صحافیوں کی جاسوسی کی پریس اداروں نے مذمت کی، کہا-سرکار کو خود کو بے گناہ ثابت کرنا چاہیے

پریس کلب آف انڈیا،ممبئی پریس کلب اور انڈین ویمن پریس کارپس نے صحافیوں، رہنماؤں اور دوسرے افراد کی جاسوسی کیے جانے کی مذمت کی ہے۔ دی وائر سمیت 16 میڈیا اداروں کے ذریعے کی گئی تفتیش دکھاتی ہے کہ اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئرکےذریعےآزادصحافیوں،کالم نگاروں،علاقائی میڈیا کےساتھ ہندوستان ٹائمس، دی ہندو، انڈین ایکسپریس، دی وائر، نیوز 18، انڈیا ٹو ڈے، دی پاینیر جیسےقومی میڈیا اداروں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

پریس کلب آف انڈیا،ممبئی پریس کلب اور انڈین ویمن پریس کارپس نے صحافیوں، رہنماؤں اور دوسرے افراد کی جاسوسی کیے جانے کی مذمت کی ہے۔ دی وائر سمیت 16 میڈیا اداروں  کے ذریعے کی گئی تفتیش  دکھاتی ہے کہ اسرائیل کے این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئرکےذریعےآزادصحافیوں،کالم نگاروں،علاقائی  میڈیا کےساتھ ہندوستان ٹائمس، دی  ہندو، انڈین ایکسپریس، دی وائر، نیوز 18، انڈیا ٹو ڈے، دی  پاینیر جیسےقومی میڈیا اداروں  کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: ویب پورٹل دی وائر اورکئی دیگرعالمی میڈیااداروں  کی پیگاسس پروجیکٹ کے تحت کی گئی تفتیش میں کئی وزیروں ، صحافیوں، افسروں  اور دیگر کے فون کی سرولانس اور ممکنہ ہیکنگ کی کئی میڈیا اداروں  نے مذمت  کی ہے۔

پریس کلب آف انڈیا نے اسے غیرمتوقع بتاتے ہوئے کہا ہے کہ پہلی بار ملک میں جمہوریت کے چاروں ستونوں کی جاسوسی کی گئی ہے۔

پریس کلب نے کہا، ‘یہ اس ملک  کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ہماری  جمہوریت کے تمام ستونوں عدلیہ ، ارکان پارلیامان، میڈیا، اہلکاروں  اور وزیروں  کی جاسوسی کی گئی۔یہ غیرمتوقع ہے اور پریس کلب اس کی شدید مذمت  کرتا ہے۔ یہ جاسوسی خفیہ مقاصد کے لیے کی گئی ہے۔’

دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ لیک کیا ہوا ڈیٹا دکھاتا ہے کہ ہندوستان  میں اس ممکنہ  ہیکنگ کے نشانے پر بڑے میڈیا اداروں  کے صحافی جیسے ہندوستان ٹائمس کے مدیرششر گپتا سمیت انڈیا ٹو ڈے، نیٹ ورک 18، دی  ہندو اور انڈین ایکسپریس کے کئی نام شامل ہیں۔

ان میں دی وائر کے دو بانی مدیران سمیت تین صحافیوں، دوریگولر کالم نگاروں  کے نام ہیں۔ ان میں سے ایک روہنی سنگھ ہیں، جنہیں وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کے کاروبار اور وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی کاروباری نکھل مرچنٹ کو لےکر رپورٹس لکھنے کے بعد اور بااثرمرکزی وزیر پیوش گوئل کے بزنس میں اجئے پرامل کے ساتھ ہوئے سودوں کی تفتیش کے دوران نشانے پر لیا گیا تھا۔

پریس کلب نے مرکزی حکومت  سے اس انکشاف پر وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا، ‘پریشان کرنے والی بات یہ ہے کہ ایک غیرملکی  ایجنسی، جس کا ملک کےقومی مفادسے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اپنے شہریوں  کی جاسوسی کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ عدم اعتماد پیدا کرتا ہے اورانتشار کودعوت دینا ہے۔ سرکار کو اس مورچے پر خود کو ثابت کرنا چاہیے اوروضاحت دینی چاہیے۔ #پیگاسس پروجیکٹ۔’

ممبئی پریس کلب نے اس معاملے میں آزادانہ  جانچ کی مانگ کی ہے۔

ممبئی پریس کلب نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ہم 40 ہندوستانی صحافیوں اور دیگر کے فون کی جاسوسی کرنے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ حالانکہ سرکار نے جاسوسی کے ان الزامات کی نہ ہی تصدیق کی ہے اور نہ ہی اس سے انکار کیا ہے۔ پیگاسس اسپائی ویئر صرف سرکاروں کو ہی بیچا جاتا ہے۔ اس پورے معاملے کی آزادانہ  جانچ ہونی چاہیے۔’

