سی جے آئی این وی رمنا کی بنچ نے اسرائیلی اسپائی ویئر معاملے کی جانچ کی اپیل کرنے والی عرضیوں پر نوٹس جاری نہیں کیا۔ کورٹ نے عرضی گزاروں سے کہا کہ وہ اپنی عرضیوں کی کاپیاں مرکز کو مہیا کرائیں تاکہ اگلی شنوائی میں سرکار کی جانب سے نوٹس قبول کرنے کے لیے کوئی موجود رہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ پیگاسس کے بارے میں اگر رپورٹ درست ہے تو اس سے متعلق جاسوسی کے الزام‘سنگین نوعیت’ کےہیں۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے اسرائیلی اسپائی ویئر معاملے کی جانچ کی اپیل کرنے والے عرضی گزاروں سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اس بارے میں شکایت درج کرنے کی کوئی کوشش کی ہے۔
چیف جسٹس (سی جے آئی)این وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت کی ایک بنچ نے حالانکہ ان عرضیوں پر نوٹس جاری نہیں کیا لیکن اس نے ان عرضیوں میں سے ایک عرضی میں(وزیراعظم کو)ذاتی طور پر فریق بنائے جانے پراعتراض کیا۔
رپورٹ کےمطابق، کارکن اورعرضی گزار جگدیپ چوکر کے وکیل شیام دیوان نے کہا کہ ان کی عرضیوں کی کاپیاں اٹارنی جنرل اور سالیسیٹر جنرل کو پیشگی طور پر دی گئی تھیں۔
اس پر عدالت نے باقی عرضی گزاروں سے کہا کہ وہ اپنی عرضیوں کی کاپیاں مرکز کو مہیا کرائیں تاکہ 10 اگست کو اس معاملے میں سرکار کی جانب سے نوٹس قبول کرنے کے لیے کوئی اس کے سامنے موجود رہے۔
عدالت نے یہ بھی سوال کیا کہ یہ معاملہ ابھی اچانک کیوں اٹھا ہے جبکہ یہ 2019 میں ہی سامنے آ گیا تھا۔
بنچ نے سینئر صحافی این رام اور ششی کمار کی جانب سے پیش سینئروکیل کپل سبل سے کہا کہ اس معاملے میں عرضی گزار تعلیم یافتہ اور جان کار شخص ہیں اور انہیں اور زیادہ مواد اکٹھا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔
چیف جسٹس نے کہا، ‘اس سب میں جانے سے پہلے، ہمارے کچھ سوال ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں، اگر رپورٹ درست ہے تو الزام سنگین ہیں۔’ بنچ نے کہا کہ اس نے ان رٹ عرضیوں میں پڑھا ہے کہ یہ معاملہ دوسال پہلے مئی 2019 میں سامنے آیا تھا۔
بنچ نے کہا،‘انہیں زیادہ موادسامنے رکھنے کے لیےزیادہ کوشش یا کڑی محنت کرنی چاہیے تھی۔ ساتھ ہی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بالکل بھی مواد نہیں ہے۔’ بنچ نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہنا چاہتی کہ یہ رپورٹ قابل اعتماد نہیں ہیں۔
عدالت نے کہا کہ کچھ عرضی گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے فون ہیک کیے گئے یا انٹرسیپٹ کیے گئے۔
بنچ نے کہا، ‘آپ جانتے ہیں کہ شکایت درج کرانے کے لیے ٹیلی گراف ایکٹ یاآئی ٹی ایکٹ کے تحت اہتمام ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے، مجھے نہیں پتہ، کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ کیا انہوں نے ان میں سے کسی کے خلاف شکایت درج کرانے کی کوئی کوشش کی ہے۔’
