پارلیامنٹ کا سرمائی اجلاس سوموار کو شروع ہوا ہے، جس میں اپوزیشن جماعتوں نے ایس آئی آر، دہلی بم بلاسٹ کے بعد قومی سلامتی، اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی جیسے مسائل پر بحث کا مطالبہ کیا۔ دریں اثنا، وزیر اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پارلیامنٹ میں ڈراما نہیں ڈیلیوری ہونی چاہیے۔ نعروں کے لیے پورا ملک خالی پڑا ہے۔
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے دن، سوموار، دسمبر 1، 2025 کو نئی دہلی میں میڈیا سے خطاب کر تے ہوئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سوموار (1 دسمبر) کو شروع ہونے والے پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس سے پہلے حکومت نے اتوار (30 نومبر) کو ایک آل پارٹی میٹنگ کی، جس میں اپوزیشن جماعتوں نے اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر)، دہلی بم بلاسٹ کے بعد قومی سلامتی اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی جیسے مسائل پر بحث کا مطالبہ کیا۔
دریں اثنا، سرمائی اجلاس کے آغاز سے قبل پارلیامنٹ کے باہر وزیر اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بہار انتخابات میں اپنی شکست سے کئی پارٹیاں پریشان ہیں۔ اپوزیشن اپنی شکست کی مایوسی سے باہر نکلے۔ انہوں نے کہا،’ جن کوڈراما کرنا ہے وہ کرتے رہیں۔ یہاں ڈراما نہیں ڈیلیوری ہونی چاہیے، نعروں کے لیے بھی، جتنے نعرے لگانے ہیں… پورا ملک خالی پڑاہے،ابھی جہاں سے ہار کر آئے ہو وہاں بول چکے ہو اور اب کو جہاں ہارنے والے ہووہاں بھی بول دیجیے۔’
انہوں نے کہا، ‘یہاں زور پالیسی پر ہونا چاہیے، نعروں پر نہیں۔ اور یہی ہماری نیت ہونی چاہیے۔’
اس سے پہلے اتوار کی میٹنگ میں حکومت کی جانب سے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، پارلیامانی امور کے وزیر کرن رجیجو، وزیر قانون ارجن رام میگھوال اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر اور راجیہ سبھا میں قائد ایوان جے پی نڈا کے علاوہ 36 سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
‘شاید سب سے چھوٹا سرمائی اجلاس‘
میٹنگ کے بعد لوک سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گورو گگوئی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود ہی سرمائی اجلاس کو صرف 19 دنوں کا کرکے پارلیامنٹ کو پٹری سے اتارنا چاہتی ہے۔
انہوں نے صحافیوں سے کہا،’حکومت پارلیامانی روایات کو ختم پرمصر ہے۔ سرمائی اجلاس صرف 19 دن کا ہو گا، جس میں سے صرف 15 ہی بحث کے لیے وقف ہوں گے۔ یہ ممکنہ طور پر اب تک کا سب سے مختصر سرمائی اجلاس ہو گا۔ پارلیامانی اجلاس بلانے میں بھی تاخیر ہوئی ہے، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود پارلیامنٹ کو پٹری سے اتارنا چاہتی ہے۔’
گگوئی نے کہا کہ میٹنگ کے دوران اپوزیشن ارکان نے دہلی میں ہوئےدھماکے کے بعد سیکورٹی کا مسئلہ اٹھایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا مسئلہ جمہوریت کی سلامتی کا ہے۔ جس طرح سے الیکشن کمیشن کسی کی سائیڈ لے رہا ہے، ووٹر لسٹ اور انتخابات کی حفاظت ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمارا تیسرا مطالبہ تحفظ صحت تھا، ملک کے کونے کونے میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے پیش نظر، چوتھا مسئلہ ہماری معاشی سلامتی تھی، کسانوں اور مزدوروں کو مناسب اجرت نہیں مل رہی ہے، پانچواں مسئلہ جوہم نے اٹھایا، وہ قدرتی آفات سے تحفط کا تھا اور جس طرح سےسیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ اور طوفان آ رہے ہیں، اس کی کوئی تیاری نہیں ہے۔’
