سنبھل انتظامیہ نے اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو مسجد کے سروے کے دوران تشدد میں مارے گئے پانچ مسلمانوں کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ضلع کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کی مبینہ پولیس زیادتیوں کے متاثرین تک رسائی کو روکنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔
شاہی جامع مسجد کے قریب کھڑے کیے گئے پولیس بیریکیڈ (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر)
نئی دہلی: اپوزیشن جماعتوں میں غصہ ہے کہ سنبھل انتظامیہ نے انہیں 24 نومبر کو مغلیہ دور کی مسجد کے سروے کے دوران پولیس تشدد میں مارے گئے پانچ مسلمانوں کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ضلع کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
سماج وادی پارٹی (ایس پی)، کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ-لیننسٹ) لبریشن (سی پی آئی ایم ایل لبریشن) کے سینئر لیڈروں اور منتخب نمائندوں کے ایک وفد نے سنبھل جانے کی کوشش کی، لیکن ریاستی پولیس نے انہیں وہاں جانے سے روک دیا۔ ان میں سےکئی کو یا تو عارضی طور پر گھروں میں نظر بند کر دیا گیا یا پھر ان کی گاڑیوں کو زبردستی لوٹنے پر مجبور کر دیا گیا۔
گزشتہ 30 نومبر کو ایس پی کے 15 رکنی وفد کو صورتحال کا جائزہ لینے اور متاثرین کے اہل خانہ سے ملنے سنبھل جانے سے روکے جانے کے بعدپولیس نے 1 اور 2 دسمبر کو بالترتیب سی پی آئی (ایم ایل-ایل) اور کانگریس کی ٹیموں کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائیاں کیں۔
ضلع انتظامیہ نے متعلقہ حکام کی اجازت کے بغیر کسی باہری شخص، سماجی تنظیم یا عوامی نمائندے کے سنبھل میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پابندی 10 دسمبر تک نافذ رہے گی۔
ڈی ایم راجندر پنسیا کے مطابق، باہری لوگوں کے داخلے اور پروگراموں پر پابندی ضروری ہے کیونکہ 24 نومبر کے پرتشدد واقعے کے بعد صورتحال ‘انتہائی حساس’ ہے۔ 29 نومبر کو جاری کردہ ایک حکم نامے میں پنسیا نے کہا کہ انتظامیہ کو باوثوق ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ کچھ ‘سماج دشمن عناصر’ امن و امان کو بگاڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ضلع مجسٹریٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندیاں فسادات اور نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے لگائی گئی ہیں۔
انتظامیہ نے دلیل دی ہے کہ یہ پابندیاں امن و امان کی صورتحال کو روکنے کے لیے لگائی گئی ہیں، جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی جانب سے مبینہ پولیس زیادتیوں کے متاثرین تک رسائی میں رکاوٹ ڈالنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔
انہوں نے ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ الزام لگایا ہے کہ متاثرین کو پولیس نے گولی ماری تھی، انتظامیہ نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔
اتر پردیش میں اپوزیشن لیڈر ماتا پرساد پانڈے نے پولیس کے ذریعےسنبھل جانے سے روکے جانے کے بعد صحافیوں سے کہا، ‘حکومت جان بوجھ کر ہمیں روک رہی ہے تاکہ وہ اپنے کیے کو چھپا سکے۔’
سینئر ایس پی ایم ایل اے پانڈے نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب جوڈیشل کمیشن کی ٹیم اور باہر سے میڈیا کو داخلے سے منع نہیں کیا گیا تو ایس پی کے وفد کو دورہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے۔
پانڈے نے پوچھا، ‘ان کے داخلے سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے۔ لیکن اگر ہم وہاں جائیں گے تو کیا افراتفری پھیل جائے گی؟’
ایس پی صدر اکھلیش یادو نے پولیس کی نظربندی کی مذمت کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر سنبھل میں داخلے کو روکنے کے لیے پابندیاں لگائی گئی تھیں تو ایس پی کے سینئر لیڈروں کو لکھنؤ میں اپنے گھروں سے باہر کیوں نہیں آنے دیا گیا۔ یادو نے پوچھا، ‘کیا بی جے پی حکومت نے پوری ریاست میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے؟’
اتوار کو سی پی آئی ایم ایل لبریشن کا ایک وفد جس کی قیادت ایم پی سداما پرساد کر رہے تھے، جو ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن پر سنبھل جا رہا تھا، مراد آباد میں روک دیا گیا۔ پارٹی نے کہا کہ مقامی پولیس نے انہیں ‘ نظر بند’ کر دیا۔
پارٹی نے آدتیہ ناتھ حکومت پر ‘سچائی کو سامنے آنے سے روکنے کے اپنے شرمناک ریکارڈ’ کے مطابق کام کرنے کا الزام لگایا۔
پارٹی نے کہا، ‘پارلیامنٹ میں بحث کوئی چرچہ نہیں ہونے دی جا رہی ہے، اتر پردیش اور دہلی میں احتجاجی مظاہرہ کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، عوامی نمائندوں کو سنبھل میں متاثرین سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مرکز اور ریاست کی ڈبل انجن حکومت سنبھل میں مسلمانوں کے قتل پر کسی بھی طرح کی بحث اور احتجاج کو روکنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔’
سوموار کو ایس پی لیڈر اور سنبھل کے ایم پی ضیاء الرحمان برق نے کہا کہ ان کی پارٹی کے لیڈروں نے متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ وہ تشدد میں پولیس اور انتظامیہ کے مبینہ کردار کے بارے میں صحیح معلومات اکٹھی کر سکیں۔
برق نے کہا، ‘ہمیں روکنے کا کیا مطلب ہے؟ ہم وہاں جا کر متاثرین کے اہل خانہ سے ملنا چاہتے ہیں اور پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے بگڑے ہوئے حالات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔’
لکھنؤ میں کانگریس کے اتر پردیش ہیڈکوارٹر کے باہر ڈرامائی واقعات کے درمیان پولیس نے پارٹی لیڈروں کو باہر جانے سے روک دیا۔ اتر پردیش کانگریس کے صدر اجئے رائے کی قیادت میں کانگریس کارکنوں اور لیڈروں نے سڑک پر احتجاج کیا۔
رائے نے کہا، ‘اگر ہم سنبھل میں امن بحال کرنا چاہتے ہیں تو حکومت کو کیا اعتراض ہے؟ اگر حکومت نے سنبھل میں وہی چوکسی دکھائی ہوتی جیسی وہ ہمیں روکنے میں دکھا رہی ہے تو پانچ معصوم لوگوں کی جانیں نہ جاتیں۔’
کانگریس لیڈر اور سابق ایم ایل اے نے کہا کہ جیسے ہی انتظامیہ پابندی ہٹاتی ہے، پارٹی ایک اور وفد سنبھل بھیجے گی۔
سنبھل کے ڈی ایم پنسیا نے سنیچر کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے پابندی کو درست قرار دیا اور کہا کہ یہ پابندی معاملے کی ‘حساسیت’ اور احتیاط کی وجہ سے لگائی گئی ہے۔
تاہم، پنسیا نے اصرار کیا کہ وہاں حالات معمول پر آ گئے ہیں۔
دوسری طرف، بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے ایس پی پر سنبھل کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔
اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے کہا، ‘سنبھل میں فساد ایس پی کی اس سازش کا حصہ ہے، جس کے اصلی معمار اور ‘فرضی پی ڈی اے’ کے آپریٹر خود اکھلیش یادو ہیں۔ انتخابات میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے اس طرح کی کوششیں کرکے ریاست کے پرامن ماحول کو خراب کرنے اور ریاست کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں )