دی وائر کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں صفیہ عبداللہ خان نے بتایا کہ ان کے والد فاروق عبداللہ پر پی ایس اے لگائے جانے سے پوری فیملی حیران ہے۔
عمر عبداللہ، صفیہ عبداللہ اور فاروق عبداللہ (فوٹو : فائل / ٹوئٹر)
سرینگر:’میرے بھائی عمر اور والد فاروق عبداللہ کے ساتھ
حکومت ہند نے جس طرح کا برتاؤ کیا ہے اور جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ جس طرح سے ختم کر دیا گیا ہے، اس کے بعد وہ ٹھگا ہوا محسوسکر رہے ہیں۔ ‘۔ یہ کہنا ہے صفیہ عبداللہ کا۔صفیہ–عبداللہ فیملی کی وہ پہلی رکن ہیں، جنہوں نے 5 اگست کو جموں و کشمیر کو ملے خصوصی آئینی درجے کو ختم کرنے اور نیشنل کانفرنس کے دونوں رہنماؤں کی حراست کے بعد اپنی چپی توڑی ہے۔
دی وائر کو دئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں صفیہ عبداللہ خان نے 15 ستمبر کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت اپنے والد فاروق عبداللہ کی گرفتاری پر بھی
افسوس کا ا ظہار کیا اور بتایا کہ اس رات 11:30 بجے ان کو اس ظالمانہ قانون کے تحت ان کی گرفتاری کے حکم کے بارے میں بتایا گیا۔صفیہ نے بتایا،’وہ سوئے ہوئے تھے، جب مجسٹریٹ اور ان کے ساتھ آئے دیگر افسروں نے ان کو جگایا۔ انہوں نے پہلے ان کی صحت کے بارے میں پوچھا اور اس کے بعد ان کو ایک سرکاری خط سونپا جس میں ان کی گرفتاری کی بنیادوں کی وضاحت دی گئی تھی۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور فی الحال سرینگر کے رکن پارلیامان فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت گرفتار کئے گئے سب سے متاثر کن نام ہیں۔ یہ قانون افسروں کو ‘پہلی بار جرم کرنے والوں ‘ کو بنا ٹرائل کے تین مہینے تک حراست میں لینے کا حق دیتا ہے۔
فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)
سوموار 16 ستمبر کو تین بار وزیراعلیٰ رہے عبداللہ کے گپکر روڈ واقع رہائش گاہ کو جیل قرار دیا گیا۔ 1978 میں فاروق عبداللہ کے والد اور نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبداللہ نے ٹمبر اسمگلنگ سے نپٹنے کے لئے پی ایس اے نافذ کیا تھا۔حالانکہ، گزشتہ سالوں میں اس قانون کا استعمال علیحدگی پسند رہنماؤں اور کارکنان، پتھربازوں اور دہشت گردوں کے خلاف کیا گیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے جب پی ایس اے کا استعمال ریاست کے ایک بڑے قد کے ‘مین اسٹریم کے ‘ یعنی ہندوستان حامی رہنما کے خلاف کیا گیا ہے۔
پانچ اگست کو وزیر داخلہ امت شاہ کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت کے ساتھ ہی ہندوستانی یونین کے تحت ریاست کے طور پر ا س کے درجے کے
خاتمے کے اعلان کے فوراً بعد فاروق عبداللہ کو نظربند کر دیا گیا تھا۔ حالانکہ، قانون سازمجلس میں شاہ نے نیشنل کانفرنس کے رہنما کو حراست میں نہیں لئے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔صفیہ اپنے والد کے گھر کے بغل والے گھر میں رہتی ہیں، لیکن ان کو اگلے دن صبح اپنے والد پر پی ایس اے لگائے جانے کی جانکاری ملی، جب وہ اپنے دو بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لئے باہر نکلیں۔
انہوں نے بتایا،’میں اپنے بچوں کو آرمی اسکول پہنچانے کے لئے گھر سے نکلنے والی تھی، جب میں نے کچھ ملازمین کو باہر دیکھا، لیکن تب تک مجھے پوری بات سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ جب میں واپس آئی اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے، تب مجھے بتایا گیا کہ میرے والد پر پی ایس اے لگا دیا گیا ہے۔ ‘صفیہ نے بتایا کہ انہوں نے فوراً ہی گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی’لیکن ان کو اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ‘
