بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے شہریت قانون کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرہ پر دفعہ 144 کے تحت روک لگانے والے حکم کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ملک کوانگریزوں سے آزادی مظاہرے کے ذریعے ہی ملی تھی۔
نئی دہلی: بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے جمعرات کو شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں کو لےکر تبصرہ کیا۔بنچ نے کہا کہ ان کو صرف اس لئے غدار اور غدار وطن نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ ایک قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بنچ نے سی اے اے کے خلاف آندولن کے لئے پولیس کے ذریعے اجازت نہ دیے جانے کے خلاف ڈالی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ بات کہی۔
لائیو لا ءکے مطابق، ایک اہم فیصلے میں بامبے ہائی کورٹ ک اورنگ آباد بنچ نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف ملک گیر تحریک کے مدنظر منعقد مظاہرے پر پابندی لگانے کے لیے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت منظور ایک حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔ جسٹس ٹی وی نلواڑے اور جسٹس ایم جی سیولکر کی عدالتی بنچ نے افتخار ذکی شیخ کی عرضی پر یہ فیصلہ دیا ہے۔
شیخ نے بیڑ ضلع کے مجل گاؤں میں پرانے عید گاہ میدان میں پر امن مظاہرہ کرنے کی گزارش کی تھی، حالانکہ بیڑ کے ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے دفعہ 144 نافذ کر نے والے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے ان کو اجازت نہیں دی گئی۔ عدالت نے کہا کہ بھلےہی دفعہ 144 کے حکم کو تحریکوں پر لگام لگانے کے لئے نافذ کیا گیا تھا، لیکن اس کا اصلی مقصد سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں کو خاموش کرانا تھا۔ حکم میں نعرے بازی، گانے اور ڈھول بجانے پر بھی روک لگائی گئی تھی۔
عدالت نے کہا، ‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکم دیکھنے میں سبھی کے خلاف معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ حکم ان لوگوں کے خلاف ہے جو تحریک کرنا چاہتے ہیں، سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ فی الحال ایسی تحریک ہرجگہ چل رہی ہیں اور اس علاقے سے کسی دیگر تحریک کی اطلاع نہیں ہے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے یہ حکم غیر جانبدارانہ اور ایماندار ہی ہے۔ ‘
ساتھ ہی کورٹ نے کہا کہ سی اے اے کی مخالفت کر رہے افراد کو غدار وطن یا ملک مخالف نہیں کہا جا سکتا ہے اور پر امن مظاہرہ کرنے کے ان کے حق پر یقینی طور پر غور کیا جانا چاہیے۔ عدالت نے 13 فروری کو دیے حکم میں کہا، ‘ یہ عدالت کہنا چاہتی ہے کہ ایسے افراد کو غدار وطن یا وطن پرست نہیں کہا جا سکتا ہے، وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ ایک قانون کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں۔ ‘
ججوں نے حکم میں یہ بھی یاد کیا کہ برٹش حکومت کے خلاف آزادی مظاہرہ کے ذریعے ہی حاصل کی گئی تھی۔ کورٹ نے کہا، ‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بدقسمتی ہے لیکن لوگوں کو اب اپنی حکومت کے خلاف تحریک کرنے کی ضرورت ہے، صرف اس بنیادپر تحریک کو دبایا نہیں جا سکتا ہے۔ ‘ عدالت نے کہا کہ اگر تحریک کرنے والے لوگ یہ مانتے ہیں کہ سی اے اے آرٹیکل 14 کے تحت فراہم کردہ ‘ مساوات ‘ کے حق کے خلاف ہے، تو ان کو ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی کا حق ہے۔
عدالت نے آگے کہا کہ یہ یقینی بنانا اس کا فرض ہے کہ شہریوں کے مظاہرے کے حق کو برقرار رکھا جائے۔ یہ طے کرنا اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے کہ مظاہرہ کے پیچھے کی وجہ جائز ہے، یہ اعتماد کا موضوع ہے۔
کورٹ نے کہا، ‘ ہم ایک جمہوری ملک ہیں اور ہمارے آئین نے ہمیں قانون کی حکومت دی ہے، نہ کہ اکثریت کی حکومت۔ جب ایسا قانون بنایا جاتا ہے تو کچھ لوگوں، وہ کسی خاص مذہب کے بھی ہو سکتے ہیں جیسے کہ مسلمان کو لگ سکتا ہے کہ یہ ان کے مفادات کے خلاف ہے اور مخالفت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ان کے نظریہ اور اعتماد کا معاملہ ہے۔ ‘
کورٹ اس نظریہ یا اعتماد کی خوبی کا تجزیہ نہیں کر سکتی ہے۔ کورٹ یہ دیکھنے کے لئے مجبور ہے کہ کیا ان افراد کو تحریک کرنے کا، قانون کی مخالفت کرنے کا حق ہے۔ اگر عدالت یہ پاتی ہے کہ یہ ان کے بنیادی حق کا حصہ ہے، تو یہ طے کرنا عدالت پر نہیں ہے کہ اس طرح کے حق کا استعمال لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کرےگا یا نہیں۔ ‘
آگے عدالت نے کہا کہ یہ حکومت کے ذریعے بنائے گئے قانون کےخلاف لوگوں کا عدم اطمینان ہے اور نوکرشاہی کو، قانون کے ذریعے دی گئی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے حساس ہونے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے آزادی پانے کے بعد کئی قوانین کو رد کر دیا جانا چاہیے تھا، لیکن ان کو اب تک جاری رکھا گیا ہے۔ نوکرشاہی اب ان کا استعمال آزاد ہندوستان کے شہریوں کے خلاف کر رہی ہے۔
عدالت نے کہا کہ نوکرشاہی میں شامل افسر، جن کو اختیارات دیےگئے ہیں، ان کو آئین میں درج بنیادی حقوق کے طور پر شامل انسانی حقوق کی مناسب تربیت کر کے حساس بنانے کی ضرورت ہے۔
بتا دیں کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے بھی شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہرہ کے دوران دفعہ 144 لگانے کو غیر قانونی بتایا ہے۔