نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے دلیل دی گئی تھی کہ آرٹیکل370کی وجہ سے ریاست میں دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ایسا ہی تھا تو ایک سال بعد مرکزی حکومت سپریم کورٹ میں یہ کیوں کہہ رہی ہے کہ یہاں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ جب تک جموں و کشمیر یونین ٹریٹری رہےگا، وہ اسمبلی انتخاب نہیں لڑیں گی۔انڈین ایکسپریس میں اپنے ایک مضمون میں انہوں نے کہا کہ پچھلی سات دہائیوں میں یونین ٹریٹری کو مکمل ریاست میں تبدیل کیا جاتا رہا ہے اور یہ پہلا موقع ہے جب ایک ریاست کو یونین ٹریٹری میں بدلا گیا ہے۔ یہ جموں و کشمیر کی عوام کی توہین ہے۔
پچھلے سال پانچ اگست کو آناًفاناً میں مرکزی حکومت کی جانب سےجموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد گھاٹی کے لوگوں کے سامنے پیدا ہوئے خوفناک مظالم کے دور کو بیان کرتے ہوئے عبداللہ کہا کہ ریاست کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ہے، اس کو قبول کرنا ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا، ہندوستان کی پارلیامنٹ نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مجموعی طور پر ایک دن سے بھی کم وقت میں پچھلے 70 سالوں سے زیادہ وقت کی تاریخ کو بدل دیا اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ کیے گئے خودمختاریت کےوعدوں کو توڑ دیا گیا۔ اس صبح میں نے ٹیلی ویژن سیٹ پر جو دیکھا، اس کو قبول کرنا ناممکن ہے۔’
کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد عبداللہ سمیت ریاست کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ عمر عبداللہ کو 232 دن کی حراست کے بعد 24 مارچ کو رہا کیا گیا تھا۔نیشنل کانفرنس رہنما نے کہا کہ نریندر مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کے بعد یہ افواہ ضرور اڑی تھی کہ بی جے پی اب آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر دےگی۔ گھاٹی کے لوگوں میں اس وقت خوف اور بڑھ گیا تھا، جب پیرا ملٹری فورسز کی ٹکڑیاں یہاں بھیجی جانی لگیں۔
اس کو لے کرعوام کی جانب سے سوال کیے جانے پر ریاست کے سب سے اعلیٰ عہدے پرفائز گورنر نے جھوٹ بولا اور کہا اسمبلی انتخابات کو دیکھتے ہوئے زیادہ فورسز بھیجی گئی ہیں۔عمر عبداللہ نے کہا،‘بی جے پی کئی سالوں سے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس لیےیہ چونکانے والی بات نہیں تھی اور یہ ان کا انتخابی ایجنڈہ بھی کئی دہائیوں سے تھا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ سرکار نے ریاست کا درجہ کم کرکے اور اسے دوحصوں میں بانٹ کر یہاں کی عوام کو کمتر محسوس کرایا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ پانچ اگست کو اس طرح کا فیصلہ لیے جانے سے پہلے وزیر اعظم نے جموں و کشمیر کے کچھ سینئررہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ اس میٹنگ کو میں بھول نہیں سکتا اور کبھی نہ کبھی اس کے بارے میں لکھوں گا۔ میٹنگ میں شامل ہم میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اگلے 72 گھنٹوں میں ایسا کچھ ہو جائےگا۔
عبداللہ نے کہا، ‘آج تک میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ اس طرح کے قدم کی کیا ضرورت تھی، سوائے اس کے کہ ریاست کے لوگوں کو ہراساں کیا جائےاور ان کی توہین کی جائے۔ اگر بودھ کمیونٹی کے لوگوں کی مانگ لداخ کو یونین ٹریٹری بنانے کی تھی، تو اس سے بھی زیادہ لمبے وقت سے جموں کے لوگ الگ ریاست بنانے کی مانگ کر رہے ہیں۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘اگر مذہب کی بنیادپر یہ بٹوارہ کیا گیا ہے تو سرکار نے یہ نظر انداز کیا ہے کہ لداخ کے لیہ اور کارگل ضلع میں اکثریتی مسلم کمیونٹی ہیں اور کارگل کے لوگ جموں و کشمیر سے الگ کیے جانے پر سخت مخالفت کر رہے ہیں۔’انہوں نے کہا کہ ریاست کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کے اکثر اہتماموں کو ختم کرنے کے لیے کئی دلیلیں دی گئی ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی زمینی سچائی پر کھری نہیں اترتی ہے۔
یہ الزام لگایا گیا کہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے علیحدگی پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور کشمیر میں دہشت گردانہ واقعات بڑھے ہیں۔ اگر ایسا ہی تھا تو ایک سال بعدمرکزی حکومت سپریم کورٹ میں یہ کیوں کہہ رہی ہے کہ جموں و کشمیر میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک یہ دلیل بھی تھی کہ اس آرٹیکل کی وجہ سے ریاست میں غریبی بڑھی ہے، لیکن کوئی بھی اگر اعدادوشمار پرسرسری نظر بھی ڈالےگا تو پتہ چلےگا کہ جموں و کشمیر میں غریبی کی سطح کافی کم ہے۔
ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ بھی الزام لگائے گئے ہیں کہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن اس کی وجہ یہ آرٹیکل نہیں ہے۔ ریاست میں تحفظ کے ماحول کو یقینی نہیں بنائے جانے کی وجہ سے یہاں پر سرمایہ کاری نہیں ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ مرکزکی جانب سے اتنا بڑا فیصلہ لینے کے ایک سال بعد بھی کوئی ایسا سرمایہ دکھانے لائق نہیں ہے۔
انہوں نے آگے کہا کہ جموں و کشمیر کے ساتھ پانچ اگست 2019 کو جو کچھ ہوا وہ آئینی ، قانونی، اقتصادی یا سلامتی کے نظریے سے کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔جموں و کشمیر کو دیا گیا خصوصی درجہ سرکار کا کوئی احسان نہیں تھا۔ بلکہ ہندوستان کے ساتھ اس کو جوڑ نے کی یہ بنیاد تھی۔ جب اسٹیٹ مذہب دیکھ کر ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہو رہے تھے، ایسے میں مسلم اکثریت جموں و کشمیر نے ہندوستانی فوج کے ساتھ پاکستانی دراندازوں کے خلاف لڑائی لڑی اور ہندوستان میں شامل ہوئے۔
اس قدم نے ہندوستان کو موقع دیا کہ وہ اپنا سر انچاکرفخرکے ساتھ کہہ سکے کہ ان کا ملک سیکولر ہے۔
انہوں نے لکھا، ‘جموں و کشمیر نے اپنے خصوصی درجے کی حفاظت کے لیے آئین میں کچھ حفاظتی تدابیر کو یقینی بنانے کی مانگ کی تھی۔ ان پر کوئی وقت کی مہر نہیں تھی۔’عبداللہ نے کہا، ‘ہم نیشنل کانفرنس کے لوگ جموں و کشمیر کے سلسلے میں لیے گئے فیصلے سے راضی نہیں ہیں اور نہ ہی اس کو ہم قبول کرتے ہیں۔ ہم اس کی مخالفت کریں گے، ہماری مخالفت پچھلے سال سپریم کورٹ میں دائر قانونی چیلنج کے طور پر جاری رہےگی۔ ہم نے ہمیشہ جمہوریت اور پرامن اپوزیشن میں یقین کیا ہے۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘جہاں تک میرا سوال ہے، جب تک جموں و کشمیر یونین ٹریٹری رہےگا، میں کوئی بھی اسمبلی انتخاب نہیں لڑوں گا۔ بے حد افسوس ناک ہے کہ ایک سال پہلے آئینی حقوق کوتباہ کر لیا گیا۔ درجنوں رہنماؤں کو حراست میں ڈال دیا گیا اور کئی لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے نظربند کیا گیا۔’