آزادی کے 75 سال: آزادی کے 75 سال بعد بھی آدی واسی کمیونٹی جل، جنگل، زمین، زبان و ثقافت اور اپنی پہچان پر ہورہے حملے کے خلاف لگاتار جدوجہد کر رہی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جھارکھنڈ میں جل، جنگل، زمین کو آباد کرنے کی آدی واسی کمیونٹی کی اپنی شاندارتاریخ رہی ہے۔ آدی واسی کمیونٹی نےخطرناک جنگلی جانوروں سے لڑ کر جنگل اور جھاڑیوں کو صاف کیا،اس کے بعد گاؤں اور زمینوں کو آباد کیا۔ یہ کمیونٹی جنگل، زمین، ندی، پہاڑوں کی گود میں ہی اپنی زبان اور ثقافتی شناخت کے ساتھ ترقی کرتی ہے۔
قدرتی اور ماحولیاتی زندگی کی قدر کے ساتھ آدی واسی کمیونٹی کے تانے بانے کو محفوظ رکھنے اور تیار کرنے کے لیےہی چھوٹا ناگ پور کاشت کاری ایکٹ 1908، سنتھال پرگنہ کاشت کاری ایکٹ 1949 بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی آئین میں 5 ویں شیڈول اور پی ای ایس اے ایکٹ 1996 میں آدی واسی کمیونٹی کے جل، جنگل، پر ان کے کھونٹ کٹی حقوق جو 1932 کے کھتیان ، کھتیان پارٹ ٹو،ویلیز نوٹ سمیت دیگر روایتی حقوق کا اہتمام کیا گیا ہے۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آدی واسیوں کے جنگل–زمین، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی بنیاد کے تحفظ اور ترقی کے لیے ہندوستانی آئین میں خصوصی قانونی اہتمام کیے گئے ہیں۔ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ گاؤں کے حدود کے اندر اور باہر جو قدرتی وسائل ہیں، جیسے گٹی، مٹی، ریت، جھاڑی، جنگل، زمین، ندی، آبشار، سب گاؤں کی اجتماعی ملکیت ہیں۔ اس پر علاقے کے لوگوں کا اجتماعی حق ہے۔
کمیونٹی کے ان تمام حقوق کو سی این ٹی ایکٹ، ایس پی ٹی ایکٹ، پی ای ایس اے ایکٹ، کولہان کے علاقے کے لیے ولکنسن رول، منڈاری کھونٹ کٹی حق کے تحت قانونی منظوری ملی ہوئی ہے۔
یہ تمام حقوق آدی واسی کمیونٹی کے شہیدوں تلکا مانجھی، سدھو، کانہو، پھول جھانو، تلنگہ کھڑیا، سندرائے مانکی، وندرائے مانکی، بیر بدھو بھگت، گیا منڈا، کانو منڈا، برسا منڈا، مانکی منڈا اور جترا ٹانا بھگت سمیت ہزاروں ہیروزکی قیادت میں ایک طویل جدوجہد اور شہادت کے بعد ملے۔ ان آدی واسیوں نے انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا، جوآج بھی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں سنہری حرفوں میں درج ہے۔
(تصویر: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
آزادی کے بعد بھی آدی واسی کمیونٹی جل، جنگل، زمین، زبان و ثقافت اور اپنی پہچان پر ہورہےحملے کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔ جنگل اور زمین کے تحفظ کے لیےآدی واسیوں نے ذات پات ،مذہب اور سیاست سے اوپر اٹھ کر جیت کا پرچم لہرایاہے۔
پلامو-گملا حلقہ کے 256 گاؤں کو نقل مکانی سے روکنے کے لیے 45 سالوں سے جدوجہد کر رہی کیندریہ جن سنگھرش سمیتی-پلامو-گملا،کائیل ندی اور کارو ندی پر ڈیم بناکر 245 گاؤں کو تباہ کر نے والی ہائیڈل پروجیکٹ کے خلاف 40 سالوں سے مسلسل جدوجہد کر رہی کائیل کاروں جن سنگٹھن نے بھی جیت حاصل کی ہے۔
جھارکھنڈ 15 نومبر 2000 کو الگ صوبہ بنا۔ ریاست کی تشکیل کے ساتھ ہی اس وقت کی بی جے پی حکومت نے بڑے سرمایہ کاروں کو یہاں مدعو کرنا شروع کیا۔ 4 سال کے اندر حکومت نے 150 سو سے زائد کمپنیوں کے ساتھ ایک ایم او یو پر دستخط کیے، جس کے خلاف آدی واسی کمیونٹی منظم طاقت کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔
کھونٹی–گملا ضلع کی نامی ا سٹیل کمپنی آرسیلر متل تقریباً 40 گاؤں کو ہٹا کر اسٹیل پلانٹ لگانا چاہتی تھی، لیکن علاقے کےآدی واسیوں نے نعرہ دیا کہ ہم ایک انچ زمین نہیں دیں گے۔ مشرقی سنگھ بھوم میں بھوشن اسٹیل اور جندل اسٹیل کمپنی کی مخالفت ، دمکا کے کاٹھی کڈ علاقے میں کول کمپنی کے ذریعے زمین کے حصول کے خلاف جدوجہد نے بھی کامیابی حاصل کی۔
کیا کھویا، کیا پایا
آزادی کے 75 ویں سال میں آدی واسی کمیونٹی نے کیا کھویا، کیا پایا ؟ اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ آزادی کے بعد ترقی کے نام پر 22 لاکھ ایکڑ سے زیادہ جنگل–زمین مختلف اسکیموں کے لیے حاصل کی گئی ہے۔ شہرکاری کی وجہ سے ہر سال لاکھوں ایکڑ اراضی آدی واسیوں کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔
ریاست کے زمین مالک اب لاکھوں کی تعداد میں یومیہ اجرت والے مزدور بنتے جارہے ہیں۔ 2 کروڑ سے زیادہ افرادبے گھر ہو چکے ہیں، جو روزی روٹی کے لیے در در بھٹک رہے ہیں۔ اپنی ہی ریاست میں، آدی واسی کمیونٹی اقلیت بن کر 26.2 فیصد ہوگئی ۔ آنے والی مردم شماری تک اس میں مزید کمی آئے گی۔
آدی واسی علاقوں کو تعلیم اور صحت کے میدان میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ان کی تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ مجموعی ترقی کے لیےٹرائبل سب پلان کے لیےآئی رقم کو دوسرے مدوں میں منتقل کیا جاتا رہا ہے۔ اس پیسے سے جیل، روڈ، ہوائی اڈے بنائے گئے۔ اس طرح اس آبادی کو ترقی کے نام قربان کیا جا رہا ہے۔
جھارکھنڈ سمیت پورے ملک میں رہنے والے آدی واسیوں نے جینوں کی تعداد کو بنیاد بناتے ہوئے سرنا دھرم کوڈ کی مانگ کو تیز کر دیا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ملک میں جینوں کی آبادی کا تخمینہ 4451753 لگایا گیا ہے۔ آدی واسی سماج کا استدلال ہے کہ جب ان کا علیحدہ مذہبی کوڈ ہو سکتا ہے تو پھر ملک بھر میں رہنے والے 104281034 فطرت کی پرستش کرنے والےآدی واسیوں کا الگ مذہبی کوڈ کیوں نہیں ہو سکتا۔
جھارکھنڈ کی تشکیل کے بعد آدی واسیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ صرف جھارکھنڈ کی بات کریں تو کوئی نہیں جانتا کہ 30 لاکھ آدی واسی کس مذہب میں شمار ہوئے، یا وہ کہاں گئے۔ جھارکھنڈ کی تمام سیاسی پارٹیاں سرنا دھرم کوڈ کے حق میں ہیں، لیکن 17 سالوں میں آج تک کسی نے بھی سرنا دھرم کوڈ کو لاگو کرنے کی پہل نہیں کی ہے۔
سرنا دھرم کوڈ ملنے سےآدی واسی کمیونٹی کو پہچان ملے گی، ساتھ ہی مذہب کے نام پر جاری فرقہ وارانہ کھیل پر بھی لگام لگے گا۔
سال 2014 کے بعد پورے ملک کے عوامی حقوق سے متعلق آئینی پالیسیوں میں تبدیلی نے اس طرح کی کمیونٹی کے حقوق پر حملہ کیا ہے۔ اب گلوبل پالیسی، گلوبل پونجی،گلوبل بازار نے کمیونٹی کے روایتی حقوق کو بدل کر اس کی جگہ کارپوریٹ مفادات نے لے لیا ہے۔
ملک کی حکومتیں اب کارپوریٹ مفاد کو ترجیح دے رہی ہیں۔ ایسے میں بھی یہ طبقہ جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ آج ملک میں عوامی سیاست کی جگہ ذات پات اور مذہب نے لے لی ہے۔ اس کا گہرا اثر اس کمینوٹی پرپڑرہاہے۔
آج عوامی سروکار، آئینی حقوق، انسانی حقوق، جنگل اور زمین کا حق، تعلیم اور صحت کے حق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو حکومت کی نظر میں ملک دشمن قرار دے کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ آج ایک نہیں ہزاروں چیلنجز سامنے ہیں۔
پانچویں شیڈول، پی ای ایس اے ایکٹ، فاریسٹ رائٹ ایکٹ، سی این ٹی ایکٹ، ایس پی ٹی ایکٹ جیسے تمام قوانین اب کاغذ پر ہیں، انہیں غیرمؤثر بنایا جا رہا ہے۔ شیڈول ایریا کو انتہائی پسماندہ علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ اراضی کے ریکارڈ کے ڈیجیٹائزیشن کی وجہ سے ان کی زمینیں اندھا دھند دوسروں کے قبضے میں جا رہی ہیں۔ راتوں رات زمین کے ریکارڈ پر اصل مالک کا نام تبدیل کرکے دوسرے کا نام درج کیا جا رہا ہے۔
اس وقت مرکزی حکومت کی طرف سے لائی جا رہی ملکیتی اسکیم کے تحت جائیداد بنانے کے نام پر پانچویں شیڈول ایریا، سکستھ شیڈول ایریا، سی این ٹی، ایس پی ٹی ایکٹ، منڈاری کھٹکٹی ایریا، ولکنسن رول میں اہتمام کمیونٹی کی پراپرٹی کمیونٹی کی زمین، جنگل، پانی کے ذرائع کو حکومت گاؤں کے حقوق سے چھین کر اپنے قبضے میں کر رہی ہے۔
آنے والے وقتوں میں روایتی آدی واسی گاؤں پوری طرح سے غائب ہو جائیں گے۔ ان کا روایتی نظام اور اختیار پوری طرح سے ختم ہو جائے گا۔ ‘دھرم رکشا’ کے نام پر ماب لنچنگ کے واقعات کوکھلے عام انجام دیا جا رہا ہے۔ مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے نام پر کمیونٹی میں مذہبی تعصب کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف، کمیونٹی کو ذات پات اور مذہب میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ عوامی تحریکیں، ملک کے وفاقی ڈھانچے، عوامی اداروں کو کچلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ایک ہی راستہ ہے کہ ریاست اور ملک کے تمام متاثرہ طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر آکر کمیونٹی کی منظم قوت کو مضبوط کریں۔
(دیامنی بارلا آدی واسی، مول نواسی استتو رکشا منچ کی بانی ہیں۔)