ممکنہ سرولانس کے نشانے پر تھے دنیا بھر کے چودہ رہنما

پیگاسس پروجیکٹ: این ایس او گروپ کے کلائنٹ-ممالک کے ذریعے استعمال کیے گئے فون نمبروں کا لیک ڈیٹا بتاتا ہے کہ کم از کم ایک شاہی خاندان کے سربراہ اور موجودہ وقت کے تین صدر اور تین وزرائے اعظم کو پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہونے والی ممکنہ ہیکنگ کے لیے چنا گیا تھا۔

پیگاسس پروجیکٹ: این ایس او گروپ کے کلائنٹ-ممالک  کے ذریعے استعمال کیے گئے فون نمبروں کا لیک ڈیٹا بتاتا ہے کہ کم از کم ایک شاہی خاندان کے سربراہ اور موجودہ وقت کے تین صدر اور  تین وزرائے اعظم  کو پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہونے والی ممکنہ ہیکنگ کے لیے چنا گیا تھا۔

(بائیں سے) برہم صالح، سرل رامافوسا، ایمانویل میکخواں ، عمران خان۔ (السٹریشن: دی وائر)

(بائیں سے) برہم صالح، سرل رامافوسا، ایمانویل میکخواں ، عمران خان۔ (السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی:این ایس او گروپ کے کلائنٹ-ممالک کے ذریعےاستعمال کیے گئے پچاس ہزار فون نمبروں کا لیک ڈیٹابیس بتاتا ہے کہ فرانسیسی صدرایمانویل میکخواں، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور جنوبی افریقہ کے صدر سرل رامافوسا سمیت کم ازکم 14 ممالک یا سرکاروں کےسربراہان مملکت کو پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہیکنگ کے ممکنہ نشانے کے طور پر چنا گیا تھا۔

پیگاسس بنانے والااین ایس او گروپ، جو دنیا کے تقریباً 36ممالک کو اپناکلائنٹ  بتاتا ہے، کا کہنا ہے کہ اس ڈیٹابیس کا کمپنی،اسپائی ویئر یا کمپنی کے کلائنٹس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

حالانکہ فرانس کی میڈیا نان پرافٹ فاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذریعے حاصل کیے گئے ان فون نمبروں کے چھوٹے سے حصہ کا پیگاسس پروجیکٹ کےتحت کام کر رہے دی وائر اور کئی بین الاقوامی  میڈیااداروں کے  ذریعےفارنسک ٹیسٹ  کروایا گیا تھا، جس میں37 فون میں اس مہلک  اسپائی ویئر کے نشان ملے ہیں۔

پیگاسس پروجیکٹ کی جانب سے بھیجی گئی فہرست  کے جواب میں گزشتہ منگل کی  شام کو بھیجے گئے ایک نئے بیان میں کمپنی نے کہا، ‘ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ آپ کی پوچھ تاچھ میں شامل کم از کم تین نام ایمانویل میکخواں، کنگ محمدششم اورڈبلیو ایچ اوکے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈنوم گیبریس کمپنی کے کلائنٹ کے ٹارگیٹ یا چنے ہوئے نشانوں میں نہ ہیں، نہ کبھی رہے ہیں۔’

اب تک دی  وائر اور اس کے میڈیا پارٹنروں نے بتایا ہے کہ کس طرح پیگاسس اسپائی ویئر کی مدد سےہندوستان  اور دیگر جگہوں پر صحافیوں  کے علاوہ قتل کر دیے گئے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی  بیوی  سے لےکر ہندوستانی اپوزیشن رہنما اور روانڈا کے مخالفین  کو جاسوسی کے لیے نشانہ بنایا گیا۔

حالانکہ اب اس فہرست میں سامنے آئے نئے نام دکھاتے ہیں کہ دنیا کے اعلیٰ ترین سیاسی عہدیداروں کئی ممالک  کی نامعلوم  سرکاری ایجنسیوں کی دلچسپی کے دائرے میں رہے ہیں۔

جیسا کہ پیگاسس پروجیکٹ کی شروعات میں بتایا گیا تھا، دی وائر ان نمبروں کی پہچان کا انکشاف نہیں کرےگا جو دہشت گردی  کے مقابلے یا ملکوں کی جاسوسی سے جڑے معلوم  ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے پارٹنرس کے ساتھ دی وائر کئی ممالک  کے موجودہ  اور سابق سربراہوں  کی ممکنہ جاسوسی کی کوششوں کے بارے میں بتا رہا ہے۔

لیک ڈیٹابیس میں کم از کم ایک بادشاہ- مراکش کے کنگ محمدششم، موجودہ وقت میں کام  کر رہے تین صدر فرانس کےایمانویل میکخواں، عراق کے برہم صالح اورجنوبی افریقہ کے سرل رامافوسا اور تین وزرائےاعظم پاکستان کے عمران خان، مصر کے مصطفی مڈبولی اورمراکش  کے سعد الدین عثمانی کے فون نمبر شامل ہیں۔

ان کے علاوہ سات ایسےسابق رہنما ہیں، جن کا انتخاب تب کیا گیا تھا جب وہ  عہدے پر تھے۔ ان میں لبنان کے سعد حریری، یوگانڈا کے روہکانہ رگونڈا، الجیریا کے نوریدائن بیدو اور بیلجیئم کے چارلس مشیل شامل ہیں۔

پیگاسس ایک ایڈوانسڈاسپائی ویئر ہے، جو ملٹری گریڈ ٹکنالوجی سے لیس ہے، اور اگر اسے کسی اسمارٹ فون میں ڈال دیا جائے تو یہ اس فون کے فون، مائیکروفون، کال،پیغامات جیسے دیگر ڈیٹا کو بھی ایکسیس کر سکتا ہے۔ اسے کسی غلط لنک یا پھر ‘زیرو کلک’ اٹیک کے توسط سے ٹارگیٹ فون میں پہنچایا جا سکتا ہے۔

پیگاسس پروجیکٹ کو بھیجے گئے ایک مفصل جواب میں این ایس او گروپ نے کہا ہے کہ ‘وہ اپنے اسپائی ویئر کو صرف‘سرکاروں’ کو بیچتا ہے اور اس کے پاس اپنے کلائنٹس کے ‘ٹارگیٹ’ کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔

کمپنی نے باربارکہا ہے کہ اس کےاسپائی ویئر کا استعمال صرف دہشت گردی  اورجرائم کے خلاف کیا جاتا ہے اور اس نے اپنی خدمات کو ‘زندگی بچانے والے مشن’کے طور پر پیش  کیا ہے۔

فارنسک جانچ کے بنا یہ بتاناممکن نہیں ہے کہ ان نمبر والے فون میں اسپائی ویئر کامیابی کے ساتھ ڈالا گیا یا نہیں۔ ان میں سے کسی بھی شخص کے فون کی فارنسک جانچ نہیں کی جا سکی ہے۔ لیک ڈیٹابیس میں ان نمبروں کا ملنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ یہ کامیابی کے ساتھ نگرانی کے دائرے میں تھے۔ اس بارے میں متاثرہ  ڈیوائس کی فارنسک جانچ کے بعد ہی یقینی طور پرنتائج دیے جا سکتے ہیں۔

حالانکہ این ایس اوگروپ کے کلائنٹ کی فہرست میں ان نمبروں کا ہونا یہ ضرور ثابت کرتا ہے کہ ان میں این ایس او کی کلائنٹ نامعلوم  ایجنسیوں کی دلچسپی تھی اور یہ ممکنہ سرولانس کا نشانہ تھے۔

