جموں و کشمیرانتظامیہ کے حکام نے بتایا کہ پرتشددمظاہروں کےخدشات کے مدنظرسرینگر اور گھاٹی کے دوسرے حصوں میں کرفیو لگایا گیا ہے، کیونکہ علیحدگی پسنداور پاکستان اسپانسرڈتنظیمیں پانچ اگست کو یوم سیاہ منانے کامنصوبہ بنا رہے ہیں۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے ایک سال مکمل ہونے سے پہلے منگل کو پوری گھاٹی میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ پانچ اگست کوعلیحدگی پسندوں کے یوم سیاہ منانے کےمنصوبے اورپاکستان اسپانسرڈتنظیموں کے پرتشدد مظاہروں کے خدشات کے مد نظر یہ کرفیو لگایا ہے۔
حکام نے بتایا کہ گھاٹی میں پولیس اور سی آر پی ایف اہلکاروں کو بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ یہ یقینی ہو سکے کہ امن و امان کو خراب کرنے کی علیحدگی پسندوں کی منشا کامیاب نہ ہو۔حکام نے سوموار کواعلان کیا تھا کہ جان ومال کو خطرے میں ڈالے جانے والےپرتشددمظاہروں کے خدشات کے مد نظر سرینگر اور گھاٹی کے دیگر حصوں میں کرفیو لگایا جائےگا کیونکہ علیحدگی پسنداور پاکستان اسپانسرڈتنظیمیں پانچ اگست کو یوم سیاہ منانے کامنصوبہ بنا رہے ہیں۔
نوبھارت ٹائمس کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ جموں و کشمیر میں دو دن کرفیو لگانے کا فیصلہ سرینگر میں سوموار کو منعقدسکیورٹی کور گروپ کی میٹنگ میں لیا گیا۔ اس کی صدارت فوج کے سرینگر ہیڈ کوارٹر کے 15 کور کے جی اوسی لیفٹیننٹ جنرل بی ایس راجو نے کی تھی۔اس کے بعد سرینگر کے ضلع مجسٹریٹ شاہد اقبال چودھری نے 4 اور 5 اگست کو سرینگر میں کرفیو لگانے کا آرڈر دیا۔
چودھری کی جانب سےسوموار کو جاری آرڈر میں کہا گیا ہے، ‘مذکورہ رپورٹ میں سامنے آئےحقائق پرغور کرنے اورموجودہ عوامل کے پس منظرمیں صورت حال کا اندازہ کرنے کے بعد میں،ضلع مجسٹریٹ، سرینگر، سی آر پی سی کی دفعہ 144کے تحت فراہم اختیارات کے مطابق ضلع سرینگر کےسرحدی دائرہ اختیار میں لوگوں کی آمدورفت پرمکمل پابندی یا کرفیو کا آرڈر دیتا ہوں۔’
حالانکہ،ہیلتھ ایمرجنسی اور قانونی پاس یا کارڈ والے کووڈ 19 ڈیوٹی پر موجودا سٹاف کوپابندیوں سے چھوٹ ہوگی۔حکام نے بتایا کہ لاؤڈاسپیکر سے لیس پولیس گاڑیوں نے علاقوں میں جاکر دو دن کے لیے سخت کرفیو لگائے جانے کا اعلان کیا۔پولیس نے کہا، ‘لوگوں سے قانون کی خلاف ورزی نہیں کرنے اور گھروں کے اندر رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔’
سرینگر شہر سمیت کشمیر کےسینکڑوں مقامات پر بلاکرز لگائے گئے ہیں تاکہ ضروری اورایمرجنسی خدمات کی آمدورفت کوریگولر کیا جا سکے جبکہ خاردار تاریں بھی بچھائی گئی ہیں۔سرینگر ضلع مجسٹریٹ شاہد اقبال چودھری نے کہا کہ کوئی بھی عوامی بھیڑ کووڈ 19 کی روک تھام سے متعلق کوششوں کو بھی نقصان پہنچائے گی۔
چودھری نے کہا کہ معاملوں میں حالیہ اضافہ کو دیکھتے ہوئے انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لوگوں کی آمدورفت اورجمع ہونے پر بھی پابندی ہوگی۔سرینگر انتظامیہ کے اس قدم پر گزشتہ مارچ مہینے میں حراست سے رہا ہوئے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نےطنز کرتے ہوئے کہا کہ اس بار 2019 کے مقابلے 24 گھنٹے پہلے ہی تیاریاں شروع ہوئی ہیں۔
انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘سرینگر میں 2019 کے مقابلے اس سال کی تیاری 24 گھنٹے پہلے شروع ہوئی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ پوری گھاٹی کو اگلے دو دنوں تک ایسے ہی سخت کرفیو میں رکھا جائےگا۔’
The preparations start a full 24 hours earlier this year compared to 2019 with Srinagar, and I presume the same is being done across the valley, being placed under strict curfew from tonight for the next two days. pic.twitter.com/WBpCAxrs2G
— Omar Abdullah (@OmarAbdullah) August 3, 2020
وہیں، جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی)کی صدر محبوبہ مفتی نے ردعمل دیتے ہوئے ٹوئٹ کرکے کہا کہ جیسا کہ پہلے ہی اندازہ تھا کہ پانچ اگست کو عام حالات بنانے کے لیے سرینگر میں دفعہ144نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ فوج کی اضافی تعیناتی چل رہی ہے اور شہر خاردار تاروں، پولیس گاڑیوں اور بیریکیڈ کی بھول بھلیاں میں کھو گیا ہے۔
As expected, ‘normalcy acrobatics’ for 5th August are underway with imposition of Section 144 in Srinagar along with additional deployment of troops & the city lost in a maze of concertina wires, police vans & barricades. pic.twitter.com/uch8Jlb27V
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) August 3, 2020
غورطلب ہے کہ پچھلے سال پانچ اگست کو مرکز کی مودی سرکار نے جموں و کشمیر کوخصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کے اکثر اہتماموں کو ختم کر دیا تھا اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری میں تقسیم کر دیا تھا۔اس کے بعدسابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت مین اسٹریم رہنماؤں سمیت سینکڑوں لوگوں کو پی ایس اے کے تحت حراست میں لے لیا گیا تھا۔
حال کے کچھ مہینوں میں جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ سمیت کئی لوگوں کو رہا کیا گیا ہے۔سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سمیت کئی رہنما ابھی بھی نظربند ہیں۔ حال ہی میں محبوبہ کی نظربندی کو پانچ نومبر 2020 تک کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)