولیس کمشنر رویندر سنگھل نے کہا کہ ناگپور کے کئی علاقوں میں امتناعی احکامات (انڈین سول سیکورٹی کوڈ کی دفعہ 163 کے تحت) نافذ کر دیے گئے ہیں۔ پولیس نے کہا کہ یہ پابندیاں اگلے نوٹس تک برقرار رہیں گی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، کوتوالی، گنیش پیٹ، تحصیل، لکڑ گنج، پچپاولی، شانتی نگر، سکردرہ، نندن ون، امام واڑہ، یشودھرا نگر اور کپل نگر تھانے حلقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ آرڈر میں لوگوں کو میڈیکل ایمرجنسی کے علاوہ گھروں سے نکلنے سے منع کیا گیا ہے۔
حکم نامے میں پانچ سے زائد افراد کے جمع ہونے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے اور افواہیں پھیلانے پر بھی پابندی ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 223 (سرکاری ملازم کے ذریعہ جاری کردہ حکم کی نافرمانی) کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
کرفیو آرڈر میں پولیس اہلکاروں، سرکاری اہلکاروں، ضروری خدمات فراہم کرنے والے، فائر اسٹاف اور امتحانات میں شرکت کرنے والے طلباء کو چھوٹ دی گئی ہے۔ پولیس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ صورتحال پرکڑی نگرانی رکھی جا رہی ہے اور حالات معمول پر لانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