سوموار کو نوح میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد ریاست کے وزیر داخلہ انل وج نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم فسادیوں نے نلہر مہادیو مندر میں تقریباً 3-4 ہزار لوگوں کو یرغمال بنایا تھا۔ مندر کے پجاری نے دی وائر کو بتایا کہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ حالات خراب ہونے کی وجہ سے لوگ وہاں پھنسے ہوئے تھے۔
نوح کے نلہر مہادیو مندر کا مین گیٹ۔ (تمام تصاویر: اتل ہووالے/دی وائر)
نوح: ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج کے یہ دعویٰ کرنےکہ —سوموار کو نوح میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے دوران مسلم فسادیوں نے مبینہ طور پر ‘ایک مندر میں تقریباً 3000-4000 لوگوں کو یرغمال بنالیا تھا’— کے ایک دن بعد اسی مندر کے پجاری نے اس طرح کے دعوے کی تردید کی ہے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے نلہر مہادیو مندر، جہاں وِج نے دعویٰ کیا کہ لوگوں کو’یرغمال’بنایا گیا تھا،کے پجاری دیپک شرما نے کہا، مندر میں عام طور پر ساون کے مہینے میں عقیدت مندوں کی آمد ورفت زیادہ ہوتی ہے۔سوموار کو شوبھا یاترا کی وجہ سے عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ وہ شوبھا یاترا کے دوران(پوجا کرنے کے بعد) آتے جاتے رہے۔’
جب شرما سے پوچھا گیا کہ کیا عقیدت مندوں کو’یرغمال بنایا گیا’، تو انہوں نے کہا، ‘لوگوں کویرغمال کیا بنائیں گے، وہ بھگوان کی پناہ میں تھے۔ اچانک پتہ چلا کہ ماحول خراب ہے۔ حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہ اندر پھنس گئے۔’
ایسے وقت میں جب جھڑپیں جاری تھیں اور حالات قابو میں نہیں تھے، ریاست کے وزیر داخلہ کے متنازعہ دعوے نے صورتحال کو مزید بھڑکانے کا کام کیا اور سوموار کو جھڑپوں حوالے سےتشویش پیدا کر دی تھی۔
نلہر مہادیو مندر نوح کے مرکزی شہر سے بہت دور واقع ہے۔ یہ پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے اور مانا جاتا ہے کہ یہ پانڈووں کے زمانے سے موجود ہے۔
نوح میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سوموار کو اس وقت فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئی تھیں جب ہندو توا گروپوں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے زیر اہتمام’ برج منڈل جلابھشیک یاترا’ نامی ایک مشتعل مذہبی جلوس نوح سے گزر رہا تھا۔
یاترا سے پہلےہندوتوا کارکنوں کی طرف سے کئی نفرت انگیز ویڈیوز علاقے میں نشر کیے گئے، جس کے بعد کچھ مسلم نوجوانوں کی جانب سےمونو مانیسر جیسے ہندوتوا کارکنوں کے نوح میں داخل ہونےسے متعلق چیلنج کرنے والے اسی طرح کے ویڈیوسوشل میڈیا پر سامنے آئے۔
سوموار کوپولیس نے دعویٰ کیا کہ ایک بھیڑ نے نوح میں یاترا کو پرتشدد طریقے سے روکنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے جھگڑا ہوا جو بعد میں پوری طرح سے فرقہ وارانہ دنگے میں تبدیل ہو گیا۔ اس کا اثر پاس کے گڑگاؤں میں بھی دیکھنے کو ملا ، جہاں سوموار کی دیر شام ایک
مسجد کو آگ لگا دی گئی۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے نوح کے مسلمانوں نے کہا کہ تشدد کے ہونے کا انتظار تھا کیونکہ ضلع انتظامیہ دونوں برادریوں میں ‘غیر سماجی عناصر’ پر لگام لگانے میں مسلسل ناکام رہی۔
تاہم، جھڑپیں شروع ہونے کے بعد بی جے پی لیڈروں نے علاقے میں فرقہ وارانہ عداوت کو ہوا دینے کی کوشش کی، وہیں وزیر داخلہ وج نے علاقے میں مرکزی فورسز کی تعیناتی کا مطالبہ کیا۔
نوح کے ایک رہائشی نے کہا، ’یہ واضح نہیں ہے کہ پتھراؤ کس نے شروع کیا، لیکن دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔‘ انہوں نے کہا کہ ہندوتوا کارکنوں کی طرف سے مسلسل اشتعال انگیزی کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
نوح میں فسادات کے درمیان مشتعل گروپوں نے کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔
سوموار کی جھڑپوں کے بعد مذہبی خطوط پر پولرائزیشن واضح ہے۔ ہندو برادری کےلوگوں نے دی وائر کو بتایا کہ مسلمانوں کی بھیڑ نے ان کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی،یہاں تک کہ شراب کی دکانوں کو بھی لوٹ لیا، اور کئی کاروں کو آگ لگا دی۔
مقامی لوگوں کے مطابق، تشدد دوپہر 12 بجے شروع ہوا اور رات 8 بجے تک جاری رہا۔ پولیس صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں سوموار کو تین افراد ہلاک ہو گئے۔ بجرنگ دل کے زخمی کارکنوں کو پڑوسی ایس ایچ کے ایم میڈیکل کالج لے جایا گیا۔
فسادات کے ایک دن بعد منگل کو نوح تناؤ کا شکار رہا۔
گڑگاؤں کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس نشانت کمار یادو نے منگل کو کہا کہ نام نہاد ‘شوبھا یاترا’کے دوران سوموار کو اچانک رونما ہونے والے واقعات سے معاملہ مزید خراب ہو گیا۔ یادو نے کہا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی غلط معلومات نے نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکانے میں رول ادا کیا ہوگا۔
انہوں نے کہا،بڑے پیمانے پر افواہ پھیلنے کی وجہ سے ایک چھوٹی سی جھڑپ نے اچانک فرقہ وارانہ دنگے کی صورت اختیار کرلی’۔ انہوں نے مزید کہا کہ تشدد اچانک پھوٹ پڑا، یہی وجہ تھی کہ ضلع انتظامیہ بروقت خاطر خواہ فورس تعینات نہیں کر سکی۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع پولیس نے پہلے ہی تقریباً 25-30 ایف آئی آر درج کی ہیں اور حالات کشیدہ ہیں، لیکن اس وقت قابو میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فسادات میں ہلاک ہونے والے تین افراد کے علاوہ 60 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ موہت یادو عرف مونو مانیسر کا نام کسی ایف آئی آر میں نہیں ہے۔ مانیسر کا ایک ویڈیو، جس میں وہ ہندوؤں سے یاترا میں شرکت کے لیے اشتعال انگیز اپیل کرتا ہوا نظر آ رہا ہے، پچھلے دو دنوں سے وہاٹس ایپ پر بڑے پیمانے پر گردش کر رہا تھا۔
مانیسر بجرنگ دل کا کارکن ہے جو اس سال کے شروع میں بھیوانی میں دو مسلمانوں جنید اور ناصر کے اغوا اور قتل معاملے کاکلیدی ملزم ہے۔ اس کے بعد سے وہ فرار ہے، لیکن اس نے ایک ویڈیو جاری کیا تھا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ وہ سوموار کو شوبھا یاترا میں شامل ہو گا۔ اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہتھیار لہرانے اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز ویڈیو سے بھرے پڑے ہیں۔
رمضان چودھری،جو اس امن کمیٹی کے رکن ہیں جو یاترا کے لیے ضلع انتظامیہ کی طرف سے تشکیل دی گئی تھی،نے کہا، ’سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے ویڈیو، خاص طور پر مونو مانیسر اور بٹو بجرنگی کے، جن میں مسلمانوں کے بارے میں قابل اعتراض اورتوہین آمیز تبصرے کیے گئے ہیں، اس نے شدیدتناؤ پیداکیا۔ بالآخر دونوں برادریوں کے بے عقل اور بے وقوف لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔’
چودھری نے کہا، ‘اسی لیے میں نے پولیس کو اطلاع دی تھی کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ پولیس نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ وہ مونو مانیسر کو یاترا میں شرکت کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن تب تک معاملات قابو سے باہر ہو چکے تھے۔
چودھری نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے تین دن پہلے ضلع سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سے ممکنہ گڑبڑی کے بارے میں بات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ،پچھلے سال بھی ایک مزارکوتوڑ دیا گیا تھا، لیکن بھائی چارہ قائم رہا کیونکہ دونوں برادریوں نے کسی بھی قسم کے واقعے کو بڑھنے سے روک دیا۔ لیکن اس بار کچھ ویڈیو واقعی مسلمانوں کے خلاف زہر آلود تھے۔ ایک ویڈیو میں بٹو بجرنگی نامی شخص نے کہا کہ نوح ہندو برادری کی سسرال ہے۔’
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ پتھراؤ کس نے اور کس برادری کے لوگوں نے شروع کیا اور یہ تحقیقات کا معاملہ ہے۔ لیکن چودھری نے دعویٰ کیا کہ نوح کے میوالی اسکوائر میں ایک مسلم وکیل کے گھر پر ایک ایسا ہی حملہ بالآخر مسلمان بھیڑکو بھڑکانے کی وجہ بنا۔
انہوں نے بھی مندر میں ہندوؤں کو ‘یرغمال بنائے جانے ‘ کے کسی بھی دعوے کی تردید کی اور کہا کہ ضلع پولیس کی موجودگی میں پولیس نے تشدد میں پھنسے لوگوں کو مندر کے احاطے میں پناہ لینے کو کہا تھا۔
چودھری نے کہا، ’یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن وامان کو بگاڑنے اور برادریوں کے درمیان انتشار پیدا کرنے کی پہلے سے منصوبہ بند کوشش معلوم ہوتی ہے۔
زیادہ تر مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ یاترا سے قبل دونوں مذاہب کے لوگوں کی جانب سے جس طرح سے سوشل میڈیا پر ویڈیو نشر کیے جا رہے تھے، اس کو دیکھتے ہوئے ضلع انتظامیہ کو یاترا کو مسلم اکثریتی نوح میں داخل ہونے سے روکنا چاہیے تھا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)