دنیا بھر میں جیل میں بند صحافیوں کی تعداد اس سال ریکارڈ سطح پر پہنچی: سی پی جے رپورٹ

02:49 PM Dec 19, 2022 | دی وائر اسٹاف

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کی جانب سے  جاری ایک  رپورٹ کے مطابق،  یکم دسمبر 2022 تک دنیا بھر کے 363 رپورٹرز/صحافیوں کو ان کے پیشے کی وجہ سے مختلف ممالک کی حکومتوں نے جیلوں میں ڈالا ہے۔ ان میں ہندوستان کے سات صحافی بھی شامل ہیں، جن میں سے تین ایک سال سے زیادہ سے جیل میں ہیں۔

جیل میں بند ہندوستانی صحافی –  روپیش کمار، گوتم نولکھا، صدیق کپن، فہد شاہ، آصف سلطان اور سجاد گل۔

نئی دہلی: کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے اطلاع دی ہے کہ اس سال دنیا بھر میں اپنے پیشے کی وجہ سے جیل میں ڈالے گئے  صحافیوں کی تعداد ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق،  سی پی جے نے کہا کہ دنیا بھر میں یکم دسمبر 2022 تک 363 رپورٹرز/صحافی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔سی پی جے نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ایک نیا گلوبل ریکارڈہے، جو پچھلے سال کے اعداد و شمار سے 20فیصد زیادہ ہے۔ اس نے مزید کہا کہ یہ ‘میڈیا کے بگڑتے ہوئے منظر نامے کی سنگین حالت کی عکاسی کرتا ہے’۔

سی پی جے ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے،  جو صحافیوں کے محفوظ طریقے سے اور انتقامی کارروائی کے خوف کے بغیر رپورٹ کرنے کے حق کے دفاع کے لیے کام کرتی ہے۔ اس نے اپنی سالانہ جیل سینس (مردم شماری) گزشتہ بدھ کو جاری کی ہے۔ یہ مسلسل ساتواں سال ہے جب دنیا بھر میں 250 سے زائد صحافی  جیل میں بند رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق،  رواں سال صحافیوں کو قید کرنے کے معاملے میں ایران، چین، میانمار، ترکی اور بیلاروس سرفہرست پانچ ممالک  ہیں۔سی پی جے نے کہا کہ کووڈ19 وبائی امراض اوراور یوکرین پر روسی حملے کے دوہرے بحران کے بیچ آمرانہ حکومتیں’عدم اطمینان  کو باہر آنے سے روکنے کے لیے میڈیا کو دبانے کی  جابرانہ کوششیں تیزکر رہی ہیں۔

ہندوستان کی حالت

رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں اس وقت سات صحافی جیل میں  ہیں،  جن میں’کشمیر نیریٹر’ کے آصف سلطان، سجاد گل، گوتم نولکھا، منن ڈار، صدیق کپن، فہد شاہ اور روپیش کمار سنگھ شامل ہیں۔

سال 1992 میں سی پی جے کی جانب سے یہ مردم شماری شروع کرنے کے بعد سے  یہ لگاتار دوسرا موقع ہے، جب ہندوستان میں یہ تعداد  ریکارڈ سطح پر  رہی ہے۔ سی پی جے کے اعداد و شمار کے مطابق،  ملک میں گزشتہ سال بھی سات صحافی جیل میں تھے۔

سی پی جے نے کہا کہ میڈیا کے ساتھ ہندوستانی حکومت کے برتاؤ، خاص طور پر اس کے کڑے حفاظتی قوانین – جیسے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) – کو استعمال کرنے کو لے کر اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کا استعمال کشمیری صحافیوں- آصف سلطان، فہد شاہ اور سجاد گل کو ‘الگ الگ مقدمات میں عدالت کی طرف سے ضمانت ملنے کے باوجود’ جیل میں رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔

جیل میں بند سات صحافیوں میں سے چھ کے خلاف یو اے پی اے کے تحت تحقیقات کی جا رہی ہیں یا ان پر اس کڑے قانون کے تحت الزام  عائد کیے گئے ہیں۔ ان سات میں سے تین ایک سال سے زیادہ سے جیل میں ہیں۔

جموں و کشمیر میں ‘کشمیر نریٹر’ کے رپورٹر آصف سلطان 27 اگست 2018 (4 سال 3 ماہ) سے جیل میں ہیں۔ ان کو شروع میں یو اے پی اے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن اس کیس میں ضمانت ملنے کے بعد اس سال اپریل میں ان کو دوبارہ پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔

کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو اتر پردیش پولیس نے 5 اکتوبر 2020 کو گرفتار کیا تھا اور وہ 2 سال 2 ماہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کو  ہاتھرس ریپ کے خلاف مظاہروں سے متعلق ایک مبینہ بڑے سازش  کے معاملے میں ضمانت دے دی تھی، لیکن وہ اس وقت منی لانڈرنگ کے ایک کیس میں جیل میں ہیں۔

آزاد صحافی اور کارکن گوتم نولکھا کو پونے پولیس نے  14 اپریل 2020 کو ایلگار پریشد کیس کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے نظر بند کیے جانے سے قبل انہوں  نے 30 ماہ سے زیادہ جیل میں گزارے تھے۔

ایک اور آزاد صحافی منن ڈار کو 10 اکتوبر 2021 کو جموں و کشمیر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ‘دہشت گردی کی سازش’ کے مقدمے میں ملوث ہونے  کے الزا م میں ڈار 1 سال اور 2 ماہ جیل میں گزار چکے ہیں۔

’کشمیر والا‘ میگزین کے سجاد گل اس سال جنوری سے جیل میں ہیں۔ انہیں سب سے پہلے ایک احتجاجی مظاہرہ  کی ویڈیو ٹوئٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ کیس میں ضمانت ملنے کے بعد انہیں پی ایس اے کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔

فہد شاہ کا تعلق بھی کشمیر والا سے ہے۔ اسے اس سال فروری میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب فوج نے ان پر اسکول کے ایک پروگرام کے بارے میں ‘فرضی خبر’ پھیلانے کا الزام لگایا تھا۔ اس کے بعد ان کے خلاف مزید دو مقدمات درج کیے گئے۔ ان کو اس ماہ کے شروع میں ایک مقامی عدالت نے دو مقدمات میں ضمانت دی تھی، لیکن وہ ایک اور کیس میں ابھی بھی  حراست  میں ہیں۔

جھارکھنڈ کے ایک فری لانس صحافی روپیش کمار سنگھ کو جولائی 2022 میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کے خلاف دو اور مقدمات درج کر لیے گئے۔

عالمی صورتحال

رپورٹ کے مطابق، گزشتہ  ایک سال  میں ایران کا حال سب سے زیادہ خراب رہا ہے، جہاں حجاب کے قانون کو مبینہ طور پر توڑنے کے الزام میں گرفتار22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران ‘درجنوں صحافی’ کو گرفتار کیا گیا۔

سی پی جے نے کہا ، حکام نے ریکارڈ تعداد میں خواتین صحافیوں کو حراست میں لیا ہے –  احتجاج شروع ہونے کے بعد سےگرفتار  49  لوگوں میں سے 22 خواتین ہیں، جو اس بات کی عکاسی کرتاہے کہ خواتین کی قیادت والے  ان مظاہروں کو کور کرنےان کا  اہم رول رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، وہیں چین میں حکام نے حکومت کی زیروکووڈ  لاک ڈاؤن پالیسیوں پر حالیہ مظاہروں کے دوران آن لائن سنسرشپ کو سخت کر دیا ہے، مظاہروں کی کوریج کے دوران متعدد صحافیوں کو کچھ وقت کے لیے  حراست میں لینے کی اطلاع ہے۔

سی پی جے نے کہا کہ،روس سے لے کر نکاراگوا اور افغانستان تک بہت سے ممالک میں آزاد میڈیا آؤٹ لیٹس کو تباہ کر دیا گیا ہے کیونکہ صحافی یا تو جلاوطن ہو گئے ہیں یا انہیں ڈرا دھمکا کر سیلف سنسر شپ کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔الگ الگ ممالک میں جابرانہ حکمت عملی مختلف  ہیں ،  لیکن سی پی جے کی مردم شماری میں درج کیے گئے معاملے ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے پیچھے ‘سرکاری بربریت اور انتقام  کا جذبہ قدرے مشترک ہے۔’

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو قید کرنا ‘صرف ایک طریقہ بھر’ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آمر رہنما کس طرح آزادی صحافت کو سلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سی پی جے نے کہا، دنیا بھر کی حکومتیں ‘فیک نیوز’ کے قوانین جیسے حربے اپنا رہی ہیں، صحافت کو جرم بنانے کے لیے مجرمانہ ہتک عزت اور مبہم قوانین کا استعمال کر تے ہوئے قانون کی حکمرانی اور عدالتی نظام کا غلط استعمال کررہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی  صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے خلاف جاسوسی کرتے ہوئے ٹکنالوجی کا بھی غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