ایک پروگرام میں تین سینئرسبکدوش اعلیٰ پولیس اافسران جولیو ربیرو، وی این رائے اور ایس آر داراپوری نے کہا کہ ایلگار پریشد معاملے میں اس بات کی وسیع طورپر پر جانچ ہونی چاہیے کہ ملزمین کے فون اور لیپ ٹاپ جیسے ڈیوائس میں جعلی ثبوت پہنچانے کے لیے پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا تھا یا نہیں۔
نئی دہلی: تین سینئرسبکدوش اعلیٰ پولیس افسران جولیو ربیرو، وی این رائے اور ایس آر داراپوری نے 5 اگست کو پیگاسس پروجیکٹ کے انکشافات کے تحت سامنے آئی کئی صحافیوں ، سماجی کارکنوں ،رہنماؤں اوردوسرے لوگوں کی جاسوسی اور ممکنہ نگرانی کی مذمت کی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ
اس انکشاف سے پتہ چلا ہے کہ ایلگار پریشد معاملے میں جن بنیادوں پر 16ماہرین تعلیم، وکیلوں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ جھوٹے ہو سکتے ہیں۔مقررین میں سے ایک نے کہا، ‘پیگاسس کے انکشاف کے بعد بھیما کورےگاؤں معاملے کو ایک نئی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔’
بھیما کورےگاؤں معاملے کے ملزم دو سال سے جیل میں شنوائی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک فادر اسٹین سوامی، جنہیں قومی جانچ ایجنسی نے ماؤنواز سے تعلق ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا تھا، کاگزشتہ5 جولائی کو جیل میں رہتے ہوئے کووڈ پازیٹو پائے جانے کے بعد انتقال ہو گیا۔ انہوں نے میڈیکل بنیاد پر ضمانت کی گزارش کی تھی۔
ان کی موت کے فوراً بعد ایک امریکی فارنسک ایجنسی
آرسینل کنسلٹنگ کی ایک رپورٹ نے دعویٰ کیا کہ ایلگار پریشد معاملے میں گرفتار کارکن سریندر گاڈلنگ کے کمپیوٹر میں جھوٹے ثبوت ڈالے گئے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ پیگاسس پروجیکٹ کے تحت
دی وائر نے بتایا ہے کہ پیگاسس بیچنے والے این ایس او گروپ کے ایک کلائنٹ کے ذریعے چنے گئے نمبروں کے لیک ڈیٹابیس میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن رونا ولسن،ماہر تعلیم ہینی بابو ایم ٹی، کارکن ورنان گونجالوس، ماہر تعلیم اور ہیومن رائٹس کارکن آنند تیلتمبڑے،سبکدوش پروفیسر شوما سین(ان کا نمبر پہلی بار 2017 میں چنا گیا تھا)، صحافی اور کارکن گوتم نولکھا، وکیل ارون فریرا اورماہر تعلیم اور کارکن سدھا بھاردواج کے نمبر تھے۔
جمعرات کو ہوئی اس پریس کانفرنس کی نظامت دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے کی، جنہوں نے کہا کہ سرکار کو ممکنہ پیگاسس نشانوں کو لےکر آئی حالیہ رپورٹ پر جواب دینا چاہیے۔انہوں نے کہا، ‘ہماری پرائیویسی خطرے میں ہے اور ہم نہیں جانتے کہ اس جانکاری تک کس کی پہنچ ہے۔ پارلیامنٹ بھی اس طرح سے کام نہیں کر رہی ہے جیسا کہ اسے کرنا چاہیے کیونکہ سرکار اپوزیشن کو جواب دینے سے انکار کر رہی ہے۔’
پنجاب اور گجرات کے ڈی جی پی رہ چکے سابق آئی پی ایس افسر جولیو فرانسس ربیرو نے کہا کہ ایلگار پریشد معاملے کی طرح کسی بھی شہری پر ‘غلط طریقے سے’ کسی بھی جرم کے لیے الزام نہیں لگایا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ‘کسی بھی شخص پر غلط طریقے سے الزام لگاکر پریشان نہیں کیا جانا چاہیے۔ جب میں پولیس میں تھا تو کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ لوگوں پر غلط الزام لگائے جاتے تھے، لیکن کبھی بدنیتی سے نہیں۔ مقدمہ ہوتا اور اگر الزام ثابت نہیں ہوتے تو ان لوگوں کو بری کر دیا جاتا۔ ہم نے تب تک قصوروار نہ ہونے کے اس اصول پر عمل کیا جب تک کہ وہ ثابت نہیں ہوا۔’
انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ جن لوگوں پر غلط طریقے سے ان جرائم کا الزام لگایا جا سکتا ہے، جو انہوں نے نہیں کیے ہیں توان کا سرکار کے ساتھ ساتھ عدلیہ سے بھی بھروسہ اٹھ سکتا ہے۔
یواے پی اے، جس کا استعمال اکثر سرکار کی مخالفت کرنے والے سماجی کارکنوں کے خلاف کیا جاتا ہے، کے بارے میں انہوں نے کہا، ‘یواے پی اے ملزم کا جرم ثابت ہوئے بنا ہی اسے سزا دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے قوانین میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔’
