کانگریس کےسینئر رہنما پی چدمبرم نے کہا کہ یہ معاملہ قومی سلامتی کے مدعوں کو بھی اٹھاتا ہے،کیونکہ اگر سرکار کہتی ہے کہ اس نے نگرانی نہیں کی تو سوال اٹھتا ہے کہ جاسوسی کس نے کی۔
پی چدمبرم(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: کانگریس کے سینئررہنما پی چدمبرم نے اتوار کو کہا کہ سرکار کو یا تو پیگاسس جاسوسی کے الزامات کی جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی کے ذریعے جانچ کرانی چاہیےیا سپریم کورٹ سے معاملے کی جانچ کے لیے کسی موجودہ جج کی تقرری کی گزارش کرنی چاہیے انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اس معاملے کو پارلیامنٹ میں واضح کرنا چاہیے کہ لوگوں کی نگرانی ہوئی یا نہیں۔
سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ کوئی اس حد تک کہہ سکتا ہے کہ 2019 کے پورے انتخابی مینڈیٹ کو ‘غیرقانونی جاسوسی’سے متاثر کیا گیا لیکن، انہوں نے کہا کہ اس سے بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کو جیت حاصل کرنے میں مدد ملی ہو سکتی ہے جس کو لےکرالزام لگے تھے۔
چدمبرم نے خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی(جے پی سی)کے ذریعےجانچ انفارمیشن ٹکنالوجی پر پارلیامانی کمیٹی کی جانچ سے زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جےپی سی کو پارلیامنٹ کی طرف سےزیادہ اختیارات ملتے ہیں۔
پارلیامنٹ کی انفارمیشن ٹکنالوجی کی کمیٹی کے سربراہ ششی تھرور کے اس تبصرہ کہ یہ معاملہ‘میری کمیٹی کے ماتحت ہے’اور جےپی سی کی ضرورت نہیں ہے، کے بارے میں پوچھے جانے پر چدمبرم نےشبہ کا اظہار کیا کہ کیا بی جے پی کی اکثریت والی آئی ٹی کمیٹی معاملے کی پوری جانچ ہونے دےگی۔
انہوں نے کہا، ‘پارلیامانی کمیٹی کے ضابطےزیادہ سخت ہیں مثال کے طورپر وہ کھلے طور پر ثبوت نہیں لے سکتے ہیں لیکن ایک جےپی سی کو پارلیامنٹ کی طرف سے عوامی طور پرشواہد لینے،گواہوں سے پوچھ تاچھ کرنے اور دستاویزوں کو طلب کرنے کا حق دیا جا سکتا ہے اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ایک جےپی سی کے پاس پارلیامانی کمیٹی کے مقابلےکہیں زیادہ اختیارات حاصل ہوں گے۔’
اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ معاملے کی جانچ کی حد کو لےکرپارلیامانی کمیٹی کے رول کو کمتر نہیں بتا رہے ہیں۔
غورطلب ہے کہ دی وائر اور 16 میڈیا پارٹنرس کی
ایک تفتیش کے مطابق، اسرائیل کی سرولانس تکنیکی کمپنی این ایس او کے کئی سرکاروں کے کلائنٹ کی دلچسپی والے ایسے لوگوں کے ہزاروں ٹیلی فون نمبروں کی لیک ہوئی ایک فہرست میں وزیروں ،اپوزیشن کے رہنماؤں،صحافیوں ، عدلیہ سے جڑے لوگوں، کاروباریوں، سرکاری عہدیداروں اور کارکن وغیرہ شامل ہیں۔
چدمبرم نے کہا کہ سرکار یا تو پیگاسس جاسوسی کے الزامات کی جانچ جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی سے کرائے یا سپریم کورٹ سے معاملے کی جانچ کے لیے کسی موجودہ جج کی تقرری کی گزارش کرے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اس معاملے کو پارلیامنٹ میں صاف کرنا چاہیے کہ لوگوں کی نگرانی ہوئی یا نہیں۔
خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، جاسوسی کے الزامات پر سرکار کے ردعمل پر چدمبرم نے پارلیامنٹ میں آئی ٹی کے وزیر اشونی ویشنو کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ واضح طور پر ایک بہت ہی چتر منتری(چالاک وزیر)ہیں اور اس لیے بیان کو بہت چالاکی سے دیاہے۔
کانگریس رہنما نے کہا، ‘وہ(ویشنو)اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ کوئی غیرقانونی نگرانی تھی۔’سرکار پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے پوچھا کہ کیا بالکل بھی نگرانی نہیں ہوئی تھی اور کیا پیگاسس کے ذریعے جاسوسی کی گئی تھی۔
