متاثرہ لڑکے کی پہچان فیضان کے طورپر کی گئی ہے۔ جانکاری کے مطابق وہ احتجاج یا کسی جھڑپ کا حصہ نہیں تھا۔
نئی دہلی: شاہدرہ کے کردم پوری علاقے میں ایک 14 سالہ مسلمان لڑکے کو شہریت قانون کے حمایتیوں کے ذریعے مبینہ طور پر گولی مار نے کے چھ گھنٹے بعد بھی وہاں کوئی ایمبولنس نہیں پہنچی ہے۔
دی وائر نے اس کو اپنے پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا۔ اس کو کچھ مقامی لوگوں نے شروعاتی راحت(فرسٹ ایڈ)دینے کی کوشش کی ہے۔
متاثرہ لڑکے کی پہچان فیضان کے طورپر کی گئی ہے۔ جانکاری کے مطابق وہ احتجاج یا کسی جھڑپ کا حصہ نہیں تھا۔وہ اس علاقے میں اپنے ایک جاننے والے کے پاس کچھ سامان چھوڑنے گیا تھا۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے کہا کہ ،صبح 11 بجے اس کو گولی ماری گئی۔ تب سے اس کو فرسٹ ایڈ کے علاوہ کوئی طبی امداد نہیں ملی ہے۔
وہاں موجود ایک شخص نے دی وائر کو بتایا کہ ،پولیس وہاں ایمبولنس وہاں پہنچنےسے روک رہی ہے۔خود
دی وائرنے سکیورٹی اہلکاروں کو وہاں سے آدھا کیلومیٹر کے فاصلے پر ایک قطار میں کھڑے دیکھا جہاں فیضان سڑک کے کنارے لیٹا تھا۔حالاں کہ ، اس دعوے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ہے کہ پولیس ایمبولنس کو متاثرہ افراد تک پہنچنے سے روک رہی ہے۔
دہلی پولیس کے جوائنٹ کمشنر آف پولیس آلوک کمار اور ریپڈ ایکشن فورس کے بھاویش چودھری دونوں علاقے میں تھے۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے آر اے ایف کے اہلکار نے کہا کہ فیضان کے لیے ‘گاڑی’ بلائی گئی تھی۔
فیضان کی والدہ کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے اور اس کے والد رام پور میں کام کرتے ہیں ۔وہ فی الحال اپنی دادی کے ساتھ رہتا ہے۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے ان کی دادی نے کہا کہ وہ موجودہ حالات میں بے حد خوفزدہ ہیں اور انہوں نے فیضان کو سختی سے کہا تھا کہ وہ باہر نہ جائے۔
جائے وقوع پر موجود عینی شاہدین نے بتایا کہ،جس نے فیضان کو گولی ماری وہ سی اے اے حامی تھے اور یمنا وہار علاقے سے آئے تھے ،جو کرم پوری کے مغرب میں واقع ہے ۔
غورطلب ہے کہ نارتھ ایسٹ دہلی کے موج پور–بابرپور–جعفرآباد علاقوں میں بھڑکے تشدد میں ایک پولیس اہلکار سمیت 10 لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔ وہیں تشدد میں 48 سے زیادہ پولیس اہلکار اور 100 سے زیادہ شہری زخمی ہیں۔ پولیس نے نارتھ ایسٹ دہلی کے تشدد متاثرہ علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