انہوں نے ایلگار پریشد معاملے کےخصوصی تناظر میں کہا، ‘ایسے دوواقعات ہوئے ہیں، جنہوں نے معاملے میں پولیس کے بیان کو لےکرشک پیدا کیا ہے۔ پہلا، آرسینل کنسلٹنگ رپورٹ، اور دوسرا پیگاسس انکشاف۔ اس بات کی بڑے پیمانے پر جانچ ہونی چاہیے کہ ملزمین کے فون اور لیپ ٹاپ جیسے ڈیوائس میں جعلی ثبوت پہنچانے کے لیے پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا تھا یا نہیں۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ فادرا سٹین سوامی اگر ‘ماؤنواز’ ہوتے تو وہ پولیس میں معاملہ درج نہیں کراتے کیونکہ ماؤنواز سرکار یا پولیس میں یقین نہیں کرتے ہیں۔
ہریانہ پولیس کے سابق ڈی جی پی وکاس نارائن رائے نے کہا کہ پیگاسس اور آرسینل کنسلٹنگ کے انکشاف کو گہرائی سے دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جاسوسی یا نگرانی کرنا صوبے کا ایک خودمختار عمل ہے، لیکن ثبوت پلانٹ کرنا ‘سیدھاجرم’ہے۔
انہوں نے کہا، ‘کوئی بھی، چاہے پولیس ہو یا انٹلی جنس بیورو، ثبوت پلانٹ کرنا ایک جرم ہے …[اس معاملے میں]شک اور مضبوط ہو جاتا ہے کیونکہ میڈیا کے ہنگامہ کے باوجود این آئی اے اس پر کچھ صاف نہیں کہہ رہی ہے۔’
انہوں نے کہا،‘یہاں تک کہ نگرانی بھی غیرمجازی طریقے سے نہیں کی جانی چاہیے۔ اس کے کچھ قاعدے، عمل اور کچھ پروٹوکال ہیں جن پر عمل کیا جانا ہے۔زیادہ سے زیادہ ثبوتوں کے سامنے آنے کے ساتھ ہی یہ شک مضبوط ہو گیا ہے کہ سرکارملزمین کے ڈیوائس میں ثبوت پلانٹ کیے جانے میں ساتھ تھی۔’
انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ ایجنسیوں کے لیے معاملے میں اب سامنے آئے نئے ثبوتوں کی جانچ کرنالازمی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فادر اسٹین سوامی کی موت مہاراشٹر کی ایک جیل میں ان کی بگڑتی صحت کی وجہ سے ہوئی، جو ریاستی سرکار کے ماتحت آتا ہے۔ رائے نے کہا، ‘ریاستی سرکار کو
اپنی جیلوں کے اندر خراب حالات کے لیے بھی جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ انہیں جیلوں کوانسانی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔’
اتر پردیش کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس آر داراپوری نے 1885 کے ہندوستانی ٹیلی گراف ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جاسوسی اور نگرانی صوبے کے اختیارات ہیں اور اس قانون کی دفعہ5 سرکار کولائسنسی ٹیلی گراف اپنے قبضے میں لینے اور اس پر آنے والے پیغامات کو انٹرسیپٹ کرنے کا حکم دینے کی طاقت دیتی ہے۔ حالانکہ، پھر بھی کچھ شرطیں ہیں جنہیں کسی کی جاسوسی کرنے کی اجازت لینے کے لیے پورا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا،‘ایجنسی یا پولیس کو متعلقہ فرد کے ذریعےجرم کا ثبوت دیتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس شخص کاعمل ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے، یادوسرے دوست ممالک کے ساتھ ملک کےرشتوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے، یا عوامی نظم ونسق کومتاثر کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘اس کی کچھ حد ہے۔ یہ صرف محدود مدت کے لیے کی جا سکتی ہے۔ اس کاوقت وقت پر تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ اور بھلے ہی انٹرسیپشن کی اجازت دی جا سکتی ہے، کسی کے ڈیوائس میں اسپائی ویئر ڈالنا، ثبوت پلانٹ کرنا یا ہیکنگ اب بھی جرم ہیں۔’
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ایلگار پریشد کے ملزمین کی قید کو صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ بنیادی ثبوت، جس کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا ہے، پہلی نظر میں ہی مشتبہ ہیں۔
سال 2019 میں انہیں گرفتار کیے جانے کے واقعے کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘سی اے اےمخالف تشدد کے دوران میں نے ‘شہریت بچاؤ’ کہتے ہوئے ایک فیس بک پوسٹ ڈالی تھی، جسے پولیس مانتی ہے کہ ‘بھڑکاؤ’ تھا۔ انہوں نے مجھے بعد میں گرفتار کیا۔ ایک دوسرے پوسٹ میں میں نے تشدد کی مذمت کی تھی، لیکن پولیس کو یہ اہم نہیں لگا۔’
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