مودی حکومت میں مرکزی وزیر مملکت پرتاپ چندر سارنگی کے انتخابی حلف نامہ کے مطابق، ان کے خلاف ، فسادکرنے، مذہب کی بنیاد پر مختلف فرقوں کے درمیان نفرت کو بڑھاوا دینے،دھمکی اورجبراً وصولی کے الزامات کے تحت مقدمے درج ہیں۔
مرکزی وزیر مملکت پرتاپ چندر سارنگی(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی:گزشتہ 30 مئی کو ہوئے نریندر مودی اور ان کے کابینہ کی حلف برداری کی تقریب میں حلف لینے کے لئے اڑیسہ میں اپنی جھونپڑی سے نکلتے ہوئے کمزور سے دکھنے والے اور ایماندار مانے جانے والے 64 سالہ ایک شخص کی تصویریں
مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر لوگوں کو کافی متوجہ کر رہی ہیں۔یہ تصویریں پرتاپ چندر سارنگی کی ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ آج بھی کہیں آنے-جانے کے لئے ذاتی گاڑی کا نہیں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے بالاسور سے بی جے پی کی ٹکٹ پر لوک سبھا انتخاب جیتا ہے اور اب وہ نریندر مودی حکومت کے دو وزارت میں مرکزی وزیر مملکت ہیں۔
سوشل میڈیا پر کئی سارے لوگ اور یہاں تک کہ کچھ
سینئر صحافی بھی ان کی طرز زندگی، رہن سہن اور سادگی کے لئے ان کی تعریف کر رہے ہیں۔ جیسےکہ -انہوں نے اپنی انتخابی تشہیر بھی
سائیکل پر کی۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا گیا کہ پرتاپ سارنگی کو ‘
اڑیسہ کا مودی‘نام سے جانا جاتا ہے۔ان کے
انتخابی حلف نامہ کے مطابق، ان کے پاس صرف 15000 روپے نقد ہیں۔ ان کی منقولہ جائیداد 1.5 لاکھ روپے اور غیرمنقولہ جائیداد کل 15 لاکھ روپے کی ہے۔ جبکہ 2019 کی لوک سبھا انتخاب میں امیدواروں کی اوسط جائیداد تقریباً
4 کروڑ روپے تھی۔
سارنگی کے حلف نامہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کے خلاف سات مجرمانہ معاملے زیر التوا ہیں۔ ان کے خلاف دھمکی، فساد، مذہب کی بنیاد پر مختلف فرقوں کے درمیان نفرت کو بڑھاوا دینا اور جبراً وصولی کے بھی الزام ہیں۔ان میں سے زیادہ تر معاملے اڑیسہ میں بی جے پی اور بیجو جنتا دل کے اتحاد سے بنی حکومت کے دوران درج کئے گئے تھے۔مارچ 2002 کے ایک واقعہ میں، جب سارنگی آر ایس ایس سے جڑے مشتعل ہندتووادی تنظیم بجرنگ دل کے قومی صدر تھے، تب ان کو اڑیسہ پولیس نے فساد، آگ زنی، حملہ اور سرکاری جائیداد کو نقصان پہنچانے کے
الزام میں گرفتار کیا تھا۔
جس سرکاری جائیداد پر حملہ کیا گیا تھا وہ اڑیسہ اسمبلی کی ہی عمارت تھی۔ الزام ہے کہ اڑیسہ اسمبلی کی اس عمارت پر وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی)، درگا واہنی اور سارنگی کی قیادت میں بجرنگ دل جیسی تنظیموں نے ترشول اور لاٹھیوں سے لیس 500 لوگوں کی بھیڑ جمع کر کے حملہ کروایا تھا۔ بھیڑ مانگکر رہی تھی کہ ایودھیا میں متنازعہ زمین کو رام مندر کی تعمیر کے لئے سونپ دیا جائے۔جنوری 1999 میں بھی اڑیسہ میں بجرنگ دل کے صدر سارنگی تھے، الزام ہے کہ تب ایک
آسٹریلیائی مشنری گراہم اسٹینس اور ان کے 11 اور 7 سال کی عمر کے دو بیٹوں کو بجرنگ دل سے جڑے ایک گروہ کے ذریعے زندہ جلا دیا گیا تھا۔
گراہم اسٹینس اور ان کے بیٹے کیونجھر کے منوہرپور گاؤں میں ایک اسٹیشن ویگن میں سو رہے تھے، جب اس ویگن کو بھیڑ نے آگ لگا دی تھی۔سارنگی سے اس معاملے میں پوچھ تاچھ کی گئی تو انہوں نے اس میں شامل ہونے سے انکار کیا۔ استغاثہ فریق نے اس سے دوبارہ پوچھ تاچھ نہیں کی۔اس وقت آر ایس ایس اور سارنگی کی قیادت میں بجرنگ دل عیسائی مشنریوں کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ ان لوگوں نے مشنریوں پر الزام لگایا تھا کہ وہ لوگ آدیواسیوں کا جبراً مذہب تبدیل کرا رہے ہیں۔فروری 1999 میں
ریڈف کو دئے ایک انٹرویو میں سارنگی نے اس بات سے انکار کیا کہ بجرنگ دل گراہم اسٹینس اور ان کے بیٹوں کے قتل میں شامل تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے قتل کی مذمت بھی کی تھی۔
اس وقت انہوں نے اڑیسہ میں عیسائیوں کی بڑھتی آبادی کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا اور عیسائی مشنریوں پر طاقت کے زور پرلوگوں کا مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگایا تھا۔یہ پوچھے جانے پر کہ اڑیسہ میں عیسائی مشنریوں کے ذریعے کئے گئے کاموں کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے، سارنگی نے کہا، ‘ چند ایک کو چھوڑکر زیادہ تر عیسائی مشنریاں بےوقوف ہیں۔ ‘واضح ہو کہ رکن پارلیامان چنے جانے سے پہلے پرتاپ چندر سارنگی اڑیسہ کے نیلگری اسمبلی سے 2004 اور 2009 میں ایم ایل اے چنے جا چکے ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں بھی کھڑے ہوئے تھے، لیکن تب ان کو ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