سبل نے بنچ کو بتایا کہ پہلے عرضی گزاروں کی جانکاری تک پہنچ نہیں تھی اور پیگاسس اسپائی ویئر صرف سرکار اور اس کی ایجنسیوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ رپورٹس کے مطابق ، صحافیوں، اہم ہستیوں، آئینی عہدیداروں ، عدالت کے رجسٹرار اور دوسرے کو نشانہ بنایا گیا اور سرکار سے اس بارے میں پوچھا جانا چاہیے۔
سبل نے جب کہا کہ فہرست میں عدلیہ کے ایک سابق ممبر کے نمبر کے بارے میں بھی رپورٹ ہے، تو بنچ نے کہا، ‘سچ کو سامنے آنا ہے، ہم نہیں جانتے کہ کس کے نام ہیں۔’سبل نے کہا کہ پیگاسس ایک ‘خطرناک تکنیک’ ہے اور پوری طرح سے غیرقانونی ہے کیونکہ یہ ہماری جانکاری کے بنا ہماری زندگی میں دراندازی کرتی ہے۔
سبل نے کہا، ‘میں سمجھ سکتا ہوں۔ ہماری کئی چیزوں تک پہنچ نہیں ہے۔ عرضیوں میں فون میں سیدھی دراندازی کے 10 معاملوں کی جانکاری ہے۔’ انہوں نے کہا کہ یہ پرائیویسی اور انسانی وقار پر حملہ ہے۔سبل نے پوچھا کہ سرکار نے اس مدعے پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی کیونکہ یہ شہریوں کی سیکیورٹی اور پرائیویسی سے جڑا معاملہ ہے۔
کچھ عرضی گزاروں کی جانب سے پیش سینئر وکیل سیو سنگھ نے کہا کہ حالانکہ معاملہ 2019 میں سامنے آیا تھا، لیکن نشانہ پر لیے گئے افراد کے نام اب تک معلوم نہیں ہیں۔عرضی گزاروں میں سے ایک کی جانب سے پیش سینئر وکیل شیام دیوان نے کہا کہ امریکہ اور فرانس کی سرکاروں نے ان رپورٹ کی بنیاد پر کارروائی کی ہے اور اس کے بارے میں اسرائیلی سرکار کو مطلع کیا ہے۔
کچھ عرضی گزاروں کی جانب سے پیش سینئر وکیل راکیش دویدی نے کہا کہ یہ کسی ایک فون کا معاملہ نہیں بلکہ ‘بڑا’ معاملہ ہے اور حکومت ہندکو اسے لےکر خود ہی قدم اٹھانا چاہیے تھا۔دویدی نے کہا، ‘پورے ملک کو مطمئن کیا جانا چاہیے کہ ان کے فون اور کمپیوٹر سے اس طرح چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائےگی۔’
کچھ عرضی گزاروں کی نمائندگی کرنے والےسینئروکیل ارویند داتار اور میناکشی اروڑہ نے بنچ کو بتایا کہ معاملے کی جانچ ضروری ہے کیونکہ اس میں شہریوں کی پرائیویسی کے حق کا پہلو شامل ہے۔اس معاملے میں عرضی گزاروں میں سے ایک وکیل ایم ایل شرما نے بھی معاملے میں دلیلیں دیں۔ عدالت نے شرما کوفریقین کے میمو میں ترمیم کرنے کی اجازت دی، جنہوں نے ذاتی طور پر وزیر اعظم کوفریق بنایا ہے۔
عدالت نے عرضی گزاروں کی جانب سے پیش وکیلوں کی دلیلیں سننے کے بعد انہیں عرضیوں کی کاپیاں مرکز کو مہیا کرانے کو کہا۔بنچ نے معاملے کی اگلی شنوائی 10 اگست طے کرتے ہوئے کہا، ‘انہیں عرضیوں کی کاپیاں سرکار کو مہیا کرانے دیں۔ نوٹس لینے کے لیے سرکار کی جانب سے کوئی پیش ہونا چاہیے۔’
بنچ نے کہا، ‘ہمیں نہیں پتہ کہ ہم کس معاملے میں نوٹس جاری کریں گے۔ انہیں نوٹس حاصل کرنے کے لیے ہمارے سامنے آنے دیجیے اور ہم اس کے بعد دیکھیں گے۔’بتا دیں کہ عدالت مبینہ پیگاسس جاسوسی معاملے کی آزادانہ جانچ کی اپیل کرنے والی نو عرضیوں پر شنوائی کر رہی تھی جس میں ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا اور سینئر صحافیوں کی عرضیاں بھی شامل ہیں۔