گیلی آنکھوں سے صفیہ نے کہا، ‘یہ میرے لئے بےحد گھبراہٹ بھرا لمحہ تھا۔ میں نے افسروں سے درخواست کی کہ کم سے کم انٹرکام سے میرے والد سے بات کروا دیں۔ ان کی آواز سنتے ہی میں رونے لگی۔ ‘صفیہ نے بتایا کہ اس کے بعد وہ اپنے بھائی اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ سے ملنے ہری نواس میں بنائی گئی جیل میں گئیں۔ ‘ عمر کو افسروں سے (پی ایس اے لگائے جانے کے بارے میں) پتہ لگا تھا۔ یہ اس کے لئے بھی حیران کرنے نے والی خبر تھی۔ ‘
فاروق عبداللہ کی خراب صحت کے مدنظر صفیہ کو میڈیکل دیکھ بھال کے لئے ان کے والد سے ملنے کی اجازت دی گئی، مگر یہ بھی کرنے کے لئے ان کو شہر بھرکے چکر لگانے پڑے۔ صفیہ نے کہا کہ ان کو اپنے والد سے ملنے کے لئے سرینگر کے ڈپٹی کمشنر شاہد چودھری سے اجازت لینی پڑی۔صفیہ نے بتایا،’میں نے ڈی سی آفس سے رابطہ کیا، لیکن مجھے بتایا گیا کہ وہ سکریٹریٹ میں ہیں۔ آخری بار میں اپنے دادا (شیخ عبداللہ) کے ساتھ سکریٹریٹ گئی تھی۔ اس بار جب میں وہاں گئی، تب مجھے اس بات کی تھوڑی بھی جانکاری نہیں تھی کہ مجھے کس سے ملنا ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، اپنے بچپن کے گھر کو جیل میں بدلتے ہوئے دیکھنا کافی ڈراونا تھا۔ میں نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ مجھے اپنے ہی گھر میں داخل ہونے کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت ہوگی۔ لیکن ان مشکلات نے مجھے مضبوط بنایا ہے۔ آج مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں شیخ عبداللہ کی پوتی ہوں۔ ‘
جواہرلال نہرو کے ساتھ شیخ عبداللہ(فوٹو بہ شکریہ : وکی میڈیا کامنس)
پی ایس اے کے تحت فاروق عبداللہ کی حراست کو چیلنج دینے کے سوال پر صفیہ نے کہا کہ آنے والے دنوں میں فیملی اس پر فیصلہ کرےگی۔ ‘ ہم لوگ (فیملی) کئی وکیلوں کے رابطہ میں ہیں۔ فی الحال ہمارے سامنے دستیاب تمام قانونی اختیارات پر غور کر رہے ہیں۔ ‘جس بنیاد پر ان کے والد پر پی ایس اے لگایا گیا ہے، اس کو ‘مضحکہ خیز’بتاتے ہوئے صفیہ نے کہا کہ ان کو (فاروق عبداللہ) جو کاغذ دئے گئے، اس میں 2017 کے بعدکے ان کی سیاسی تقاریرکی اخباری کترن شامل تھیں۔
صفیہ نے کہا کہ جس طرح سے مرکز نے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیا ہے، اس کے بعد ان کے بھائی اور والد کو لگ رہا ہے کہ ان کے ساتھ غداری کی گئی ہے۔انہوں نے بتایا،’عام لوگوں کی گالیاں کھانے کے باوجود عمر اور فاروق صاحب ہمیشہ حکومت ہند کے ساتھ کھڑے رہے۔ اپنی پوری زندگی میں وہ ‘آئیڈیا آف انڈیا’کے حق میں کھڑے رہے۔ وہ ہمیشہ ہندوستان کے آئین کے دائرے میں کشمیر مسئلہ کے حل کے حزب میں کھڑے رہے۔ آج ان کے ساتھ جیسا سلوک کیا گیا ہے، اس کے بعد ان کو لگ رہا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ یہ کشمیری کی پہچان سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ ‘
عبداللہ باپ –بیٹے کے علاوہ، مین اسٹریم کے جن رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے، ان میں پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس کے رہنما محمد ساغر، مبارک گل، ناصر اسلم وانی اور سید اخون، جموں و کشمیر پیپلس کانفرنس کے رہنما سجاد لون اورآئی اے ایس سے استعفی دےکر سیاست میں آئے شاہ فیصل شامل ہیں۔کل ملاکر تمام سطحوں پر حراست میں لئے گئے رہنماؤں کی تعداد4000 سے زیادہ ہونے کا اندازہ ہے۔ حکومت نے گرفتاریوں کے اعداد و شماربتانے سے انکار کر دیا ہے۔ مرکز کے قدم کے خلاف مزاحمت کے طور پر صفیہ نے اپنے گھر کے اہم دروازے کے سامنے کالا جھنڈا لگا دیا ہے۔
(جنید کاٹجوسرینگر میں صحافی ہیں۔)