پیگاسس پروجیکٹ کے ذریعےمرکزی حکومت کو بھیجے گئے سوالوں پر مکمل ردعمل کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

ممبئی پریس کلب کے ٹوئٹ کے بعد سے سابق آئی ٹی وزیرروی شنکر پرساد اوروزیر داخلہ  امت شاہ نے ان رپورٹس کو جاری کرنے کے وقت  پرتوجہ مبذول  کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ذریعے سرکاری کام کاج میں خصوصی طور پرتاخیرکرنے کی کوشش  کی جا رہی ہیں۔

وہیں انڈین ویمن پریس کارپس نے کہا، ‘کسی بھی حالت  میں میڈیا کی آزادی سے سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس بات  کی مذمت  کی گئی کہ ہندوستان  میں صحافیوں کو صرف اپنا کام کرنے کے لیے اس طرح کی نگرانی سے گزرنا پڑتا ہے۔’

بیان میں کہاگیا، ‘یہ شرمناک  ہے کہ ہندوستان  جیسےجمہوری ملک  میں صحافیوں کو اپنے کام کے دوران کچھ اس طرح کے حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ آزاد صحافت آئین  کےحقوق  کو بنائے رکھنے کے لیے سب سےاہم ذرائع  میں سے ایک ہے۔’

اس بات کا انکشاف ہونے کے بعد کہ اس لیک ہوئی فہرست میں 40 صحافیوں کے نام ہیں، جن کی یا تو جاسوسی ہوئی ہے یا انہیں ممکنہ  ٹارگیٹ کے طور پرہدف بنایاگیا ہے۔دی وائر نے سوموار کو اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی، ترنمول کانگریس کے رہنما ابھیشیک بنرجی جیسے اپوزیشن  اور انتخابی حکمت عملی کار پرشانت کشور کے نام بھی اس فہرست  میں شامل تھے۔

اس نگرانی فہرست میں دہلی یونیورسٹی کے سابق  پروفیسر سید عبدالرحمٰن گیلانی، سی جے آئی رنجن گگوئی پر جنسی ہراسانی کا الزام  کا الزام  لگانے والی خاتون ، مودی سرکار کے دو وزیر اشونی ویشنو اور پرہلاد پٹیل، سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا، انتخابی اصلاحات پر کام کرنے والےادارےایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رفارمز(اےڈی آر)کے بانی جگدیپ چھوکر وغیرہ  بھی شامل ہیں۔

مغربی بنگال اسمبلی انتخاب کے بیچ میں انتخابی حکمت عملی کار پرشانت کشور کے فون کو اسرائیل واقع این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہیک کیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکیورٹی لیب کے ذریعےکرائے ڈیجیٹل فارنسکس سے یہ انکشاف ہوا ہے۔

دی وائر اور 16 میڈیاپارٹنرس  کی ایک تفتیش  کے مطابق، اسرائیل کی ایک سرولانس تکنیکی کمپنی کے کئی سرکاروں کے کلائنٹس کی دلچسپی والے ایسے لوگوں کےہزاروں ٹیلی فون نمبروں کی لیک ہوئی ایک فہرست میں 300 مصدقہ  ہندوستانی  نمبر ہیں، جنہیں وزیروں،اپوزیشن رہنماؤں،صحافیوں، عدلیہ  سے جڑے لوگوں، کاروباریوں، سرکاری افسروں ، کارکنوں وغیرہ  کے ذریعےاستعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اس پروجیکٹ کے حصہ کے طور پر ان نمبروں سے جڑے فون کے ایک چھوٹے سے حصےپر کی گئی فارنسک جانچ دکھاتی ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے37 فون کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن میں سے 10ہندوستانی  ہیں۔ فون کا تکنیکی تجزیہ  کیے بنا فیصلہ کن طورپر یہ بتانا ممکن نہیں ہے کہ اس پر صرف حملے کی کوشش ہوئی یا کامیابی کے ساتھ اس سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔

دنیا بھر میں پیگاسس کو فروخت کرنے والی اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ اس کے کلائنٹ‘سرکاروں’ تک محدود ہیں۔ حالانکہ یہ اپنے کلائنٹ کی پہچان کرنے سے انکار کرتا ہے، لیکن اس کا اس ہفتے دہرایا گیا یہ دعویٰ، اس امکان کو خارج کر دیتا ہے کہ ہندوستان میں یا بیرون ملک کوئی نجی ادارہ اس دراندازی  کے لیے ذمہ دار ہو سکتا ہے، جس کی تصدیق دی وائر اور اس کے پارٹنرس نے کی ہے۔

پیگاسس پروجیکٹ کے تحت دی وائر کی کوریج کو یہاں کلک کر کےپڑھا جا سکتا ہے۔