عدالت میں بد عنوانی کو لےکر سی بی آئی جانچ اور جوڈیشیل سسٹم پر سخت تبصرے والا حکم منظور کرنے پر چیف جسٹس نے جسٹس راکیش کمار کے سامنے زیر التوا سبھی معاملے کو فوری اثر سے واپس لے لیا تھا۔
نئی دہلی: پٹنہ ہائی کورٹ کے 11 ججوں کی بنچ نے ایک غیر معمولی کارروائی میں ایک دن پہلے جسٹس راکیش کمار کے ذریعے منظور ایک حکم کو گزشتہ جمعرات کو معطل کر دیا، جس میں کمار نے ہائی کورٹ اور مکمل جوڈیشیل سسٹم میں مبینہ ذات پات اور بد عنوانی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ جسٹس راکیش کمار نے گزشتہ بدھ کو منظور اپنے ایک حکم میں ہائی کورٹ اور جوڈیشیل سسٹم میں مبینہ ذات پات اور بد عنوانی پر اپنی تشویش کا اظہار کرنے کے علاوہ نچلی عدالت میں بد عنوانی کے الزام پر سی بی آئی جانچکے حکم بھی دئے تھے۔
اس کے بعد چیف جسٹس جج اے پی ساہی نے 11 ججوں والی ایک بنچ کی تشکیل کی اور ان کی قیادت والی اس بنچ نے جمعرات کو راکیش کمار کے حکم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتی درجہ بندی، حق پرستی اور عدالت کی عظمت پر حملے کے برابر ہے۔ اس کے بعد بنچ نے حکم کو معطل کر دیا۔ اس کے علاوہ 11 ججوں والی بنچ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ سنگل جج کے حکم کے مواد کو کہیں بھی نشر نہیں کیا جائےگا اور ان کے حکم کو آگے کی کارروائی کے لئے ایڈمنسٹریٹو سطح پر چیف جسٹس کے پاس رکھا جائےگا۔
جسٹس کمار نے یہ حکم بد عنوانی کے ایک معاملے میں ملزم سابق آئی اے ایس افسر کے پی رمیا کو ایک عدالت کے ذریعے ضمانت دئے جانے پر از خودنوٹس لیتے ہوئے دیا تھا۔ راکیش کمار نے 23 مارچ 2018 کو رمیا کی پیشگی ضمانت عرضی خارج کر دی تھی جس کے بعد عدالت میں سرینڈر کرنے پر ان کو چھٹی پرہونے والے جج سے ضمانت ملی تھی۔
بہار ہائی کورٹ کے دوسرے سینئر جج کمار نے ہائی کورٹ کے ذریعے رمیا کی پیشگی ضمانت عرضی خارج ہونے کے بعد کورٹ کے جج کے ذریعے ان کو ضمانت دئے جانے پر گہری تشویش ظاہر کی تھی۔ لائیو لا ء کے مطابق، انہوں نے کہا کہ یہ بےحد غیر معمولی صورتحال ہے جہاں رمیا جیسے ‘ بدعنوان افسر’ نے مستقل جج کے بجائے ایک چھٹی پر ہونے والے جج سے ضمانت حاصل کر لی۔
اس کے علاوہ جج کمار نے 2017 میں ری پبلک ٹی وی کے ذریعے چلائے گئے ‘ کیش فار جسٹس ‘ ویڈیو معاملے میں سی بی آئی جانچ کا حکم دیا۔ ویڈیو میں پٹنہ سول کورٹ کے کچھ افسروں کو فیصلہ کرانے کے لئے رشوت لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ کمار نے اپنے حکم میں لکھا کہ انہوں نے اس وقت کےچیف جسٹس سے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرانے اور معاملے کی تفتیش کرانے کی گزارش کی تھی۔ جسٹس کمار نے اس بارے میں کارروائی نہیں ہونے پر گہری مایوسی ظاہر کی اور سی بی آئی جانچکے حکم دئے۔
انہوں نے اپنے حکم میں لکھا، ‘ عام طور پر میں ایسا حکم پاس نہ کرتا، لیکن پچھلے کچھ سالوں سے اس کورٹ نے نوٹس کیا ہے کہ پٹنہ کورٹ میں چیزیں ٹھیک طریقے سے نہیں چل رہی ہیں۔ ‘ کمار نے آگے لکھا، ‘ ہائی کورٹ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ معاملے میں ایف آئی آر درج کراتے اور ایک آزاد جانچ ایجنسی سے اس کی تفتیش کرائی جاتی۔ بدقسمتی سے اس کورٹ نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کورٹ کا جج ہونے کے ناطے میں نے زبانی طور پر کئی ججوں کے سامنے معاملے کو اٹھایا اور اس وقت کے چیف جسٹس سے اس بارے میں بات بھی کی تھی، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ‘
اس لئے جسٹس راکیش کمار نے ایف آئی آر درج کرنے اور اس معاملے میں سی بی آئی جانچکے حکم دئے۔ جسٹس کمار یہیں پر نہیں رکے۔ انہوں نے اپنے کئی دوست ججوں کی تنقید کی اور ان کے ذریعے کئے گئے کاموں پر سوال اٹھایا۔ جج نے کہا کہ ان کو پتہ ہے کہ کس طرح ضمانت عرضیوں میں ہیرپھیر کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ اس ہائی کورٹ میں بد عنوانی ایک کھلا راج ہے۔ ‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جج صحیح انصاف دینے کے بجائے خصوصی اختیارات کا مزہ لینے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ جج عوام کے کروڑوں روپے کو اپنے بنگلہ کی تجدیدکاری میں خرچکر دیتے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کئی جج اپنے من پسند یا اپنی کاسٹ کے لوگوں یا بد عنوان عدالت کے افسروں کو جج بنانے کے لئے چیف جسٹس کی خوشامد کرتے ہیں۔
کمار نے سخت تنقید کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا، ‘ اگر میں یہ سب دیکھتے ہوئے بھی خاموش بیٹھ جاتا ہوں تو میں کبھی بھی اپنے آپ کو معاف نہیں کر پاؤںگا۔ میرا ماننا ہے کہ صرف عدلیہ کی عزت بچانے کے نام پر ہمیں بد عنوانی کو چھپانا نہیں چاہیے۔ نہیں تو عدالتی پروسیس سے عوام کا بھروسہ اٹھ جائےگا۔ ‘
راکیش کمار نے اپنے حکم کو ہندوستان کے چیف جسٹس، وزیر اعظم کے دفتر اور مرکزی وزارت قانون کو بھی فارورڈ کیا ہے۔ کمار کو 26 سال کی وکالت کے بعد 2009 میں جج بنایا گیا تھا۔ وہ ہائی کورٹ سے 31 دسمبر 2020 کو ریٹائر ہوںگے۔
اس سے پہلے پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ذریعے عدالت کی رجسٹری میں شائع ایک نوٹس میں کہا گیا تھا کہ جسٹس کمار کے سامنے زیر التوا سبھی معاملے فوری اثر سے واپس لئے جاتے ہیں اور کورٹ ماسٹر کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ بتائیں کہ کن حالات میں ختم کیا جا چکا معاملہ عدالت کے سامنے سماعت کے لئے لایا گیا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)