اس ڈیٹابیس میں پہچان کیے گئے عالمی رہنماؤں میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا نام بھی ہے، وہ ایسےواحدرہنما ہیں جن کے دو نمبر اس فہرست میں تھے۔

فرانس کے صدربھی2019 میں افریقہ کادورہ شروع کرنے سے ٹھیک پہلے 10000 سے زیادہ مراکش نشانوں کی فہرست میں شامل تھے۔

پیگاسس پروجیکٹ کے فرانسیسی ممبر لموند کو بھیجے اپنے ایک بیان میں صدر دفتر نے کہا، ‘اگر یہ بات درست ہے تو یہ صاف طور پر کافی سنگین ہے۔میڈیا کے ان انکشافات  پر روشنی ڈالی جائےگی۔ فرانس کے کچھ متاثرین نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں شکایت درج کروائیں گے اور اس کےلیے قانونی جانچ شروع کی جائےگی۔’

ممکنہ نگرانی فہرست میں ڈبلیوایچ او کے ڈائریکٹر جنرل کا نام شامل ہے۔ اس میں مراکش کے کنگ محمد ششم  اور وزیر اعظم عثمانی  کا نمبر بھی ہے، جسےممکنہ مراکش کے سیکیورٹی فورسزکے ذریعےچنا گیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مراکش نے 2019 میں امریکہ-ایران سودے پر ایک سابق چیف مذاکرات کار رابرٹ مالے میں بھی دلچسپی دکھائی تھی۔ حالانکہ این ایس او نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے سرکاری کلائنٹ کو تکنیکی طورپرامریکی فون نمبروں کی جاسوسی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

کل ملاکر لیک ہوئے ڈیٹابیس میں 34 ممالک کے 600 سے زیادہ سرکاری عہدیداروں  اور سیاستدانوں کے فون نمبر ہیں۔

جاسوسی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے مراکش نے ‘غلط الزامات’کی اشاعت پر ‘شدید حیرانی ’ کا اظہار کیا کہ اس نے کئی قومی  اور غیرملکی عوامی  ہستیوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے عہدیداروں  کے ٹیلی فون میں دراندازی کی ہے۔ ان کے بیان میں کہا گیا، ‘مراکشن  قانون کی حکومت کے ذریعے مقتدرہ ایک ملک ہے، جو آئین  کے ذریعےذاتی مکالمہ  کی رازداری کی گارنٹی دیتا ہے۔’

سوموارکو دی گارڈین نے بتایا تھا کہ ڈیٹابیس میں ایک نام ہندوستان  کے پڑوسی ملک پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا ہے۔ ریکارڈس کی مانیں تو ان کا نمبر سال 2017-2019 کے بیچ والے ہندوستانی  نمبروں کی فہرست میں 2019 کے وسط میں جوڑا گیا تھا۔ حکومت ہند نے ڈیٹابیس میں ملے کسی بھی نمبر پر سرولانس رکھنے کی بات سے انکار کیا ہے۔

یہ ایک حساس وقت  تھا کیونکہ ہندوستان اور پاکستان نے 2019 کی شروعات میں آپس میں ہوائی حملے کیے تھے،دونوں طرف کشیدگی  بڑھ گئی  تھی اور سیاسی رشتوں میں گراوٹ آئی تھی۔ 26 فروری کو ہندوستانی فضائیہ  کے طیاروں نے خیبرپختونخواکے بالا کوٹ میں مبینہ دہشت گردوں کے کیمپ  پر حملہ کیا تھا، جس کے ایک دن بعد پاکستانی ہندوستانی خطے میں داخل ہوئے تھے۔

دنیا بھر میں ایٹمی طاقت رکھنے والے دو پڑوسیوں کے بیچ فوجی تصادم کے خطرے کو دیکھتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے لیے امریکہ، یونائٹیڈ کنگڈم اور سعودی عرب اور یو اے ای سمیت اہم خلیجی ممالک  نے دخل اندازی  کی تھی۔

لیک ریکارڈس کے مطابق، عراق کے صدر برہم صالح سے جڑا فون نمبر 2018 اور 2019 کے دوران کے متحدہ عرب امارات اور سعودی کےنمبروں کےغلبہ والے لیک ڈیٹابیس کےدو الگ الگ گروپ  میں ملا ہے۔ پیگاسس پروجیکٹ کی جانب سے بھیجے گئے سوالوں پر دونوں ہی عرب ممالک  کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔

اسی طرح جنوبی افریقہ کے صدر سرل راما فوسا کا نمبر روانڈا کے اکثر فون نمبروں کے گروپ  میں تھا۔

پیگاسس پروجیکٹ کو بھیجے جواب میں روانڈا نے پیگاسس کے استعمال سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا، ‘یہ جھوٹے الزام روانڈا اور دیگرممالک کے بیچ تناؤ پیدا کرنے اور گھریلو و بین الاقوامی  سطح پر روانڈا کے بارے میں غلط جانکاری پھیلانے کے لیے چل رہی مہم کا حصہ ہیں۔ بہت ہو چکا، یہ جھوٹ کے ذریعے بدنام کرنے کی کوشش ہے۔’

ان کے علاوہ پیگاسس پروجیکٹ نے ایسے چھ سابق وزرائے اعظم اور صدرکے نمبروں کی بھی پہچان کی ہے، جنہیں عہدہ پر رہتے ہوئے نگرانی والی اس فہرست میں رکھا گیا تھا۔ ان میں بیلجیئم کے چارلس مشیل، فرانس کے ایڈوارڈ فلپ، لبنان کے سعدحریری، یمن کے احمدعبید بن غر اور الجیریا کے بیدو شامل ہیں۔

ریکارڈس میں ایسے سابق رہنماؤں کے بھی نام بھی ہیں، جو ان کے دفترچھوڑنے کے بعد نگرانی کے لیے ممکنہ ہدف  ہو سکتے تھے۔

حالانکہ صحافی صرف آذربائجان کے سابق وزیر اعظم پنہ حسینوف اور میکسکو کے سابق صدر فلپ کالڈیروں کے نمبروں کی تصدیق کر سکے، جو ممکنہ طور پر انہی کے ملک کے این ایس او گروپ کے کلائنٹ کی دلچسپی کے دائرے میں تھے۔

میکسکو کے 63ویں صدر کے معاملے میں انہیں شاید ان کی بیوی  کے صدارتی انتخاب میں کھڑے ہونے کے سلسلے میں نگرانی کی اس لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ حالانکہ آخرکار ان کی بیوی نے اپنی امیدواری واپس لے لی تھی۔

پیگاسس پروجیکٹ کے ایک ممبر کی جانب سے بھیجے گئے سوال پر ردعمل دیتے ہوئے سابق صدرنے کہا کہ وہ اس پر حیران نہیں ہیں، لیکن یہ‘آزادی اور رازداری  کے بنیادی عناصر اورانسانی وقار کےبنیادی گارنٹی کی نامناسب خلاف ورزی ہے۔’

انہوں نے کہا،‘کسی بھی معاملے میں یہ قابل قبول نہیں ہے، یہ ایک جابرانہ علامت  ہے جو تاناشاہی اور غیرجمہوری کاموں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ یہ آخری بار بھی نہیں ہے کہ میری جاسوسی کی گئی۔ ایک دوسرے موقع پر نام نہاد وکی لیکس نے انکشاف کیا تھا کہ میں امریکہ کے ذریعے جاسوسی کے نشانے پر تھا۔’

Next Article

ہندوستان کا نیا وقف قانون: مسلمانوں کے حقوق پر شب خون

ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیامنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔

غالباً 2018 میں جب جموں و کشمیر کے گورنر نریندر ناتھ ووہرا کی مدت ختم ہو رہی تھی دہلی میں ان کے ممکنہ جانشین کے بطور ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل سید عطا حسنین کا نام گردش کر رہا تھا۔ جنرل حسنین جو سرینگر میں موجود فوج کی چنار یا 15 ویں کور کے کمانڈر رہ چکے تھے، کے کشمیر میں بطور گورنر کی ممکنہ تعیناتی پر میں چونک سا گیا تھا۔

ان ہی دنوں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں سر راہ ملاقات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ اس خبر کا ماخذ کیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ نہایت ہی اعلیٰ ذرائع سے ان کو بتایا گیا ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے تیار رہیں۔

میں نے ان سے کہا، چاہے وہ کتنے ہی سیکولر کیوں نہ ہوں، ان کا نام مسلمانوں جیسا ہے، اس لیے  وہ اس عہدہ کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ اب ان کے چونکنے کی باری تھی۔میں نے بتایا کہ جموں و کشمیر کا گورنر ویشنو دیو ی شرائن بورڈ اور امرناتھ شرائن بورڈ کا چیئرمین بھی ہوتا ہے۔

ان دونوں تیرتھ استھانوں کے ایکٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ اس کا چیئرمین ایک ہندو ہی ہوسکتا ہے۔ یہی ہوا کہ چند رو ز بعد ایک ہندو ستیہ پال ملک کو گورنری کی دستار تفویض کی گئی۔ یعنی ایک مسلم اکثریتی خطہ ہونے کے باوجود جموں و کشمیر کا گورنر یا لیفٹنٹ گورنر مسلمان نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ ہندو استھانوں کے انتظام و انصرام کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔

ستم ظریفی دیکھیے ابھی حال ہی میں ہندوستانی پارلیامنٹ نے سو سال قدیم مسلم وقف قانون کو رد کرکے ایک نیا قانون پاس کرکے اس میں یہ لازم قرار دیا کہ مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈذ کے بیشتر اراکین غیر مسلم ہونے چاہیے۔

سابقہ قانون کے تحت دونوں اداروں کے تمام اراکین کا مسلمان ہونا ضروری تھا۔اب اس میں غیر مسلم اراکین کی لازمی شمولیت متعین کر دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ مرکزی وقف کونسل میں 22 میں سے 12 اراکین غیر مسلم ہو ں گے اور ریاستی وقف بورڈز میں 11 میں سے 7 اراکین غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔چار مسلم اراکین میں دو خواتین کا ہونا لازمی ہے۔

ان اراکین اور چیئرمین کو اب حکومت نامزد کرےگی۔ نیز ریاستی وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا بھی مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔وقف جائیدادوں کے تنازعوں کا نپٹارا کرنے کے لیے قائم  وقف ٹربیونل میں مسلم ماہر قانون کی موجودگی لازمی ہوتی تھی۔

اب ٹربیونل صرف ایک موجودہ یا سابقہ ڈسٹرکٹ جج اور ایک ریاستی افسر پر مشتمل ہوگا۔ مہاراشٹرا میں شری سائی بابا ٹرسٹ کا قانون کہتا ہے کہ جو افسر وہاں کام کرے گا اسے سائی بابا کا عقیدت مند ہونا چاہیے اور اسے ڈیکلریشن دینا پڑتا ہے۔

اسی طرح دیگر ہندو یا دیگر مذاہب کے مٹھوں یا عبادت گاہوں کے انتظام ا انصرام کےلیے اسی مذہب کا ہونا لازمی ہے، تاکہ وہ دل و جان اور عقیدہ کے ساتھ اس ادرارے کی خدمت کرسکے۔

یہ نیا قانون کس قدر متعصبانہ حد تک ظالمانہ ہے کہ اس کی ایک اور شق کے مطابق اب صرف ایسا شخص ہی  وقف یا اسلامی مذہبی و فلاحی مقاصد کے لیے زمین یا جائیداد عطیہ کر سکتا ہے، جو کم از کم پانچ سال سے با عمل مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کرے گا۔

وہ دینداری کا ثبوت کیسے فراہم کرے گا اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ کیا کسی سند کی ضرورت ہوگی یا علماء کی تصدیق درکار ہوگی؟ اور یہ فیصلہ کون کرے گا کہ وہ پچھلے پانچ سال سے باعمل مسلمان ہے یا اسلام پر عمل پیرا ہونے کا معیار کیا ہے؟

یعنی یہ قانون غیر مسلموں کو وقف بورڈز میں شامل ہونے اور اس کا انتظام و انصرام چلانے کی اجازت دیتا ہے، مگر اگر وہ وقف کے کاموں کے لیے عطیہ دینا چاہیں گے، تو اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

تنگ نظری اور تعصب کی عینک پہن کر بنایا گیا یہ قانون تضاد ات کا عجیب مجموعہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی متولی وقف جائیداد بیچتا ہے تو پہلے دو سال کی سزا تھی،اس کو اب چھ ماہ کر دیا گیا ہے۔

پہلے یہ جرم ناقابل ضمانت (نان بیل ایبل) تھا، اس کو  قابل ضمانت (بیل ایبل) بنا دیا گیا ہے۔اگر کسی جائیداد پر حکومت اور وقف بورڈ کا تنازعہ ہے، تو اب وہ وقف نہیں مانی جائے گی۔ کلکٹر ایسے معاملات میں اپنی رپورٹ ریاستی حکومت کو دے گا اور مالکانہ ریکارڈ میں تبدیلی کرے گا۔

دارالحکومت دہلی کے سینٹرل گورنمٹ آفس کمپلکس کا بیشتر حصہ جس میں خفیہ ایجنسی راء سمیت سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن سمیت کئی سرکاری اداروں کے صدر دفاتر وقف کی زمینوں پر تعمیر کیے گئے ہیں، اب ہمیشہ کے لیےوقف کی دسترس سے باہر ہو گئے ہیں۔

ایک بار انٹرویو کے دوران مسلم لیڈر اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے رکن مرحوم جاوید حبیب نے  مجھے کہا تھا کہ بابری مسجدکی شہادت کا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے پانچ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔

پہلا 1857ء کی جنگ آزادی، دوسرا 1920ء میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا 1947ء میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا 1971ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘اور پانچواں 1984ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور 1992ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔

اگر وہ زندہ ہوتے تو ریاست جموں و کشمیر کی 2019میں خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور اب 2025میں صدیوں سے مسلمانوں کی طرف سے وقف کی گئی زمینوں، جائیدادوں، جن سے مساجد، مدرسے اورمتعدد تعلیمی اور رفاعی ادارے چلتے ہیں، کے مالکانہ حق پر شب خون مارنے، کو بھی اس فہرست میں شامل کردیتے۔

بقول سابق رکن پارلیامنٹ محمد ادیب بابری مسجد تو بس ایک عبادت گاہ تھی، اب تو  اس نئے وقف قانون سے ہندوستان کی سبھی مساجد و درگاہوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے ۔

پچھلی دو دہائیوں سے سکھ اکثریتی صوبہ پنجاب سے اکثر خبریں آتی تھیں کہ مقامی سکھ خاندان یا کسان اپنے علاقوں میں1947سے غیر آباد مساجد کو دوبارہ آباد کرانے یا نئی مساجد بنانے کے لیے اپنی زمینیں بطور عطیہ دے رہے ہیں۔ اس طرح کے کم و بیش دو سو سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

