پاکستانی حکومت کا سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی پر پابندی عائد کرنے کا ارادہ، ممکنہ پابندی کے خلاف امریکی تنبیہ

12:36 PM Jul 17, 2024 | ڈی ڈبلیو اُردو

پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہیں، لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ اقدام ملک میں ‘غیر یقینی صورتحال اور افراتفری’ کا باعث بن سکتا ہے۔

عمران خان، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

نئی دہلی: پاکستان کے وزرات اطلاعات نے سوموار (15 جولائی ) کہا کہ حکومت جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف  (پی ٹی آئی) پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے اقدامات کرے گی۔

پاکستانی وزیر برائے اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کی سمت میں مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس معاملے میں ضرورت پڑنے پر ہم کابینہ اور سپریم کورٹ سے مشورہ لیں گے۔’

تارڑ نے خان کے خلاف قومی راز افشا کرنے اور فسادات بھڑکانے کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ،’اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔‘

عمران خان کے مشیر ذوالفقار بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایسا کرکے حکومت اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی  مارنے کا کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے پی ٹی آئی کو نیشنل اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کا درجہ دے دیا ہے۔’

عمران خان جیل میں کیوں ہیں؟

سال 2018 سے 2022 تک پاکستان کے وزیراعظم رہے عمران خان تقریباً ایک سال سے جیل میں ہیں۔

حکومت کی جانب سے عمران کی پارٹی پر پابندی عائد کرنے کا اعلان ان کی تیسری شادی سے متعلق ایک مقدمے میں عدالت کی جانب سے رہائی کے حکم کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔ تاہم، عمران فساد بھڑکانے کے الزام میں جیل میں ہی رہیں گے۔

سابق وزیراعظم کے خلاف 100 سے زائد معاملوں میں کئی الزامات درج ہیں۔ کئی معاملوں میں ان کی سزا اور الزامات کو عدالتوں نے یا تو معطل کر دیا ہے یا پلٹ دیا ہے۔

خان کا دعویٰ ہے کہ یہ معاملےاقتدار میں ان کی واپسی کو روکنے کے لیے ان پر عائد کیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ سنایا

پی ٹی آئی کو اس سال کے شروع میں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، جس کے باعث اس کے اراکین کو آزاد امیدوار کے طور پر انتخابی میدان میں اترنا پڑا تھا۔ انتخابی نتائج کے بعد ایسے 93 امیدوار جیت کر پارلیامنٹ پہنچے اور پی ٹی آئی پارلیامنٹ میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔

پارٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پارلیامنٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے انتخابات کے دن بڑے پیمانے پر ووٹنگ میں دھاندلی ہوئی تھی۔ گزشتہ ہفتے پاکستان کی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ پی ٹی آئی کو پارلیامنٹ کی کم از کم 20 نشستوں سے غیر منصفانہ طور پر محروم رکھا گیا تھا۔

عمران خان کو پاکستان کے فوج کے ساتھ اختلافات کے بعد پارلیامنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟

حکومت کا پی ٹی آئی پر پابندی کا اقدام ملک کو سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی طرف دھکیل دے گا۔

اسلام آباد میں ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار ہارون جنجوعہ نے کہا کہ توقع ہے کہ سپریم کورٹ آنے والے دنوں میں اس کوشش کوپلٹ دے گی۔

سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ اقدام حکومت کے زوال کا باعث بنے گا۔

آئینی امور کے ماہر اسامہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے اسلامی شدت پسند جماعت ٹی ایل پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت اس پر پابندی لگا کر ایک خراب  مثال قائم کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ‘پی ٹی آئی کے خلاف اسی مثال کا استعمال کیا جا سکتا ہے’۔

ملک نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا مناسب قانونی طریقہ کار یہ ہوگا کہ کابینہ اسے ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والا قرار دے اور 15 دنوں کے اندر سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجے، اس کے بعد سپریم کورٹ اس سیاسی جماعت کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔

پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی کے خلاف امریکی تنبیہ

دریں اثنا امریکہ کا کہنا ہے کہ ‘کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنا ہمارے لیے یقینی طور پر انتہائی تشویشناک’ بات ہے۔ ادھرپاکستان تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس ممکنہ فیصلے پر تنقید کی اور اسے غیر جمہوری قرار دیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کے حکومتی ارادے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سیاسی کریک ڈاؤن کے آغاز کی نشاندہی کرتے ہیں۔

امریکہ نے کیا کہا؟

پیر کے روز ایک پریس بریفنگ کے دوران جب ”پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندیوں ” کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے  سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ”اقدامات سے سیاسی کریک ڈاؤن کے آغاز کی نشاندہی” ہوتی ہے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ”ہم نے حکومت کی طرف سے وہ عوامی بیانات دیکھے ہیں۔ ہماری سمجھ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی چیز کا آغاز ہوگا، جسے پیچیدہ سیاسی عمل کہتے ہیں۔ لیکن کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنا ہمارے لیے یقینی طور پر انتہائی تشویشناک بات ہے۔”

انہوں نے کہا کہ امریکہ اس طرح کی داخلی پیش رفت اور فیصلوں پر کڑی نظر رکھے گا۔

ملر نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں پر کسی بھی قسم کی پابندیاں تشویشناک بات ہیں، کیونکہ وہ ”انسانی حقوق، آزادی اظہار، آئینی اور جمہوری اصولوں سے متصادم ہوتی ہیں۔”

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ ہمیشہ جمہوری طریقوں، وسیع تر اصولوں اور قوانین کی پاسداری سمیت انصاف کو فروغ دینے والے اقدامات کی حمایت کرتا ہے۔

مختلف سیاسی جماعتوں کا رد عمل

حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے اقدام پر تقریبا ًتمام سیاسی حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے اور اس اقدام کو غیر جمہوری کہا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے علاوہ پی پی پی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ پابندی کی صورت میں اس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ایک پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اس ممکنہ اقدام پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد حکومت کو درپیش ‘شرمندگی‘ کا نتیجہ قرار دیا، جس نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں واپس کر دیں ہیں اور اس طرح پی ٹی آئی پارلیمان کے ایوان زیریں میں سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔

قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”حکومت 240 ملین لوگوں کو جبر، ڈرانے اور ہراساں کر کے خوفزدہ کرنا چاہتی ہے، لیکن پی ٹی آئی ڈرنے والی نہیں۔”

 انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جو لوگ اپنی خواہشات کو قانون کا درجہ دے کر ”ملک کو تباہی اور انارکی کی دلدل میں دھکیلنے پر تلے ہیں” انہوں نے ایسے عناصر کے خلاف جنگ لڑی ہے اور وہ یہ “لڑائی جاری رکھیں گے۔”

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مقبول ترین سیاسی جماعت کو اندھی طاقت سے کچلنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اس سے کسی مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔

پیپلز پارٹی نے بھی حکومت کے اس ممکنہ اقدام سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔ پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی سے خود کو دور رکھتے ہوئے پی پی پی نے کہا کہ اس کی قیادت کو فیصلے کے حوالے سے آن بورڈ نہیں لیا گیا۔

پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا، ”ہم نے بھی اسے دوسروں کی طرح سنا ہے۔ ہمیں سیاست صرف اس لیے کرنی چاہیے کہ ایسے فیصلوں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ دیکھتے ہیں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ میں اپنی پارٹی اور اس کی پالیسیوں کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔”

پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر میاں رضا ربانی نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کی جانب سے کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کی بات جمہوریت کے تمام اصولوں کے خلاف ہے اور حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسا قدم اٹھانے سے باز رہے۔

پی پی پی کے ایک اور رہنما فرحت اللہ بابر نے بھی اس اقدام پر تنقید کی۔ انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا، ” کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے یا سیاسی رہنما کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں بکواس ہیں اور غیر پائیدار ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ سیاسی بحران کے مانند ہو گا۔ خبردار رہو کہ اس خود ساختہ بحران سے پاکستانی جمہوریت، بلکہ خود ریاست کے اس سے نمٹنے کا امکان نہیں ہے۔”

اس رپورٹ کو  ڈی ڈبلیو پریہاں اور یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