ایس آئی آر پر بحث کے مطالبے پر اپوزیشن کا اتفاق
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے ایم پی جان برٹاس نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں ایس آئی آر پر بحث کا مطالبہ کرنے پر متفق ہیں، جو 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جاری ہے۔
میٹنگ کے بعد برٹاس نے کہا، ‘اپوزیشن جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ قومی سلامتی، دیہی پریشانیوں اور وفاقی مسائل کے ساتھ ساتھ ایس آئی آر کے معاملے پر بات کی جانی چاہیے، گورنر ریاستی اسمبلیوں سے منظور شدہ بلوں پر کیسے غور کرتے ہیں… اپوزیشن اور دیگر جماعتوں نے مختلف مسائل اٹھائے۔’
انہوں نے کہا،’میں نے یہ بھی بتایا کہ پارلیامانی امور کے وزیر نے ریکارڈ پر کہا ہے کہ ایس آئی آر پر تو نہیں ، لیکن حکومت اگر یہ مسئلے اصلاحات کے لیے اٹھائے جاتے ہیں ، تو حکومت بحث کے لیے تیارہے۔ ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں، انہیں موضوع کو وسعت دینے اور انتخابی عمل کو بہتر کرنے دیں۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ یہ حکومت پر منحصر ہے کہ یہ سرمائی اجلاس خوش اسلوبی سے چلے گا یا نہیں۔’
واضح ہو کہ اس سال پارلیامنٹ کا مانسون اجلاس بغیر کسی کارروائی کے چلاگیا، کیونکہ اپوزیشن اراکین کے ایس آئی آر پر بحث کے مطالبات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ حزب اختلاف کے ارکان نے کہا کہ اگرچہ سرمائی اجلاس کے دوران پارلیامنٹ کو روکنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے، لیکن ٹریژری بنچ کو ‘دانشمندی’ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔’
ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے ایم پی کلیان بنرجی نے کہا،’ہم اب بھی امید کرتے ہیں کہ چونکہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے ایس آئی آر پر بحث کا مطالبہ کیا ہے، اس لیے وزارت میں اچھی سمجھ آئے گی اور وہ ایس آئی آر پر بحث شروع کرے گی۔ انہیں یہ عزم ظاہر کرنا چاہیے۔’
رجیجو نے کہا کہ میٹنگ میں کچھ ممبران نے کہا تھا کہ اگر ایس آئی آر پر بحث نہیں کی گئی تو ہنگامہ ہو سکتا ہے، لیکن کسی پارٹی نے یہ نہیں کہا کہ وہ پارلیامنٹ کو کام کرنے نہیں دیں گے۔
میٹنگ کے بعد رجیجو نے کہا، ‘کسی نےیہ نہیں کہا کہ پارلیامنٹ کام نہیں کرے گی یا اسے چلنے نہیں دیں گے۔ کچھ لیڈروں نے کہا کہ وہ ایس آئی آر کو لے کر پارلیامنٹ میں ہنگامہ کھڑا کر سکتے ہیں۔ میں یہ مثبت طور پر کہہ رہا ہوں: ہم اپوزیشن کو سننے کے لیے تیار ہیں۔ پارلیامنٹ سب کی ہے، یہ ملک کی ہے۔ پارلیامنٹ میں ہر معاملے پر بات کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اصول اور روایات ہیں جن کے تحت پارلیامنٹ میں کام ہوتا ہے۔’
رجیجو نے میٹنگ کو مثبت بتایا اور کہا کہ تجاویز کو بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا،’میٹنگ بہت اچھی اور بہت مثبت رہی۔ میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، سب نے شرکت کی اور اپنی پارٹی کے خیالات کا اظہار کیا۔ ہم آج سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے موصول ہونے والی تمام تجاویز پر غور کریں گے اور پھر انہیں بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے سامنے پیش کریں گے۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیے
یہاں کلک کریں ۔