چونکہ اس صوبہ میں مسلم آبادی ہی ایک فیصد سے کم ہے، اس لیے مسلمان ا ن مساجد کو آباد کر ہی نہیں سکتے ہیں، کیونکہ اکثر دیہی علاقوں میں دور دور تک  ان کی آبادی ہی نہیں ہے ۔ رواں برس کے اوائل میں ہی ضلع مالیرکوٹلہ کے ایک گاؤں عمرپورہ میں سکھجندر سنگھ نونی اور ان کے بھائی اوینندر سنگھ نے مسجد کی تعمیر کے لیے کئی ایکڑ زرعی زمین وقف کر دی۔

ا ن کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے گاؤں میں آباد مسلمان گھرانوں کے  پاس عبادت کے لیے کوئی مسجد نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے یہ زمین عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دیگر سکھوں تجونت سنگھ اور رویندر سنگھ گریوال نے مسجد کی تعمیر میں مالی معاونت فراہم کی۔

وہ ریاست جہاں مسلمانوں کی آبادی محض 1.9 فیصد ہے اور جہاں 1947 میں خونریز فسادات ہوئے تھے، اب ایک خاموش انقلاب، یعنی فرقہ وارانہ رواداری کی نقیب بنی ہوئی ہے ۔

اسی طرح جٹوال کلاں نامی سکھ اکثریتی گاؤں میں، جہاں مشکل سے درجن بھر مسلم گھرانے آباد ہیں، ایک نئی مسجد تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ یہ سب سکھوں کی زمین اور مالی عطیات کی بدولت ممکن ہوا۔

اب نئے وقف قانون کی رو سے پنجاب میں سکھ خاندانوں کی جانب سے مسلمانوں کے لیے عطیہ کی گئی سینکڑوں زمینیں  کاالعدم یا غیر قانونی قرار پائیں گی۔ایک سکھ سرپنچ کے مطابق اگر یہ قانون پہلے سے نافذ ہوتا تو وہ مسجد بنانے میں مدد نہیں کرسکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ  یہ معاملہ صرف عطیہ کا نہیں، بلکہ مشترکہ زندگیوں کا ہے  اور حکومت ایسی یکجہتی کی راہ میں کیسے رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں وقف کی 8لاکھ72ہزار جائیدادیں ہیں، جن میں زرعی اور غیر زرعی زمینیں، ایک لاکھ سے زائد مساجد، مکانات اور تیس ہزار کے قریب درگاہیں شامل ہیں۔ جن میں سے 7 فیصد پر قبضہ ہے، 2 فیصد مقدمات میں ہیں اور 50 فیصد کی حالت نامعلوم ہے۔ 2013میں منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت نے وقف پراپرٹی پر قبضوں کے خلاف جو سخت قانون بنایا تھا، اس کی وجہ سے21 لاکھ ایکڑ کی زمین واگزار کرائی گئی تھی۔

اس طرح وقف کی ملکیتی زمینیں 18لاکھ ایکڑ سے 39لاکھ ایکڑ تک بڑھ گئی تھیں۔ ہندو فرقہ کو لام بند کرنے کے لیے ایک پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مسلمانوں نے زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ ابہام بھی پھیلایا گیا کہ ہندوستان میں ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد سب سے زیادہ جائیداد وقف کی ہے۔

حالانکہ سچ یہ ہے کہ صرف چار ریاستوں تامل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور اڑیسہ میں ہندو مٹھوں و مندروں کے پاس 10لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔ اگر اس میں دیگر ریاستیں، خاص طور پر شمالی ہندوستان کی اترپردیش اور بہار کو شامل کیا جائے تو یہ وقف کے پاس موجود اراضی سے کئی گنا زیادہ ہوں گی۔  اسی طرح مسیحی برادری بھی ہر شہر میں پرائم پراپرٹی کی مالک ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سنجے کے جھا نے دی وائر میں لکھا کہ یہ قانون دراصل فرقہ وارانہ شکوک پیدا کرنے کی بڑی سازش کا حصہ ہے، جسے حکومت عوام کی بھلائی کے نام پر پیش کر رہی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کا یہ دعویٰ کہ اس نے وقف بل مسلمانوں کی فلاح کے لیے لایا ہے، آزاد ہندوستان کی تاریخ کا بدترین سیاسی فریب ہے۔

اس جھوٹ کو بیچنے کا جو حوصلہ حکومت نے دکھایا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ان کا مقصد مسلمانوں کو تنہا اور الگ تھلگ کرنا ہے۔ اس قانون کے اثرات پنجاب سے کہیں آگے تک  ہیں۔ پورے ہندوستان میں اب بین المذاہب خیرات شک کی نگاہ سے دیکھی جاے گی۔

کوئی ہندو یا سکھ اگر کسی مسلم وقف ادارے کو عطیہ دینا چاہے تو پہلے اُسے مذہب تبدیل کرنا ہوگا اور پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا۔ یوں خیرات کا جذبہ سرکاری دھندلکوں میں الجھ کر رہ جائےگا۔

ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیامنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔

عمر پورہ اور جٹوال کلاں جیسے دیہاتوں میں سکھ اور مسلمان آج بھی مل کر بستیاں بساتے ہیں۔ مگر قانون کی نظر میں اب ان کی محبت اور بھائی چارہ قابلِ گرفت بھی ہو سکتی ہے۔

اسی طرح اب کسی بھی زمین کو وقف تسلیم کرنے کے لیے اس کی باضابطہ رجسٹریشن اور متعلقہ دستاویزات درکار ہوں گی۔

اب اگرسلاطین، تغلق یا مغل دور میں کوئی زمین وقف ہوئی ہو، اس کے دستاویزات کہاں سے لائیں جائیں گے۔ جموں و کشمیر وقف بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، اس کے زیرِ انتظام 3300  جائیدادیں تقریباً 32000 کنال (تقریباً 4000 ایکڑ) زمین ہے۔

تاہم ایک بڑا حصہ—خصوصاً خانقاہیں، امام بارگاہیں، لنگر گاہیں اور قبرستان—ابھی تک غیر دستاویزی یا جزوی طور پر رجسٹرڈ ہیں۔

دیہی کشمیر میں ان مقامات کی بنیاد کئی نسلیں پہلے رکھی گئی تھی، اور انہیں رسمی قانونی طریقہ کار کے بجائے کمیونٹی کے مسلسل استعمال کے ذریعے سند حاصل ہوئی تھی۔ ”استعمال کے ذریعے وقف“  یعنی ”وقف بائی یوز“کی شق کے خاتمے کے بعد، یہ مقامات اب دوبارہ درجہ بندی، تنازعے یا حتیٰ کہ دوبارہ استعمال کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ قانونی تحفظ، جو کبھی تسلسل اور اجتماعی یادداشت سے حاصل ہوتا تھا، اب مکمل طور پر تحریری دستاویزات پر منحصر ہو گیا ہے۔

تاریخی طور پر کشمیر میں —جیسے کہ برصغیر کے بیشتر حصوں میں —مذہبی اور فلاحی زمینیں اکثر باہمی اعتماد اور زبانی معاہدوں کی بنیاد پر قائم ہوتی تھیں۔ جہاں بزرگ کسی درخت تلے نماز پڑھنے بیٹھتے، وہاں مسجد وجود میں آجاتی؛ جہاں کسی گاؤں کے پہلے شہید کو دفنایا جاتا، وہاں قبرستان بن جاتا؛ اور جہاں کوئی صوفی اپنی جائے نماز بچھاتا، وہاں خانقاہ کی بنیاد پڑتی۔

