ایک ملک میں اتنا تھوک کب آتا ہے؟تب، جب ماہرین تھوک اپنے قابل پرستش رام ، جنہوں نے شبری کے جھوٹے بیر کھائے تھے، کے نام پر جھوٹ کی تشہیر کرتے ہیں۔جب ایک صحت مند معاشرے کی قدروں پر زوال آتا ہے، اس کی شرم کھوکھلی اور اس کے آدرش بونے ہو جاتے ہیں ، تب جب اس کی ہرچھوٹی بڑی اخلاقیات ختم ہو جاتی ہے۔
‘تھوک جہاد’ کے نام پرمذہبِ خاص کےفرضی ویڈیو کا چلن عام ہوچکا ہے۔
کبھی کسی باورچی کےگرم روٹی پر ہوا پھونکنے پر اس جھوٹ کی تشہیر کی جاتی ہے ،تو کبھی کسی کےدعا کرنے کےبعد پھونکنے پراس کوخیالی تھوک سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
گزشتہ اتوار کو بی جے پی کےچھوٹے بڑے لیڈروں، ٹرول اور دائیں بازو کےنفرت انگیز مہم چلانے والے میڈیا نے اداکار شاہ رخ خان کا ایک ویڈیو وائرل کر دیا،جس کے بعد بعض ایسے سوالوں کا سیلاب ساآگیا: ‘شاہ رخ نےبھی تھوک دیا۔ایسے کون تھوکتا ہے کسی کی وفات پر؟ اوہ! وہ تو مسلمان ہے،تبھی۔ یار یہ مسلمان اتنا کیوں تھوکتے ہیں؟’
کیوں تھوکتے ہیں؟ کیسے تھوکتے ہیں؟ کیا ویسے ہی، جیسے تبلیغی جماعت نرسوں پر تھوک رہی تھی؟ جیسے سبزی فروش تھوک رہے تھے۔ جیسے ہوٹلوں میں مسلمان تھوکتے ہیں؟
اگر آپ ٹی وی کے ناظر ہیں ، تو یہ جھوٹ اور زہر آپ تک ضرور ہی پہنچا ہوگا۔اصل ویڈیو میں شاہ رخ خان فاتحہ پڑھ رہے ہیں یا شاید انا للہ و انا الیہ راجعون کہہ رہے ہیں۔لیکن یہاں بات شاہ رخ کی بے گناہی کی نہیں ہے، یہ تو اصل میں ان جیسے لوگوں کے لیے ہمیشہ شکوک وشبہات پیدا کرنے والوں کی بات ہے۔
سینئر صحافی راہل دیو نے لکھا، مجھے بھی پہلےسمجھ نہیں آیا تھاکہ شاہ رخ نے جھک کرکیا کیا۔ نہیں معلوم تھا کہ یہ دعا پڑھنے کا طریقہ ہے۔ہوسکتا ہے دوسروں کو بھی پتہ نہ ہو۔ لیکن عدم واقفیت سےبراہ راست تضحیک آمیز تبصروں پرپہنچ جانے کے لیے صریح حماقت، بدتمیزی اور نفرت انگیز سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔
حالانکہ یہ سوال بذات خوداہم ہےکہ 22 کروڑ لوگوں کے اس عقیدے کے بارے میں راہل دیو جیسے بڑے صحافی بھی نہیں جانتے تھےتو آپ عام ہندوؤں سے اس کی امید نہیں رکھ سکتے، لیکن راہل دیو کا دوسرا نکتہ اس سے زیادہ اہم ہے کہ – آپ کی لاعلمی، دوسروں کو ذلیل کرنے کی وجہ نہیں بن سکتی۔
یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ بار بار حقائق کی جانچ اور پڑتال کے باوجود بی جے پی کے لوگوں کی طرف سے ‘تھوک جہاد’ کا منحوس پروپیگنڈہ، ان کی لاعلمی ہے۔
‘دانستہ سازش اور تھوک کا دلدل’
غلط سیاق وسباق کے ساتھ فارورڈ کیے گئے ویڈیو کا مقصد صرف ایک مخصوص مذہب کو جان بوجھ کر مکروہ اور غیر مہذب قرار دیناہی نہیں بلکہ انہیں اکثریتی معاشرے کے تئیں نفرت سے بھرا ہوادکھانے کی سازش بھی ہے۔
اس جھوٹ کے ساتھ ویڈیو چلانے والوں کا عقیدہ ہے کہ عام لوگ ان کی بات مانیں گے ہی کیونکہ اگر تعصبات اور ٹی وی مباحثوں سے حاصل ہونے والی معلومات کو شمار نہ کیا جائے تو مسلمانوں کے بارے میں سچ میں لوگ بہت کم جانتے ہیں۔
لیکن یہ واضح ہے کہ اس طرح کے جھوٹے ویڈیو چلانے والے’تھوک’لفظ سے پیدا ہونے والی کراہیت اور نفرت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہ کسی بھی چیز یا کسی بھی موضوع پر تھوکےجانے کی تردید کرتے پائے جاتے ہیں۔
تو ان کی جانب سےہمیں بتایا جاتا ہے کہ صرف وہی لوگ تھوکتے ہیں جو کسی خاص مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کی کبھی داڑھی نوچی جاتی ہے، کبھی مسجد توڑی جاتی ہے،توکبھی گھر اور دکان کو آگ اور جے سی بی کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ وہ حجاب والی بچیاں بھی تھوک رہی ہیں، جن کے کانوں میں بیٹی پڑھاؤ کا جملہ پڑا تھا۔ وہ خواتین بھی ،جنہیں ماہرین تھوک بازار میں آن لائن نمائش لگا کر فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ تھوک وہ ماں بھی رہی ہے،جس کا بیٹاکسی یونیورسٹی سے غائب ہو گیا۔ تھوک وہ بیٹی بھی رہی ہے جس کے باپ کو بھیڑ نے زندہ نوچ کھایا۔
یہ تمام لوگ ‘تھوک’ سے نفرت کے پس پردہ سماجی جذبات کو بخوبی جانتے ہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ماہرین تھوک کو معاشرے میں وہاں یہ علامتی تھوک کیسے نظر نہیں آتا ،جہاں یہ سچ مچ موجود ہے؟ ان کی پینی نظریں، مذہبِ خاص کا حوالہ دیکھتے ہی ہوا میں اپنے آپ تھوک پیدا کرہی لیتی ہیں۔ حقائق اور رپورٹس آپ تک پہنچنے والے نہیں، تو اس تھوک کے بارے میں کچھ باتیں جان لیجیے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم تھوک کے دلدل میں آہستہ آہستہ غرق ہو رہے ہیں۔ بہت کم وقت بچا ہے، لگتا ہے ہم ڈوب جائیں گے۔اب تھوک ہر طرف ہے۔ ہر منہ میں جیسےتھوک کا سمندر بھر گیا ہے۔کبھی یہ تھوک ان کسانوں کے منہ سے نکلے خون کے ساتھ مل جاتا ہے ،جن کی پسلیاں وزیر موصوف کے بیٹےنے اپنی موٹر کے ٹائر سے گیہوں سمجھ کر کو پیس دی تھی۔ کبھی یہ بے روزگاروں کے تو کبھی غریبوں کے آنسوؤں میں مل جاتا ہے۔ کبھی سینکڑوں میل پیدل چل کرگھر جاتے مزدوروں کےمسخ شدہ جسموں میں ، جو لاک ڈاؤن کے دوران پٹریوں پر مارے گئے۔
یہ کبھی اس عیسائی خاتون کے غصےکے ساتھ بھی ملاتھا، جس کی چرچ میں اس کےعیسیٰ کے مجسمے کو ماہرین تھوک نے توڑ دیا تھا۔ ان ماہرین تھوک کی خوش قسمتی ہے کہ وبائی امراض کے دوران اسپتال کے اندر اور باہر اپنی جان گنوا نے والے لوگ تھوک اکٹھا کرنے کے لیے سانسوں کی بھیک مانگنے میں مصروف رہ گئے۔
ماہرین تھوک کی یکے بعد دیگرےنسل اس قدر خوفزدہ ہے کہ انہوں نے دلتوں کو اچھوت اور غیر مرئی بنانے پر زور دیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا تھوک ان کے پاس آ جائے۔
اور پھر ان لوگوں کا بھی تھوک ہے جن سے یہ ماہرین تھوک نفرت کرتے ہیں۔ وہ مصنف ہیں، جن کی کتاب ماہرین تھوک نے جلادی۔ وہ صحافی ہے، جس کا قلم ماہرین تھوک توڑنا چاہتے ہیں۔ وہ طالبعلم ہے جس کابستہ ماہرین تھوک نے نذر آتش کردیا۔ جس مزاحیہ فنکار کی مسکراہٹ ماہرین تھوک نے چھین لی۔جس فلمساز کی فلمیں ماہرین تھوک نے روک دیں۔جس ہیرو کو ماہرین تھوک نے عوام کی نظروں میں ولن بنا دیا۔
اکثر ہندوستانی کےاپنا منہ بند رکھنے کی ان کی کوششوں کے باوجودتھوک نے ہمیں کسی سیلاب کی طرح گھیر لیا ہے- تھوک اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ماہرین تھوک کو ‘یواے پی اے’ اور ‘سیڈیشن’ نامی بکتر اور چھتریوں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ اس تھوک سے اب ماہرین تھوک کے بادشاہ کےمحل کی دیواروں میں نمی اٹھنے لگی ہے۔
ایک ملک میں اتنا تھوک، خون اور مواد کب آتا ہے؟تب، جب ماہرین تھوک اپنے قابل پرستش رام ، جنہوں نے شبری کے جھوٹے بیر کھائے تھے، کے نام پر جھوٹ پھیلاتے ہیں۔ جب ایک صحت مند معاشرے کی قدروں پر زوا ل آتا ہے، اس کی شرم کھوکھلی اور اس کے آدرش بونے ہو جاتے ہیں ، تب شاید وہ مظلوموں، پسماندہ اور غریبوں کی مزاحمت اور تکلیف کی تھوک کا پیک دان بن جاتا ہے۔ تب یہ ‘تھوک’ ایک اجتماعی شرمندگی کی پکار بن جاتا ہے۔ تنوع سے بھرے معاشرے میں ایک ساتھ اتنا تھوک اورمواد شاید تب آتا ہے، جب اس کی ہر چھوٹی بڑی اخلاقیات کی موت ہوجاتی ہے۔ اسے ‘تھوک جہاد’ کہو یا کچھ اور، اس سےاب ہمارا بچنا بہت مشکل ہے۔
سن 1930 کی دہائی میں، نازی ماہرین تھوک نے عام جرمن اکثریت کو دہشت زدہ کرنے –ان کی وفاداری کوبنائے رکھنے کے لیےکے لیےکنسٹریشن سینٹر جا رہےیہودیوں کے بارے میں اسی طرح کا پروپیگنڈہ اور زہر پھیلایاتھا۔ آج تاریخ نازیوں پر تھوکتی ہے۔یقینی طور پر یہ ایک سبق ہے جس سےہمارے ماہرین تھوک کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔
(اس مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)