بہار ووٹر لسٹ رویژن: 71 فیصد دلت رائے دہندگان کو ہے ووٹ کے حق سے محروم  ہونے کا خدشہ

11:05 AM Jul 22, 2025 | شراوستی داس گپتا

ملک کی سرکردہ دلت تنظیموں کی ایک آرگنائزیشن نیشنل کنفیڈریشن آف دلت اینڈ آدی واسی آرگنائزیشن کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریاست کے 71فیصد سے زیادہ دلت رائے دہندگان کواسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کے عمل کی وجہ سے اپنے  ووٹ کے حق سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔

سروے میں بہار کی درج فہرست ذات کے کل 18,581 لوگوں کی رائے لی گئی ہے۔ ایس آئی آر کی وجہ سے ووٹ کا حق کھونے سے متعلق سوال 8,500 لوگوں سے پوچھے گئے، جن میں سے 71.55 فیصد لوگوں نے کہا کہ انہیں ووٹ کا حق کھونے کا خدشہ ہے۔ (فائل فوٹو: پی آئی بی)

نئی دہلی: بہار میں اسمبلی انتخابات سے قبل جاری کیے گئے ایک نئے سروے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ریاست کے 71 فیصد سے زیادہ دلت رائے دہندگان  کو اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کے عمل کی وجہ سے اپنے ووٹ  کے حق سے محروم ہو جانے  کا خدشہ ہے۔

تاہم، حق رائے دہی سے محروم ہونے کے اس خوف کے باوجود، 51.22فیصد دلت ووٹروں نے الیکشن کمیشن پر اعتماد ظاہر کیا ہے، جبکہ 27.42فیصدکو کمیشن پر بھروسہ نہیں ہے۔

یہ سروے 10 جون اور 4 جولائی کے درمیان نیشنل کنفیڈریشن آف دلت اینڈ آدی واسی آرگنائزیشن(این اے سی ڈی اے او آر) نے کیا تھا، جو ملک کی سرکردہ دلت تنظیموں کی ایک آرگنائزیشن ہے۔

معلوم ہو کہ سال 2023 کی بہار کاسٹ سروے رپورٹ کے مطابق، ریاست کی کل آبادی میں درج فہرست ذاتوں کا حصہ تقریباً 19 فیصد ہے۔

سروے میں بہار کی درج فہرست ذات (ایس سی) کے کل 18,581 لوگوں کی رائے لی گئی۔ایس آئی آر کی وجہ سے ووٹ  کے حق سے محروم ہوجانے کے خوف سے متعلق  8500 لوگوں سے سوال پوچھے گئے۔

نتائج کے مطابق، ان 8,500 افراد میں سے 5,983 (71.55فیصد) نے کہا کہ انہیں اپنے ووٹ کے حق سے محروم ہونے کا خدشہ ہے، 1,959 (23.43فیصد) نے کہا کہ انہیں ایسا کوئی خوف نہیں ہے اور 419 (5.01فیصد) نے اس پر کوئی رائے نہیں دی۔

ریاست میں 71فیصد سے زیادہ دلت رائے دہندگان کو اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کے عمل کی وجہ سے اپنے ووٹ کے حق سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔

سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ 15,403 (82.89فیصد) دلت ووٹر چاہتے ہیں کہ بہار میں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ ذاتوں کے لیے ریزرویشن کی حد کو بڑھایا جائے۔ جبکہ 9.76 فیصد نے کہا کہ یہ غیر ضروری ہے اور 7.34 فیصد نے اس پر کوئی رائے نہیں دی۔

سال 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے حزب اختلاف کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے درمیان مرکزی حکومت نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ آنے والی مردم شماری میں ذات پر مبنی ڈیٹا بھی شامل کیا جائے گا۔ مرکزی حکومت نے بتایا ہے کہ ذات پات پر مبنی یہ مردم شماری 1 اکتوبر 2026 سے دو مرحلوں میں شروع ہوگی۔

سروے کے دوران جب پوچھا گیا کہ ذات پر مبنی مردم شماری کا کریڈٹ کس کو دیا جانا چاہیے، تو 33.15فیصد نے وزیر اعظم نریندر مودی، 30.81فیصد نے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی اور 27.57فیصد نے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کواس کا کریڈٹ دیا۔

سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ آنے والے انتخابات میں دلت ووٹروں کے لیے بے روزگاری سب سے اہم ایشوہے۔ 58.85فیصد نے کہا کہ بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے، جبکہ 14.68فیصد نے کہا کہ صحت اور تعلیم، 11.21فیصدنے کہا کہ بدعنوانی، 9.45فیصد نے کہا کہ امن و امان اور 5.81فیصدنے کہا کہ نقل مکانی بنیادی مسئلہ ہے۔

قومی سطح پر 47.51فیصد لوگوں نے نریندر مودی کو لیڈر کے طور پر ترجیح دی جبکہ 40.30فیصد لوگوں نے راہل گاندھی کو ترجیح دی۔ ریاستی سطح پر، تیجسوی یادو کو سب سے زیادہ مقبول لیڈر پایا گیا، 28.14فیصد ووٹروں نے انہیں ترجیح دی، 25.88فیصد نے لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے رہنما اور مرکزی وزیر چراغ پاسوان کو منتخب کیا اور 22.8فیصد نے وزیر اعلی نتیش کمار کی حمایت کی۔

تیجسوی یادو کو ریاستی سطح پر دلتوں کے درمیان سب سے زیادہ مقبول لیڈر پایا گیا، 28.14 فیصد ووٹروں نے انہیں پسند کیا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ نتیش کمار حکومت نے ریاست میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے،تو 45.46 فیصد نے ‘اچھا’ اور 48.44 فیصد نے ‘خراب’ کہا۔ تاہم، 6.1فیصد نے کوئی رائے نہیں دی۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئےاین اے سی ڈی اے او آرکے صدر اشوک بھارتی نے کہا، ‘یہ دلتوں کا پہلا سروے ہے، جو خود دلتوں نے ہی کیا ہے۔’

یہ سروےدی کنورجنٹ میڈیاکے ساتھ مل کر کیا گیا ہے۔ بھارتی نے بتایا کہ سروے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے پتہ چلا کہ دوسرے سروے اکثر دلتوں تک نہیں پہنچتے یا وہ سچ بتانے سے ڈرتے ہیں۔

بھارتی نے کہا، ‘یہ ایک منفرد سروے ہے، جس میں دلتوں نے دلتوں سے بات کی ہے۔ ہم نے دلت کارکنوں کی شناخت کی اور انہیں تربیت دی ہے تاکہ وہ کمیونٹی کی صحیح رائے سامنے لا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک مستند سروے ہے۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)