‘استعمال کے ذریعے وقف’ کا اصول ایسے مقامات کو قانونی حیثیت دیتا تھا، چاہے کوئی تحریری ثبوت موجود نہ ہو۔نیا قانون محض کوئی سرکاری ضابطے کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک گہری تہذیبی تبدیلی ہے۔

کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بے شمار قبرستان، خانقاہیں اور دینی مدارس مقامی افراد، محلوں یا گاؤں کی کمیٹیوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں، جن کے پاس کوئی تحریری دستاویزات نہیں، مگر خدمت کے طویل اور بے داغ ریکارڈ ضرور ہیں

نیا قانون ان جائیدادوں پر ریاستی اداروں یا نجی ترقیاتی منصوبوں کے قبضے کا راستہ ہموار کر سکتا ہے، خصوصاً جدید کاری یا شہری منصوبہ بندی کے نام پر۔

دفعہ 370 کی منسوخی اورمرکزی انتظام کے بعد، اس اقدام کو کشمیر کے مزید ذہبی، ثقافتی اور سیاسی  زوال کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔کبھی ان جائیدادوں کا محافظ سمجھے جانے والا جموں و کشمیر وقف بورڈ اب بے دست و پا نظر آتا ہے۔

وقف ترمیمی قانون کی منظوری نے اتر پردیش میں تقریباً 98 فیصد وقف جائیدادوں کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔وقف کی پوری جائیدادوں کا  27فیصد حصہ اسی صوبہ میں ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اب تک ریونیو ریکارڈز میں درج نہیں ہے۔

نئے قانون کے تحت وقف جائیدادوں کے فیصلے کا اختیار وقف بورڈ سے منتقل ہو کر ضلع مجسٹریٹ کے پاس اب ہوگا، جو زرعی سال 1359ھ (1952ء) کے ریونیو ریکارڈز کی بنیاد پر فیصلہ دیں گے۔  ترمیم کا اطلاق ان 57792 سرکاری جائیدادوں پر ہو گا، جو مختلف اضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں اور مجموعی طور پر 11712 ایکڑ پر محیط ہیں۔

تیس سے زائد مسلم دانشورو ں، جن میں سابق بیوروکریٹ، یونیورسٹی اساتذہ، قانون دان، سیاستدان وغیرہ شامل ہیں نے ایک مشترکہ بیان میں شکایت کی ہے کہ پارلیامنٹ کی طرف سے وقف ایکٹ کی منظوری نے مسلم کمیونٹی کو مایوس اور الگ تھلگ کر دیا ہے۔

ان کے مطابق آئین ہند میں دیے گئے ان کے آئینی حقوق نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔ اس عمل نے مسلم نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس پیدا کیاہے، جو اب اپنے ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔

اس گروپ میں جس میں کئی سابق اعلیٰ فوجی افسران، جیسے لیفٹنٹ جنرل ضمیر الدین شاہ، سابق پولیس سربراہ محمد وزیر انصاری شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات دل دہلا دینے والے ہیں اوران کے  آباء و اجداد کے وژن کے بالکل برعکس ہیں، جنہوں نے جامع مشترکہ قومیت کا تصور کیا تھا جہاں تمام اقوام ہم آہنگی  کے ساتھ رہ سکیں گی۔

احتجاجی مظاہرہ میں اسد الدین اویسی۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

حیدر آباد کے ممبر پارلیامنٹ  اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کے مطابق یہ وقف ترمیمی ایکٹ ہندوستان کے مسلمانوں کے ایمان اور عبادت پر ایک حملہ ہے۔

پارلیامنٹ میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کی حکومت نے اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے اور یہ  جنگ آزادی، سماجی و معاشی سرگرمیوں اور شہریت پر ہے تو تھی ہی، اب  مدارس، مساجد، خانقاہوں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کی وقف کی گئی جائیدادوں کا تحفظ برقرار رہےگا، کیونکہ ان کے قوانین کو تحفظ حاصل ہے اور ان کا انتظام خود ان کے ہاتھوں میں ہے۔ کوئی بھی غیر مذہب ا ن کے لیے عطیہ دے سکتا ہے اور ان کے انڈومنٹس کا تحفظ ہوگا۔ان پر لاء آف لیمیٹیشن کا اطلاق نہیں ہوگا۔

اویسی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں سے وقف بائی یوزر چھینا گیا ہے، مگر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیےچھوٹ ہے۔  ہندو، بدھ، سکھ مذاہب کو  منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد کو حاصل کرنے اور اس کے انتظام کا حق حاصل ہے، مگر صرف مسلمانوں سے یہ حق چھینا گیا ہے۔

دہلی میں 271 وقف جائیدادیں محکمہ آثار قدیمہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ جائیدادیں اب عملی طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئی ہیں، کیونکہ ان کی پاس ان کے مالکانہ حقوق کے دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہیں۔

اس میں شمالی ہندوستان کی سب سے پہلی قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ تاریخی مسجد قوت الاسلام بھی ہے، جو قطب مینار کے بغل میں واقع ہے۔چونکہ تنازعہ کی صورت میں حکومت کے ہی افسر کو فیصلہ کرنا ہے، اسی لیے ایسی صورتوں میں جہاں تنازعہ حکومت کے کسی محکمہ کے ساتھ ہے، تو اس پراپرٹی کا خدا ہی حافظ ہے۔ وقف بائی یوزر میں جب کوئی افسر کہہ دے گا کہ یہ وقف کی جائیداد نہیں ہے، تو وقف بورڈ خاموش بیٹھ جائے گا اور کوئی کارروائی نہیں کرے گا،کیونکہ ان کے چیئرمین حکومت کے نامزد کردہ ہوں گے۔

اس قانون کے ذریعے شاید مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ ان کی حالت ایسی ہوچکی ہے جیسے جنگل میں چرواہا بکریوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے اور ان کی دیکھ بھال بھیڑیوں کے سپرد کر دی گئی ہے، جو اس کو شیر سے بچانے کے نام پر خود نوچ رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ وسط ایشیاء پر روس کے قبضے کے بعد سب سے پہلے اوقاف ضبط کیے گئے تھے، تاکہ مساجد اور مدرسوں کے وسائل ختم کرائے جائیں۔ جب عوام نے چندہ جمع کرکے مسجدیں چلانا شروع کیں، تو چند ہ ٹیکس لگایا گیا۔

لوگوں نے اب گھروں میں نمازیں ادا کرنا شروع کیں، مساجد ویران ہوگئیں۔ مقامی کمیونسٹ پارٹی کے یونٹ قرار دار پاس کرتے کہ مسجد ویران ہے، اس لیے اسکو رفاعی کاموں کے لیے مختص کیا جائے۔ اس طرح مسجدکو شہید کروایا جاتا اور کسی اور تصرف میں لایا جاتا۔

 ایک چیز خوش آئند ہے کہ ہندوستانی مسلم زعما کو یہ  بات سمجھ  میں آگئی ہے کہ ان کو کنارے لگایا گیا ہے۔ ورنہ جب ان سے درخواست کی جاتی کہ کشمیر میں ہورہے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ ہونٹ تو ہلائیں، تو ان کے منہ کا ذائقہ خرا ب ہوجاتا تھا۔

سال 2019 میں جب خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی، تو جمعیتہ علماء ہند کے ایک ذمہ دار تو جنیوا مودی حکومت کا دفاع کرنے پہنچ گئے۔  ایک آدھ  ملی رہنماؤں کو چھوڑ کر ان میں اکثر مارٹن نیمولر کی اس نظم کی عملی تفسیر تھے۔

پہلے وہ سوشلسٹوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔

پھر وہ ٹریڈ یونین کے کارکنوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں ٹریڈ یونین کا کارکن نہیں تھا۔

پھر وہ یہودیوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔

پھر وہ میرے پیچھے آئے — اور بولنے والا کوئی نہ بچا تھا۔

 شاید ہندوستان میں مسلمان ابھی تک خوش قسمت ہیں کہ ایک ذی ہوش طبقہ ابھی بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ان کو ساتھ لےکر ہی ان کی داد رسی ہوسکتی ہے اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم ہوسکے گا۔

Next Article

وقف ترمیمی بل پر پارٹی کے موقف سے ناراض جے ڈی یو کے دو لیڈروں نے پارٹی سے استعفیٰ دیا

جے ڈی یو سپریمو اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو لکھے خط میں پارٹی کے سینئر لیڈر محمد قاسم انصاری نے گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقف بل پر پارٹی کے موقف نے لاکھوں مسلمانوں کے بھروسے کو توڑا ہے، جن کا ماننا تھا کہ پارٹی سیکولر اقدار پر قائم رہے گی۔ اس بل پر پارٹی لیڈر محمد اشرف انصاری نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔

نئی دہلی: جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) کے دو سینئر لیڈر محمد قاسم انصاری اور محمد اشرف انصاری نے جمعرات کو پارٹی اور پارٹی میں اپنے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

ان کا یہ استعفیٰ وقف ترمیمی بل پر اپارٹی کی حمایت کے بعد آیا ہے۔ انہوں نے اس بل کی حمایت کرنے پر اپنی پارٹی کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔ بتادیں کہ بڑے پیمانے پر مخالفت کے باوجود یہ بل پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس ہو چکا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جے ڈی (یو) کے سپریمو اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو لکھے خط میں انصاری نے گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے موقف نے لاکھوں ہندوستانی مسلمانوں کے بھروسے کو توڑا ہے جن کا خیال تھا کہ پارٹی سیکولر اقدار پر قائم رہے گی   ۔

انصاری مشرقی چمپارن ضلع میں پارٹی کے میڈیکل سیل کے ترجمان ہیں۔ نتیش کمار کو لکھے گئے اپنے خط میں انہوں نے کہا، ‘ہم جیسے لاکھوں ہندوستانی مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ آپ خالصتاً سیکولر نظریے کے علمبردار ہیں۔ لیکن اب یہ یقین ٹوٹ گیا ہے۔ وقف بل ترمیمی ایکٹ 2024 پر جے ڈی یو کے موقف نے لاکھوں ہندوستانی مسلمانوں اور ہم جیسے کارکنوں کو گہرا صدمہ پہنچایا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘جس تیوراور انداز میں شری للن سنگھ نے لوک سبھا میں اپنا بیان دیا اور اس بل کی حمایت کی اس سے ہمیں بہت تکلیف ہوئی ہے۔ وقف بل ہم ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ ہم اسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کر سکتے۔ یہ بل آئین کے کئی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا، ‘اس بل کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کی تذلیل اور توہین کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بل پسماندہ مخالف بھی ہے۔ جس کا نہ آپ کو احساس ہے اور نہ آپ کی پارٹی کو۔ مجھے اپنی زندگی کے کئی سال پارٹی کو دینے کا افسوس ہے۔’

استعفیٰ دینے والے دوسرے لیڈر محمد اشرف انصاری جے ڈی (یو) اقلیتی ونگ کے سربراہ ہیں۔ اپنے استعفیٰ میں انہوں نے کہا کہ لاکھوں  ہندوستانی مسلمانوں کو پختہ یقین تھا کہ نتیش کمار مکمل طور پر سیکولر نظریے کے علمبردار ہیں لیکن اب یہ یقین ٹوٹ چکا ہے۔

انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ جے ڈی (یو) کے اس رویہ سے لاکھوں ہندوستانی مسلمان اور ہم جیسے کارکنان کو شدید دکھ پہنچا ہے۔

معلوم ہو کہ لوک سبھا میں پاس ہونے کے بعد یہ بل جمعہ (4 اپریل) کو راجیہ سبھا میں بھی پاس ہو گیا ہے ۔ راجیہ سبھا میں اس بل کی حمایت میں 128 اور مخالفت میں 95 ووٹ پڑے۔ یہ بل اب منظوری کے لیے صدرجمہوریہ کے پاس بھیجا جائے گا۔

Next Article

پارلیامنٹ میں آدھی رات کے بعد بھی بحث، وقف ترمیمی بل راجیہ سبھا سے پاس

راجیہ سبھا نے وقف ترمیمی بل 2025 کو بحث کے بعد منظور کر لیا، اپوزیشن نے اسے مسلم مخالف اور اقلیتوں کے حقوق پر حملہ قرار دیا۔ بی جے پی نے اسے شفافیت میں اضافہ کرنے والا بتایا۔ ڈی ایم کے نے بل کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔

نئی دہلی: راجیہ سبھا میں وقف ترمیمی بل 2025 کو پاس کرانے کے لیے مسلسل دوسرے دن پارلیامنٹ آدھی رات کے بعد بھی چلی۔ یہ بل 4 اپریل کی رات 2:35 پر منظور کیا گیا، جس کے حق میں 128 اور مخالفت میں 95 ووٹ پڑے۔ لوک سبھا میں یہ 3 اپریل کو رات کے 2 بجے حق میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹوں کے ساتھ پاس ہوا تھا۔

اپوزیشن کی مخالفت

جمعرات (3 اپریل) کو حزب اختلاف کے کئی ارکان پارلیامنٹ نے کالے کپڑے پہن کر بل کے خلاف احتجاج کیا۔ تاہم، بی جے پی کے اتحادیوں- تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور جنتا دل (یونائیٹڈ) (جے ڈی یو) نے  راجیہ سبھا میں بھی بل کی حمایت کی۔ دوسری طرف بیجو جنتا دل (بی جے ڈی) اور وائی ایس آر کانگریس (وائی ایس آر سی پی) نے احتجاج  توکیا، لیکن اپنے ارکان پارلیامنٹ کو ووٹ ڈالنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔

بل پر زوردار بحث

لوک سبھا میں بحث بغیر کسی رکاوٹ کے چلی، لیکن راجیہ سبھا میں حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔ حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ نے اس بل کو ‘مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سازش’، ‘اقلیتوں کے حقوق پر حملہ’ اور ‘زمینوں پر قبضے کا منصوبہ’ قرار دیا۔ وہیں، حکمراں پارٹی نے کہا کہ یہ بل وقف املاک کے انتظام میں شفافیت لانے کے لیے لایا گیا ہے۔

مرکزی وزیر کرن رجیجو کا بیان

اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ اس بل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ صرف وقف املاک کے انتظام سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ کہنا غلط ہے کہ مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ یہ بل غیر آئینی یا غیر قانونی نہیں ہے۔’

کانگریس نے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا الزام لگایا

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ سید نصیر حسین نے کہا کہ بی جے پی نے 1995 کے وقف ایکٹ اور 2013 میں کی گئی ترامیم کی حمایت کی تھی، لیکن اب اچانک اس کو ‘عوام مخالف’ بتاکر ترمیم کیوں کی جا رہی ہے؟ انہوں نے الزام لگایا کہ ‘بی جے پی 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں 400 سیٹوں کا دعویٰ کر رہی تھی، لیکن وہ صرف 240 سیٹوں پر رہ گئی۔ اب یہ بل لا کر وہ اپنا ووٹ بینک واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اپوزیشن ارکان کا سوال- یہ ترمیم کیوں؟