انہوں نے پوچھا، ‘اگر پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا تھا تو اسے کس نے حاصل کیا؟ کیا اسے سرکار یا اس کی کسی ایجنسی کے ذریعےمجاز بنایا گیا تھا۔’راجیہ سبھا ممبر نے سرکار سے اسپائی ویئرحاصل کرنے کے لیےادا کی گئی رقم پر صفائی دینے کو بھی کہا۔
چدمبرم نے کہا، ‘یہ آسان ، سیدھے سوال ہیں جو ہر شہری پوچھ رہا ہے اور وزیرکو سیدھے اس کا جواب دینا چاہیے۔ آخرکار، فرانس نے جانچ کا حکم دیا ہے، جب یہ پتہ چلا کہ صدر کا نمبر ہیک کیے گئے نمبروں میں سے ایک تھا۔ اسرائیل خود اپنی قومی سلامتی کونسل کے ذریعےجانچ کے حکم دیے ہیں۔’
انہوں نے پوچھا، اگر دو بڑے ملک جانچ کاحکم دے سکتے ہیں توہندوستان جانچ کاحکم کیوں نہ دے اور چار آسان سوالوں کے جواب ڈھونڈے۔چدمبرم نے کہا کہ یہ معاملہ قومی سلامتی کے مدعوں کو بھی اٹھاتا ہے، کیونکہ اگر سرکار کہتی ہے کہ اس نے نگرانی نہیں کی تو سوال اٹھتا ہے کہ جاسوسی کس نے کی۔
انہوں نے کہا، ‘کیایہ ہندوستان میں ایک کرپٹ ایجنسی تھی جو سرکار کی جانکاری کے بنا نگرانی کر رہی تھی یا یہ ایک غیرملکی ایجنسی تھی جو سرکار کی جانکاری کے بنا ہندوستانی ٹیلی فون ہیک کر رہی تھی۔ کسی بھی طرح سے…یہ نگرانی کرنے والی سرکار کے مقابلےزیادہ سنگین معاملہ ہے۔’
اپوزیشن کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں جانچ کی مانگ کے بارے میں پوچھے جانے پر اور کیاعدالت کو اس پر از خود نوٹس لینا چاہیے، چدمبرم نے کہا کہ وہ اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیں گے کہ عدالت کیا کر سکتی ہے یا کیا نہیں، لیکن انہوں نے بتایا کہ اس معاملے میں جانچ کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘جیسا بھی ہو، سرکار کو یا تو پارلیامنٹ سے جے پی سی کاقیام کرنے کی گزارش کرنی چاہیے یا سرکار کو عدالت سے ایک جج کو جانچ کرنے کے لیے الگ کرنے کی گزارش کرنی چاہیے۔’
وزیر داخلہ امت شاہ کے اس دعوے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ الزامات کا مقصد عالمی سطح پر ہندوستان کو بدنام کرنا ہے، چدمبرم نے کہا کہ وزیر داخلہ نے اپنے لفظوں کو بہت احتیاط سے چنا اور اس بات سے انکار نہیں کیا کہ نگرانی نہیں ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘وہ (شاہ)اس بات سے انکار نہیں کرتے ہیں کہ ہندوستان میں پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کرکے کچھ ٹیلی فون ہیک کیے گئے تھے۔ اس لیےدراصل وزیر داخلہ نے جو کہا، اس کے بجائے جو انہوں نے نہیں کہا، وہ زیادہ اہم ہے۔’
چدمبرم نے کہا کہ اگر وزیر داخلہ واضح طور پر اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ اسپائی ویئر کے ذریعے ہندوستانی ٹیلی فون میں گھس پیٹھ کی گئی تھی تو ظاہر ہے کہ انہیں اپنی نگرانی میں ہو رہے اس گھوٹالے کی ذمہ داری لینی چاہیے۔
اس مدعے پر پارلیامنٹ میں تعطل اور اپوزیشن پارٹیوں کی اپیل کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ کیا پی ایم کو پیگاسس مدعے پر بیان دینا چاہیے، انہوں نے کہا کہ مودی کو پارلیامنٹ کے مانسون سیشن کے پہلے دن ہی بیان دینا چاہیے تھا جب الزام سامنے آئے۔
انہوں نے کہا، ‘صرف کچھ ایجنسیاں ہیں جو یہ نگرانی کر سکتی تھیں۔ سبھی ایجنسیاںوزیر اعظم کے اختیارات میں ہیں۔’
چدمبرم نے کہا،‘ہر وزیرصرف وہی جانتا ہے جو اس کےمحکمہ کے ماتحت ہوتا ہے۔ پی ایم جانتا ہے کہ سبھی محکموں کے تحت کیا ہو رہا ہے۔ اس لیے وزیر اعظم آگے آکر کہیں کہ نگرانی تھی یا نہیں اور اگر نگرانی تھی تو کیا یہ قانونی تھا یا نہیں۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)