یہ عرضیاں اسرائیلی کمپنی این ایس او کے اسپائی ویئر پیگاسس کا استعمال کرکے شہریوں ،رہنماؤں اور صحافیوں پر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعےمبینہ جاسوسی کی رپورٹ سے متعلق ہیں۔
ایک بین الاقوامی میڈیا ایسوسی ایشن نے بتایا ہے کہ 300 سے زیادہ مصدقہ ہندوستانی موبائل فون نمبر پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کرکے نگرانی کے ممکنہ نشانوں کی فہرست میں تھے۔
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے اپنی عرضی میں صحافیوں اور دوسرے کی مبینہ نگرانی کی جانچ کے لیے ایک خصوصی جانچ ٹیم بنانے کی گزارش کی ہے۔
گلڈ کی عرضی ، جس میں سینئر صحافی مرنال پانڈے بھی عرضی گزار میں سے ایک ہیں، نے کہا ہے کہ اس کے ممبروں اور سبھی صحافیوں کی ذمہ داری اطلاعات،تشریحات اورملک کی کارروائی یاغیرفعالیت کے لیے قانونی طور پر درست دلائل مانگ کر سرکار کی تمام شاخوں کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔
معلوم ہو کہ گزشتہ جولائی مہینے میں سلسلہ وار طریقے سے ایک بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم لگاتار پیگاسس سرولانس کو لےکر رپورٹ شائع کی ہے۔ ان میں بتایا گیا کہ مرکزی وزیروں ،40 سے زیادہ صحافیوں، اپوزیشن رہنماؤں، ایک موجودہ جج، کئی کاروباریوں اور کارکنوں سمیت 300 سے زیادہ ہندوستانیوں کےموبائل نمبر اس لیک کئے گئے ڈیٹابیس میں شامل تھے، جن کی پیگاسس سے ہیکنگ کی گئی یا وہ ممکنہ طور پرنشانے پر تھے۔
د ی وائر بھی اس کنسورٹیم کا حصہ ہے۔دی وائر نے فرانس کی غیرمنافع بخش فاربڈن اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دی واشنگٹن پوسٹ، دی گارڈین جیسے16دیگر انٹرنیشنل میڈیااداروں کے ساتھ مل کر یہ رپورٹس شائع کی ہیں۔
یہ جانچ دنیا بھر کے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبر پر مبنی تھی، جن کی اسرائیل کے این ایس اوگروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے جاسوسی کی جا رہی تھی۔ اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نےفارنسک جانچ کی ہے، جس میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان پر پیگاسس اسپائی ویئر سے حملہ ہوا تھا۔
ابھی تک دی وائر نے 160 سے زیادہ لوگوں کے ناموں کا انکشاف کیا ہے جس میں اپوزیشن رہنما، صحافی ، سپریم کورٹ کے ایک سابق جج، کارکن اور سابق سی جے آئی رنجن گگوئی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی خاتون شامل ہیں۔ ان کے فون میں کامیابی کے ساتھ یاممکنہ طور پر جاسوسی کی گئی۔
سب سے پہلی عرضی وکیل ایم ایل شرما نے اور دوسری عرضی سینئر صحافی این رام اور ششی کمار نے جبکہ تیسری عرضی راجیہ سبھا ایم پی جان برٹاس نے دائر کی تھی۔
اس کے بعدپیگاسس پروجیکٹ فہرست میں آنے والےملک کے چار صحافیوں پرنجوئے گہا ٹھاکرتا، ایس این ایم عابدی، پریم شنکر جھا، روپیش کمار سنگھ اور ایک کارکن اپسا شتاکشی نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)