حزب اختلاف کے سینئر رکن پارلیامنٹ کپل سبل نے سوال کیا کہ اس بل میں صرف مسلمانوں کو ہی وقف املاک کو عطیہ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔ ‘اگر میرے پاس جائیداد ہے اور میں اسے خیرات میں دینا چاہتا ہوں تو آپ کون ہوتے ہیں مجھے روکنے والے؟’

حکمراں پارٹی نے اس پر اعتراض کیا جب سبل نے یہ بھی کہا کہ ‘ملک میں 8 لاکھ ایکڑ وقف جائیدادیں ہیں، جبکہ صرف چار جنوبی ریاستوں (تمل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک) میں ہندو مذہبی جائیدادوں کا رقبہ 10 لاکھ ایکڑ ہے۔’

‘حکومت اقلیتوں کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر بنانے میں ناکام رہی ہے’

کانگریس لیڈر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ اقلیتی امور کی وزارت کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے اور اقلیتوں کی تعلیم اور معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آپ مدرسوں کی تعلیم، مفت کوچنگ، مولانا آزاد اسکالرشپ جیسی اسکیموں کو بند کر رہے ہیں اور پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ اقلیتوں کے مفاد میں کام کر رہے ہیں؟’

‘کیا گھروں اور مساجد میں سی سی ٹی وی لگائے جائیں گے؟’

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ سید نصیر حسین نے اس بل کی اس شق کی مخالفت کی جس میں وقف املاک کو عطیہ کرنے والے شخص کے لیے کم از کم پانچ سال تک اسلام کا پیروکار ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں پوچھا کہ اب یہ کیسے ثابت ہو گا کہ میں مسلمان ہوں؟ کیا مجھے ٹوپی پہننی ہوگی، داڑھی رکھنی ہے؟ کیا میرے گھر اور مساجد میں سی سی ٹی وی لگائے جائیں گے؟’

‘کیا یہ بل بلڈوزر سیاست کو قانونی شکل دینے کی کوشش ہے؟’

راجیہ سبھا میں اس بل پر بحث کے دوران آر جے ڈی کے رکن پارلیامنٹ منوج جھا نے کہا کہ اگر اس بل کے ذریعے غیر مسلموں کو شامل کیا جا رہا ہے تو سیکولرازم کے اس جذبے کو دوسرے مذاہب تک بھی پھیلایا جانا چاہیے۔

انہوں نے پوچھا، ‘اگر آپ واقعی سیکولرازم کے اس جذبے کو پورے ملک میں پھیلاتے ہیں اور ہر مذہبی ادارے میں دوسرے مذاہب کو شامل کرتے ہیں – چاہے وہ سکھ، مسلم یا عیسائی ہوں  – تو میں آپ کی تعریف کروں گا۔ یا آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تمام تجربہ صرف مسلمانوں کے ذریعے ہی ہو گا؟’

انہوں نے مزید الزام لگایا کہ یہ بل ‘بلڈوزر سیاست کو قانونی شکل دینے’ کی کوشش بھی ہو سکتا ہے۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘کیا یہ بل بلڈوزر کے لیے قانونی ڈھال بنا رہا ہے؟ یہ  بات ایک شہری کے طور پر مجھے ڈراتی ہے۔ شہروں میں مسلمان گھیٹو میں رہنے پر مجبور ہیں، اگر وہ گاؤں میں جاتے ہیں  تو انہیں  درانداز کہاجاتا ہے۔ ان کی تنظیموں کو شک کے دائرے میں رکھا جاتا ہے اور انہیں سازشی قرار دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے ڈاگ-وہسل  کی سیاست کا استعمال کرناٹھیک نہیں ہے۔’

حکومت کا جواب

مرکزی وزیر کرن رجیجو نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تعداد محدود رکھی گئی ہے اور ان کی مداخلت صرف تجاویز تک محدود رہے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ ‘کسی بھی مذہبی معاملے میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سینٹرل وقف کونسل کے کل 22 ارکان ہوں گے جن میں سے صرف چار غیر مسلم ہوں گے۔ وہ صرف اپنی رائے دے سکتے ہیں، لیکن وہ اکثریت میں نہیں ہوں گے۔’

‘ بل کارپوریٹس کو وقف املاک فروخت کرنے کا منصوبہ’

کانگریس کے ایم پی عمران پرتاپ گڑھی نے کہا، ‘آپ نے اس بل کا نام ‘امید’ رکھا ہے لیکن ملک کی ایک بڑی آبادی اب مایوس ہے کیونکہ آپ ان کی زمینیں لوٹ کر کارپوریٹس کو بیچنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔’

اپوزیشن نے وقف املاک کو بدنام کیا: بی جے پی ایم پی

عآپ کے رکن پارلیامنٹ سنجے سنگھ نے حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جو حکومت مسلمانوں کو بااختیار بنانے کی بات کر رہی ہے، اس کی اپنی پارٹی کے پاس لوک سبھا میں ایک بھی مسلم رکن نہیں ہے اور راجیہ سبھا میں صرف ایک ہے۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم مسلمانوں کی بھلائی کے لیے یہ قانون لا رہے ہیں، لیکن آپ کی پارٹی میں ایک بھی مسلم ایم پی نہیں ہے، صرف ایک غلام علی ہیں۔ آپ نے مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی سیاست ہی ختم کر دی۔ کیا آپ واقعی مسلمانوں کی بھلائی کر رہے ہیں؟’

بی جے پی کے اکلوتے مسلم ایم پی،غلام علی، جوجموں و کشمیر سے نامزد رکن ہیں،نے آدھی رات کے قریب بل پر بحث میں حصہ لیا اور کانگریس پر وقف ایکٹ میں ایسی دفعات شامل کرنے کا الزام لگایا جس سے مسلمانوں کو بدنام کیا گیا اور تجاوزات کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘آپ نے وقف ایکٹ میں ایسی دفعات شامل کیں جن سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش  ہوئی۔’

ترامیم کے خلاف عدالت جائے گی ڈی ایم کے

جمعرات (3 مارچ) کو اسٹالن سیاہ بیج پہنے  اسمبلی پہنچے  اور لوک سبھا میں بل کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تمل ناڈو حکومت اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔

اسٹالن نے ایوان میں کہا ،  ‘ یہ ایکٹ مذہبی ہم آہنگی کو متاثر کرتا ہے ۔ اس بات کو اجاگر کرنے کے لیے ہم آج اسمبلی میں سیاہ بیج لگا کر شرکت کر رہے ہیں ۔ ‘

انہوں نے مزید کہا، ‘اس متنازعہ ترمیم کے خلاف ڈی ایم کے کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جائے گی ۔ تمل ناڈو اس مرکزی قانون کے خلاف لڑے گا کیونکہ یہ وقف بورڈ کی خود مختاری کو مجروح کرتا ہے اور اقلیتی مسلم کمیونٹی کے لیے خطرہ ہے ۔’

ڈی ایم کے کا پارلیامنٹ میں احتجاج

راجیہ سبھا میں ڈی ایم کے ایم پی تروچی شیوا نے بھی حکومت پر حملہ کیا اور الزام لگایا کہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت جان بوجھ کر مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنا رہی ہے۔

‘ایک مخصوص کمیونٹی کوکیوں نشانہ بنایاجا رہا ہے؟ حکومت کی منشابدنیتی پر مبنی اورقابل مذمت۔وہ ‘سب کاساتھ ، سب کاوشواس ‘ کی بات کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کےبارے میں ان کی پالیسی امتیازی سلوک اورحاشیے پر دھکیلنے کی ہے۔یہ آئین کےخلاف ہے۔

