جموں وکشمیر میں لگی پابندیوں کی وجہ سے والدین بچوں کی حفاظت کو لے کر پریشان ہیں اور انہیں اسکول نہیں بھیج رہے ہیں۔
ملامہ یوسف زئی، فوٹو: رائٹرس
نئی دہلی: نوبل ایوارڈ یافتہ ملالہ یوسف زئی نے یو این سے کشمیر میں امن کی بحالی کے لئے کام کرنے اور وادی میں بچوں کو پھر سے اسکول بھیجنے میں مدد کرنے کی اپیل کی۔22 سالہ ملالہ نے ٹوئٹر پر کہا کہ وہ ان خبروں سے پریشان ہیں،جن میں کہا گیا ہے کہ کشمیری بچے 40 دن سے زیادہ وقت سے اسکول نہیں جا سکے ہیں اور لڑکیاں گھرسے نکلنے سے ڈر رہی ہیں۔ٗ
یوسف زئی نے کہا،میں یو این جی کے رہنماؤں اور دیگر سے کشمیر میں امن لانے کے لئے کام کرنے ،کشمیریوں کی آواز سننے اور بچوں کے پھر سے اسکول جانے میں مدد کرنے کی اپیل کر رہی ہوں۔ٗ
ان کے اس بیان پر ہندوستانیوں نے ٹوئٹر پر ان کی سخت تنقید کی اور کہا کہ وہ پاکستان میں اقلیت کمیونٹی کے حالات پر خاموش کیوں ہیں؟شیو سینا رہنما پرینکا چترویدی نے ایک ٹوئٹ میں کہا پاکستان اس پر جواب نہیں دیتا کہ دنیا میں اسے کس نظر سے دیکھا جاتا ہے ،کیسے اپنا ایجنڈہ آگے بڑھاتاہے اور کیسے کشمیری لڑکیوں کولے کر اپنی پریشانی کی آڑ میں ملالہ کشمیر پر اس ایجنڈےکو بڑھانے میں مدد کر رہی ہیں لیکن ملالہ کے لئے جس طرح ہندوستانیوں کا پیار امڈ رہا ہے یہ دیکھ کر اچھا لگا…دل کو چھو لینے والا۔ٗ
بی جے پی رہنما شوبھا کرندلاجے نے ایک ٹوئٹ کیا، نوبل ایوارڈ یافتہ سےاپیل ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں پر بھی بولنے کے لئے وقت نکالیں۔جس طرح سے ان کے اپنے ملک میں زیادہ تر لڑکیوں کا جبراً مذہب تبدیل کرایاجا رہا ہے اور ان کو ہراساں کیا جا رہا ہےاس کے خلاف کچھ بولیں۔ترقی پذیر ایجنڈےکی توسیع کشمیر تک کی گئی ہے،کچھ بھی دبایا نہیں گیا ہے۔
جموں و کشمیر کو خاص درجہ دینے والے آرٹیکل 370کے زیادہ تر اہتمام کو مرکزی حکومت کے ذریعے ختم کرنے اور ریاست میں پابندیاں لگانے کے بعد سے وادی میں عام زندگی متاثر ہے۔اسکولوں کو پھر سے کھولنے کی ریاستی حکومت کی کوششوں کو امید کے مطابق کامیابی نہیں ملی ہے کیونکہ بچوں کے والدین بچوں کی حفاظت کے اندیشے کو لے کر انہیں اسکول نہیں بھیج رہے ہیں۔سری نگر میں لوگوں کو اپنے بچوں کو اسکول سے دور رکھنے کی وارننگ دینے والے پوسٹر بھی کچھ جگہوں پر لگےدیکھے گئے ہیں۔ملالہ ایک حقوق انسانی کی معروف کارکن ہیں اور انہیں لڑکیوں کی تعلیم کا محاذ چلانےسے ناراضطالبانی دہشت گردوں نے دسمبر 2012میں گولی مار دی تھی۔