اسٹالن کا وزیر اعظم مودی کو خط

جب لوک سبھا میں اس بل پر بحث ہو رہی تھی،اسی دوران  سی ایم  اسٹالن نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط بھیج کر وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی ۔

انھوں نے لکھا، ‘ ہندوستانی آئین ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کا حق دیتا ہے اور اس حق کی حفاظت کرنا منتخب حکومتوں کا فرض ہے ۔ لیکن مجوزہ ترمیم اقلیتوں کو دیے گئے آئینی تحفظات کو نظر انداز کرتی ہے ۔اس سے مسلم کمیونٹی کے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔’

تمل ناڈو اسمبلی میں بل کے خلاف تحریک

اسٹالن نے 27 مارچ کو تمل ناڈو اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی ، جس میں اس بل کو ملک اور مسلم کمیونٹی کی مذہبی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔

Next Article

مسجد، قبرستان اور یتیم خانہ پر سیاست: وقف کا مستقبل کیا ہے؟

وقف ترمیمی بل کو پارلیامنٹ کی  منظوری مل گئی  ہے، لیکن اپوزیشن جماعتوں اور مسلم کمیونٹی کے نمائندوں کے سوال اب بھی باقی ہیں۔ اس بل پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس اور سینئر صحافی عمر راشد کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔

Next Article

روزہ یا پیسے کا جھگڑا: رمضان میں ’تبدیلی مذہب‘ کے الزام میں یوپی کی مسلم خاتون گرفتار

اتر پردیش کے جھانسی میں رمضان کے دوران ایک 40 سالہ مسلم خاتون کونابالغ ہندو لڑکی کا’مذہب تبدیل’ کروانےکے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن خاتون کا کہنا ہے کہ پڑوسی ہندو خاندان  نے ان سے لیا گیا قرض واپس کرنے سے بچنے کے لیے ‘فرضی کہانی’ بنائی ہے۔

نئی دہلی: ملک بھر میں رمضان کا مقدس مہینہ عام طور پر پرامن طور پر گزرا اور حال ہی میں عید الفطر منائی گئی۔ لیکن اتر پردیش کے جھانسی کے ایک محلے میں مبینہ طور پر روزہ رکھنے کا معاملہ ایک مجرمانہ معاملے کا موضوع بن گیا ہے۔

الزام ہے کہ پڑوس کی ایک مسلم خاتون نے مبینہ طور پر ایک نابالغ ہندو لڑکی کو اسلام قبول کرنے کے لیے بہلایا۔ اس معاملے میں 40 سالہ مسلم خاتون شہناز کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دی وائر کی جانب سے دیکھے گئے دستاویزوں کے مطابق، اس خاتون نے بعد میں ایک مقامی عدالت میں دعویٰ کیا کہ تبدیلی مذہب  کا پورا معاملہ ایک مالی تنازعہ کی وجہ سے بنایا گیا ہے ۔

کیاہے معاملہ؟

جھانسی میں ایک ایف آئی آر 13 مارچ کو درج کی گئی،  جب ایک ہندو شخص نے الزام لگایاکہ اس کی 16 سالہ بیٹی کو اس کے پڑوس کی دو مسلم خواتین نے رمضان کے دوران روزہ رکھنے کے لیےبہلایا،  تاکہ اسے اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔

باپ نے کہا،’انہوں نے میری بیٹی کو بہلا پھسلا کریہ یقین دلایا کہ اگر وہ روزہ رکھے گی تو اس کے گھر میں برکت آئے گی۔ وہ امیر ہو جائے گی اور وہ اسے مناسب مدد فراہم کریں گے۔’

ہم اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے ہیں کیونکہ اس سے ان  کی نابالغ بیٹی کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے۔

لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی نے تین چار روزے رکھے اور نماز بھی پڑھی۔

شکایت کنندہ کے مطابق،  13 مارچ کوکلیدی ملزم شہناز زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئی اور ایک کمرے کو اندر سے بند کر کے پھانسی لگا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ یہ کمرہ شکایت کنندہ کے بھائی کا تھا۔ جب ہندو خاندان نے پولیس کو بلانے کے لیے 112 پر کال کی تو خاتون وہاں سے بھاگ گئی، لیکن جانے سے پہلے  ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی۔ اسی دوران کچھ ہندو دائیں بازو کے کارکن بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے مسلم خواتین پر جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگایا۔

اس کے بعد، شہناز اور کشناما نامی دو خواتین کے خلاف اتر پردیش کے غیر قانونی تبدیلی مذہب کی روک تھام کے قانون 2021 کی دفعہ 3 اور 5 (1) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ تحقیقات کے دوران پولیس نے بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دیگر دفعات بھی شامل کیں، جن میں جان سے مارنے کی دھمکی، املاک کو تباہ کرنے کی دھمکی اور  جان بوجھ کر توہین کرنا تاکہ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو، شامل ہے۔

شہناز کا کیا کہنا ہے؟

شہناز نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ مقامی عدالت میں دائر اپنی ضمانت کی درخواست میں انہوں  نے کہا کہ ہندو خاندان نے انہیں پھنسانے کے لیے ‘فرضی کہانی’ بنائی ہے کیونکہ وہ ان سے لیے گئے قرض کی ادائیگی سے بچنا چاہتے تھے۔

شہناز کے مطابق، کچھ عرصہ قبل جب ہندو شخص بیمار ہوا تو اس کی اہلیہ نے شہناز سے 50 ہزار روپے ادھار لیے اور 10 دن میں واپس کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن رقم واپس نہ ہونے پر شہناز کئی بار ان  کے گھر گئی اور رقم واپس مانگی۔ انہوں  نے کہا، ‘ان  کی بیوی نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی تھی۔’

شہناز نے الزام لگایا کہ 13 مارچ کو صبح 10 بجے جب وہ ان کے گھر پیسے مانگنے گئی تو پڑوس کا بھائی، جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ اسی گھر میں رہتا تھا، نے اسے ایک کمرے میں بند کر دیا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔

‘میں نے زور سے چلایا تو پڑوسی جمع ہو گئے۔’ انہوں نے کہا۔

شہناز نے الزام لگایا کہ لڑکی کے والد نے دائیں بازو کی تنظیموں کے لوگوں کو بلایا، جنہوں نے پولیس کو بلایا اور انہیں بچانے کے لیے جھوٹی کہانی بنا دی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے ان کی شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی کہ انہوں  نے نابالغ لڑکی کو اسلام قبول کرنے کو کہا یا اسے روزے رکھنے اور نماز پڑھنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ لڑکی کے گھر میں اس کے والدین، بہن بھائی اور چچا اور چچی سمیت کئی لوگ رہتے ۔ ‘اگر لڑکی نے واقعی روزہ رکھا ہوتا تو اس کے گھر والوں کو ضرور معلوم ہوتا۔’ انہوں نے کہا۔

روزے کے عمل میں آدمی کو سورج نکلنے سے پہلے کھانا کھانا پڑتا ہے اور پھر سارا دن روزہ رکھنے کے بعد غروب آفتاب کے وقت افطار کرنا پڑتا ہے۔ شہناز نے کہا،’اگر لڑکی ایک بھی  روزہ  رکھتی تو گھر والوں کو ضرور پتہ چل جاتا’۔

شہناز کی درخواست ضمانت مسترد

گزشتہ 26 مارچ کو جھانسی کے ایڈیشنل سیشن جج وجئے کمار ورما نے شہناز کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے کہا کہ شہناز متاثرہ کی پڑوسی ہیں  اور وہ گواہوں یا شواہد پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )